اداسی کیوں ہوتی ہے؟ طبیعت کبھی ویران اور دل اچاٹ کیوں ہوجاتا ہے؟ ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہم سب انتظار کررہے ہیں، فقط انتظار۔ کب وقت پورا ہو اور پرواز کرجائیں۔ کوئی ڈیپارچر لائونج ہے جہاں سب اپنے اپنے بورڈنگ کارڈ ہاتھوں میںلئے بیٹھے ہیں۔ بورڈنگ کارڈ، جن پر سیٹ نمبر درج نہیں، نہ ہی وقت اور تاریخ۔ بس ایک اعلان کا انتظار ہے، پرواز کے لیے بلاوے کا اعلان۔ ان دنوں سورج جنوب پر مہرباں ہے اور پالے کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے۔ مزاج پر اداسی کا بوجھل پن رہتا ہے اورصبح سویرے تو کچھ سِوا ۔ کہتے ہیں کہ موسم ،مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کل سویرے ہی نام وَر عالمِ دین ڈاکٹر اسرار احمد کا ایک کلپ سنا، انہوں نے بجا کہا کہ سورج کے گرد طواف کرتے ہوئے زمین جا بہ جا رُخ بدلتی ہے جس سے سورج خطِ استوأسے کبھی آر اور کبھی پار ہوتا ہے۔ سال بھر میں آر اور پار کے سفر کا ایک سائیکل مکمل ہوتا ہے۔اسی سے موسموںمیں ادل بدل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اگر انسان حساس دل کا مالک ہے اور حیوانیت کی سطح پر زندگی بسر نہیں کررہا تو موسم اُس کی طبیعت و مزاج پر ضرور اثر ڈالتے ہیں۔ خیر! میںبتا رہا تھا کہ سویرے اٹھتا ہوں تو بجائے ہشاش بشاش ہونے کے مزاج میں اداسی ہوتی ہے۔ کوئی زیاں کا احساس ہو جیسے۔ لگتا ہے زندگی کی ڈور ہاتھ سے پھسلتی جارہی ہے۔ کل جہاں ہم تھے، اب ہمارے بچے وہاں ہیں اور جہاں ہمارے والدین تھے، وہاں ہم آن پہنچے ہیں۔ دھیرے دھیرے غیر محسوس انداز میں بہت سارا وقت کٹ گیا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلا کب اور کیسے منزل مارتے ہم یہاں آن پہنچے ہیں۔ دانت مانجتے، وضو کرتے، ناشتہ کرتے ایسے ہی خیالات یلغار کئے رہتے ہیں۔ کیسا سفر تھا اور کیونکر اتنا سارا کٹ گیا…!! زندگی کا سفر‘ ہے یہ کیسا سفر کوئی سمجھا نہیں‘ کوئی جانا نہیں دسویں صدی عیسوی کے آخری برسوں میں اپنی شاعری کا چراغ جلانے والا عربی شاعر ابو العلأمعری‘ جس نے عربی شاعری کو قصیدہ وہجو اور گل و بلبل و رخسار سے نکال کر فکر و فلسفہ کے مضامین سے آشنا کیا‘ کہتا ہے ’’ دُبِ اصغر کے ان دو چمکتے ستاروں سے پوچھ کہ انہوں نے روئے زمین پر اب تک کیسے کیسے لوگ دیکھے اور کیسی کیسی بستیوں کا مشاہدہ کیا‘‘…’’اور وہ( ستارے)کتنی مرتبہ دن چھپنے پر نمودار ہوئے اور رات کے اندھیرے میں سفر کرنے والوں کو راستہ دکھایا‘‘…’’ یہ زندگی تمام کوفت اور تھکن ہے‘ مجھے حیرت اُس پر ہے جو اس میں زیادہ کا طلب گار ہے‘‘…’’ موت کی استراحت ، ایک طرح کی نیند ہے جس سے جسم کو آرام ملتا ہے اور زندگی یوں سمجھوکہ جاگتے رہنے کا عمل ہے‘‘۔ تو گویا جاگ جاگ کر ہم اکتا گئے ہیں؟ اور کیا زندگی کا حاصل بس ایک استراحت بھری نیند ہے؟ یعنی موت…اس ایک نیند کے لئے دیوانہ وار ہم زندگی میں بھاگے پھرتے ہیں؟ ہل من مزید کے لئے روتے ہیں، بلکتے ہیں سرپٹ دوڑا کرتے ہیں…!! عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا بات وہی ہے کہ زندگی کے اس سفر کومجھ ایسے عامی سمجھ نہیں پائے…جو سمجھ جاتے ہیں وہ اِس جہانِ خراب کو دکھوں کا گھر قرار دیتے ہیں۔ کپل وستو کا شہزادہ جوان بیوی اور شیر خوار بچے کو چھوڑ چھاڑ تلاش کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے اور برسوں کی تلاش کے بعد کہتا ہے کہ یہ دنیا کچھ نہیں اور اگر کچھ ہے تو محض دکھ کا پھیلائو۔ یونانی دانش بتاتی ہے ’’ اس دنیا میں پیدا نہ ہونا سب سے اچھی اور پسندیدہ بات ہے لیکن جب انسان ایک دفعہ پیدا ہوجائے تو پھر اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں کہ جتنا جلد ہوسکے وہ وہیں لوٹ جائے جہاں سے آیا تھا‘‘۔ ابوالعلأ معری پھر یاد آیا۔’’ یہ زندگی تمام کوفت اور تھکن ہے…مجھے حیرت اس پر ہے جو زیادہ جینے کی آرزو رکھتا ہے… تم رہینِ آفاتِ زمانہ ہو اور ان سے کبھی رہائی نہ پائو گے، چاہے اس امید میں کتنے ہی گرما وزمستان گزاردو‘‘۔ معری زیادہ جینے کی آرزو نہ رکھتا تھا، پھر بھی اس نابینا شاعر کے حصے میں زندگی کے اسی برس آئے۔عمر بھر شادی نہ کی اور اپنی قبر کے لئے کتبہ خود لکھا ’’ یہ ظلم میرے باپ نے مجھ پر کیا تھا، میں نے یہ ظلم کسی پر نہیں کیا‘‘۔ ایسا ہی کچھ غالب نے کہا تھا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا یہ زندگی جو آپ اور ہم گزار رہے ہیں، اس کی ابتدأ ہی ایک وچھوڑے سے ہوئی ہے، ایک دیس نکالے سے۔ جلاوطن شخص بھلا کیونکر خوش رہ سکتا ہے۔ اسے تو اداسی ہی میں سکون ملتا ہے۔ اداسی، جس میں وہ اپنا جلاوطنی کا دکھ سیلیبریٹ کرسکتا ہے۔ دنیا کو ہنسانے والے چارلی چپلن کو اسی لئے بارش میں ٹہلنا پسند ہے کہ وہ جب اپنا دکھ منائے تو کسی کو پتہ نہ چل سکے۔ابنِ انشاء بھی اگر نثر میں شگوفے چھوڑتا ہے تو شاعری میں دکھ کی سیلیبریشن کرتا ہے۔ اور وہ ہمیشہ کا اداس شاعر شِوکمار بٹالوی۔ یہاں آیا توکامل حسن کی تلاش میں مارا مارا پھرا اور کسی نے جو حال پوچھا تو کہا کی پچھدے او حال فقیراں دا ساڈا ندیوں وچھڑیاں نیراں دا سو آئیے! اب کالم کی پہلی سطر کی طرف رجوع کریں۔ یہ اداسی اور طبیعت کی ویرانی دراصل انتظار کا نتیجہ ہے۔ گھرکو لوٹ جانے کا انتظار اور یہ انتظار کہ ندی سے بچھڑا ہوا یہ پانی کب پھر سے ندی میں جاملے۔