وفاق میں پانچ بار اور صوبہ سندھ میں سات بار اقتدار میں رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور وفاق میں چار بار اور صوبہ پنجاب میں پانچ بار اقتدار کے ثمرات سے فیضیاب ہونے والی ن لیگ کی ساری بینڈ ویگن ان دنوں 18ویں ترمیم اور صدارتی نظام کے حوالے سے تحریک انصاف کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے۔چار دہائی سے وفاق اور صوبوں میں حکومت کرنے والی دونوں سیاسی جماعتیں جو واویلا کر رہی ہیں،اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے 18ویں ترمیم میں بعض ترامیم لانے یا صدارتی نظام سے وطن عزیز پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔حالانکہ یہ قیامت بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے پارلیمانی انتخابات میں ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں ٹوٹ چکی ہے ۔جس پر گفتگو زیادہ تفصیل سے بعد میں ہوگی۔اپریل 2010ء میں جب ہمارے سابق چیئرمین سینیٹ محترم رضا ربانی کی قیادت میں پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر متفقہ طور پر دونوں ایوانوں سے 18ویں ترمیم منظور کرائی گئی تھی۔تو اس پر خوب خوب ڈھول تاشے بجائے گئے۔18ویں ترمیم کامتن مرتب کرنے اور منظوری کے لئے پیش کرانے والے دو درجن ارکان پارلیمنٹ کو تمغوں سے نوازا گیا۔18ویں ترمیم کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ اس سے چاروں صوبے غاصب مرکز سے آزاد ہوجائیں گے اور اس کے بعد جو وسائل اور اختیارات کی تقسیم ہوگی،اس سے صوبوں میں دودھ اور شہد کے ایسے دریا بہیں گے کہ جن پر بند باندھنا مشکل ہوجائے گا۔آج نو سال بعد ،کم از کم اپنے صوبے سندھ کے بارے میں تو کہہ سکتا ہوں کہ وفاق سے ملنے والے اربوں روپے کی وہ لوٹ مار ہوئی تعلیم اور صحت کیا۔۔۔ وہ سارے ادارے تباہ و برباد ہوگئے جو وفاق سے صوبوں کو منتقل کئے گئے تھے۔ کسی ایک شعبے میں ترقی اور خوشحالی کیا آتی۔یہاں گنگا الٹی بہہ رہی تھی۔سندھ میں دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سرے سے اسکول ہی نہیں جاتے۔بچوں کی اموات کے ماہ بہ ماہ جو اعداد و شمار آرہے ہیں ،اس سے ڈسٹرکٹ تھر کا نام گینز بک میں لکھا جائے گا۔ آئینی باریکیوں اور موشگافیوں میں نہیں جاؤں گا۔ پھر18ویں ترمیم سے پہلے1973ء کے بعدہونے والی ترامیم کی تفصیل میں بھی جانا چاہتا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں جو ترامیم کیں ان میں سے مشکل ہی سے کوئی ایک ترمیم ہوگی جس کے ثمرات سے عوام مستفید ہوئے ہوں۔ورنہ بیشتر ترامیم کے نتیجے میں نہ صرف 1973کے متفقہ جمہوریہ آئین کا حلیہ بگڑا بلکہ ان کے نتیجے میں اسلام آباد میں بیٹھی حکومت کو جمہوری اور انسانی حقوق صلب کرنے اور عوام پر مزید شکنجہ کسنے کاموقع ملا۔پی پی کے صدر آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں 18ویں ترمیم کئی ماہ کے مباحث کے بعد 20اپریل 2010ء کو آئین کا حصہ بنی اور کوئی 280آرٹیکلز میں سے102میں ترمیم کی گئی۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان ترامیم کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ جسے سیاسی اصطلاح میںcomplete change of paradigmسے تعبیر کیا جائے گا۔اور جس کے نتیجے میں صوبائی نہیں ،قومی خود مختاری کا وہ خواب پورا کیا گیا جس کے لئے سب سے پہلے 1970ء میں عوامی لیگ کے سربراہ بعد میں بننے والے بنگلہ بندھوشیخ مجیب الرحمان نے علم ِ بغاوت بلند کیا تھا۔