اپنے مفادات کے حصول کے لیے قومی اہمیت کے معاملات کو متنازعہ بنا دینا اہل سیاست کی پرانی ریت ہے۔ ذرا اٹھارہویں ترمیم کو ہی لیجیے۔۔۔ اگر کوئی اس کی کمزوریوں، خامیوں کو دور کرنے کی بات بھی کرتا ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی، بعض صوبائی سطح کی جماعتیں اور نیم پختہ لبرل دانشور اس کے پیچھے ایسے پڑ جاتے ہیں جیسے وہ سنگین غداری یا عوام دشمنی کا مرتکب ہوا ہو۔ اٹھارہویں ترمیم میں ترمیم کی بات پر ان میں سے کسی کو صوبائی خودمختاری خطرے میں دکھائی دیتی ہے اور کسی کو وفاق، لیکن یار لوگ اس متنازعہ ترمیم کا نہ سنجیدگی سے جائزہ لینے کے لیے تیار اور نہ اس پر بحث کے لیے راضی۔ ہاں، یہ اور بات ہے کہ اس ترمیم کو مقدس گائے بنا کر وہ مخصوص حلقوں میں اشتعال اور مرکز و اداروں کے خلاف براہ راست یا بلاواسطہ نفرت پیدا کرنے کے کی کوششیں کرتے ضرور نظر آتے ہیں۔ لیکن اٹھارہویں ترمیم کے ان خودساختہ محافظوں کا شور بے محل اور بلاوجہ ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ حکومت کی طرف سے 22 ماہ گرز جانے کے باجود اٹھارہویں ترمیم میں ترمیم کے لیے نہ کوئی سنجیدہ، ٹھوس تجاویز سامنے آئیں ہیں اور نہ ہی حکمراں جماعت کے پاس پارلیمینٹ میں دوتہائی اکثریت ہے کہ وہ کسی ایسے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔ پر یہ ضرور ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت گاہے گاہے اس ضمن میں ادھ کچی، ادھ پکی بات ضرور کرتی ہے، جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دورہ کراچی میں کی اور جس کے ردعمل میں پھر ’’چائے کی پیالی‘‘ میں زوردار طوفان برپا ہوا۔دوسری اہم بات یہ کہ ملک میں کوئی بھی سیاسی قوت بشمول تحریک انصاف، اس کی اتحادی جماعتیں یا ریاستی ادارے، اٹھارہویں ترمیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے خواہاں نہیں۔ اس ترمیم کے بنیادی فلسفے یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔ لیکن بنیادی فلسفے پر اتفاق کا مطلب یہ نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم آسمانی صحیفہ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کے بنائے ہوئے ہر قانون اور ادارے میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں اور ہوتی آئی ہیں۔ یہی انسان اور اس کے بنائے ہوئے اداروں کے ارتقا کا راز ہے۔ تو پھر اٹھارہویں ترمیم پر جھگڑا کیوں؟ اس کی سامنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ احتساب کا شکار پیپلز پارٹی کے قائدین اٹھارہویں ترمیم کو حکومت اور اداروں پر جوابی دبائوڈالنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں، حمایتیوں کو یقین دلانے چاہتے ہیں کہ ان کے گرد احتساب کا دائرہ صرف اس لیے تنگ ہورہا ہے کہ وہ صوبائی خودمختاری پر ڈٹے رہنے کے خطاوار ہیں۔ صوبائی حکومت کا مرکزی حکومت سے تصادم پیپلز پارٹی کے لیے یوں بھی فائدہ مند ہے کہ وہ سندھ میں اپنی بارہ سالہ دور اقتدار کی کمزوریوں، ناکامیوں اور خراب کارکردگی کو اٹھارہویں ترمیم پر ہونے والی جذباتی بحث میں پس پشت ڈال دیتی ہے اور بحث کا رخ حقیقی کی جگہ ثانوی مسائل میں الجھ جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی، صوبائی یا علاقائی سطح کی جماعتوں اور لبرل عناصر کے چھوٹے سے مرکز گریز گروہ نے اس آئینی بحث کو اس حد تک یرغمال بنایا ہوا ہے کہ وہ تمام قوتیں جو اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیاں لانے کے حق میں ہیں وہ بھی اس معاملے پر معذرات خواہانہ رویہ اپنانے پر مجبور ہیں۔ بیانیے کی لڑائی میں جہاں وہ مضبوطی سے موقف پیش نہیں کر پارہیں، وہیں میڈیا کا بڑا حصہ، خصوصاً انگریزی میڈیا، کمزور مرکز کی حامی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ حکمران جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مربوط طریقے سے اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیوں کی تجاویز سامنے لائے تاکہ اس پر بحث کا آغاز ہو سکے۔ بیشک نئی آئینی ترمیم کے لیے تحریک انصاف کے پاس نہ دوتہائی اکثریت ہے اورنہ سازگار سیاسی ماحول کہ جس میں وہ حزب اختلاف کا تعاون حاصل کرسکے، لیکن اس معاملے پر سنجیدہ بحث کا آغاز تو ہونا چاہیے جو اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنے پتے دکھائے۔ 8 اپریل 2010ء میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین میں سو سے زیادہ تبدیلیاں لائی گئیں، جس نے ذولفقار علی بھٹو کے بنائے گئے اس مسودے کا چہرہ مزید مسخ کر دیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ سیکولر پیپلز پارٹی سے لے کر اسفندیار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی اور حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کو مزید امتیازی قوانین کا نشانہ بنایا۔ یعنی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر پابندی عائد کردی کہ وہ صدر سے لے کر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے اہل نہیں۔ بنیادی طور پر یہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر یہ پابندی ازخود آئین کی روح کے منافی ہے جو ہر پاکستانی کو بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان یا مذہب برابر کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔اس ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو ننھے ڈکٹیٹرمیں تبدیل کردیا گیا کیونکہ پارلیمینٹ کے اراکین پر پابندی عائد کردی گئی کہ وہ قانون سازی اور صدر و وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹ ضمیر کے نہیں بلکہ پارٹی لائن کے مطابق دیں گے، نہیں تو نشست سے محروم ہوں گے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہی دو بار سے زیادہ وزیراعظم بننے پر پابندی کی شرط ختم کی گئی جس کا فائدہ صرف نوازشریف کی ذات کو ہوا۔ تقسیم اختیارات کے نام پر وہ وزارتیں اور ذمہ داریاں بھی بدقسمتی سے صوبوں کو دی گئیں جن کا مرکز میں رہنا ضروری تھا۔ مثال کے طور پر تعلیم، جو ہجوم کو قوم بنانے کی بنیاد ہے۔ یہاں بجائے ملک میں ایک نصاب اور قومی بیانیہ طالب علموں کو پڑھائے جانے کا اہتمام ہوتا، اسے صوبوں کے حوالے کردیا گیا ،یعنی ہر صوبے کا الگ نصاب اور اْوپرسے نجی، سرکاری اور مذہبی تعلیمی اداروں کی تقسیم بھی۔ ہم کیوں منتشر اور باہم دست بہ گریباں ہیں، اس کی ایک وجہ ہمارا چوں چوں کا مربہ قسم کا نظام تعلیم بھی ہے۔ اسی ترمیم نے ماحولیات سے لے کر ادویات اور دیگر اشیا کے معیار کے تعین اور فروخت کی منظوری کے عمل تک کو صوبوں میں تقسیم کردیا گو کہ یہاں یہ اختیار مرکز کے پاس ہونا منظقی بھی ہے اور سودمند بھی۔ حتی کے فلم سنسر کروانے کے لیے بھی کسی ایک مرکزی بورڈ کی جگہ وفاق اور ہر صوبے سے الگ اجازات لینا پڑتی ہے، جو بلاوجہ کی پیچیدگی ہے۔اٹھارہویں ترمیم میں بڑا ظلم وسائل کی تقسیم کا ہوا، یعنی کہ دفاع سے لے کر قرضوں کی واپسی اور ہنگامی حالات سے نمٹنا مرکز کی ذمہ داری قرار پائے، لیکن زیادہ وسائل صوبوں کے حصے میں آئے جنہیں مزید نچلی سطح پر دینے کا عمل آج تک نہ ہو سکا۔ توانائی کے شعبے میں بھی اٹھارہویں ترمیم نے مسئلہ کھڑا کردیا کیونکہ قدرتی وسائل پر صوبوں کے حق کو تسلیم کیا گیا، لیکن نقصان میں چلنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں مرکز کے حصے میں آئیں۔ ایسے ہی بہت سے پیچیدگیاں اٹھارہویں ترمیم نے پاکستان پر مسلط کردیں ہیں جن میں سے ہر ایک پر تفصیلی مضمون کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مرکز کو کمزور کردینے والی اس ترمیم پر کھل کر، بنا معذرت بات ہو تاکہ آئینی کمزوریوں کو دور کرنے کا عملی کام ہوسکے۔