عوامی لیگ کے چھ نکات اٹھا کر دیکھ لیں ۔ایک کرنسی ،دوسرے وزارت خارجہ کے علاوہ 18ویں ترمیم کے ذریعے ایسے سارے اختیارات صوبوں کو دے دئیے گئے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کھچے پاکستان میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور اس نے اُس وقت کی طاقت ور قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی کو صوبائی حکومت کے ساتھ صوبے کی گورنری تک دے دی۔جنہیں رکھنا وفاق کا استحقاق تھا۔مگر اس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی کے قائد خان عبد الولی خان اور ان کے ساتھ شدت پسند بلوچ رہنماؤں نے پی پی کی نوزائدہ حکومت کو محض چیلنج ہی نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف ہتھیار بھی اٹھائے۔ ان کے مطابق 1973ء کے آئین کے تحت وہ خود مختاری نہیں ملی جو ان کا حق تھا۔1973ء سے 1977ء تک اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان ہونے والی چار سالہ خونریز محاذ آرائی کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔کہ بہر حال قصور مرکز یعنی اسلام آباد میں بیٹھے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی تھا۔کہ اقتدار میں آنے کے بعد صرف سا ل بھر میں ہی ان کے اندر کا فیوڈل نکل کر انہیں مطلق العنانی کے راستے پر ڈال چکا تھا۔یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی ،نیشنل عوامی پارٹی کی محاذ آرائی تھی ۔جس کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977ء کو پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کا تختہ ہی نہیں الٹا گیا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے منتخب وزیر اعظم کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تختہ ٔ دار پر چڑھایا گیا ۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب ایک عوام کے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پہ لٹکایا جارہا تھا تو جمہوریت کی دعویدار ساری سیاسی جماعتیں مٹھائیوں کے ٹوکرے کے ٹوکرے مل بانٹ کر کھا رہی تھیں۔یقینا 18ویں ترمیم کے حامی سیاسی پنڈت کہیں گے کہ ماضی پر مٹی پاؤ ۔مگر ماضی پر مٹی اس لئے نہیں ڈالی جاسکتی کہ جنرل یحییٰ جیسے غاصب جنرل کی فوج نے مشرقی پاکستان میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا سو کیامگر ذرا اس پر بھی تو نظر ڈالیں کہ ہمارے عوامی قائد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی ایک کے بعد جو دوسری ترمیم کی ،کیا وہ عوام کے مفاد میں تھی؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک کو چھوڑ کر باقی چھ ترامیم قومی اسمبلی میں منظورکراتے ہوئے ہمیشہ مٹھی بھر حزب ِ اختلاف کے اراکین کو سیکورٹی گارڈز سے اٹھواکر باہر پھینکوایاگیا۔یہ لیجئے،18ویں ترمیم پھر پیچھے رہ گئی۔اس ترمیم کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میںاختیارات اور وسائل کی جو تقسیم تھی،وہ اس طرح تھی: کرنسی،وفاق دفاع،وفاق غیر ملکی تجارت،وفاق کورٹ سسٹم ،وفاق انٹر پروونشل ٹریڈ،وفاق کسٹم ایکسائز ٹیکس،وفاق کارپوریٹ اور فیڈرل ٹیکس،وفاق پرائمری ،سیکنڈری ایجوکیشن،صوبہ انکم سیکورٹی،صوبہ پینشن،صوبہ ہیلتھ کیئر ،صوبہ ایگریکلچر،صوبہ ماحولیات،صوبہ کرمنل لائ،صوبہ معدنی ذخائر،صوبہ پولیس ،صوبہ (جاری ہے)