چند ذاتی اور ذہنی مصروفیات کی وجہ سے قارئین سے رابطہ قدرے تعطل کا شکار رہا۔ تاہم اس عرصے میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ تحریک لبیک پر پابندی کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم فیصلے کا وقت پر احساس نہیں کر پاتے۔ اکثر اوقات ہم بہت خلوص کے ساتھ ایک حکمت عملی طے کرتے ہیں‘ پھر اسی کے شکنجوں میں آ جاتے ہیں۔ میں نے کراچی میں ایم کیو ایم بنتے دیکھی ہے۔ اسے ایک ایسی حکمت عملی کہا گیا جسے ضیاء الحق کی اشیر باد حاصل تھی۔ کہا گیا کہ سندھی قوم پرستوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ایک ایسی مہاجر تنظیم کی ضرورت ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کی قوم پرست تنظیمیں کم از کم فکری سطح پر مضبوط تھیں۔انہی دنوں جی ایم سید کو ضیاء الحق کی طرف سے چند نوکریوں کی پیشکش ہوئی۔ اس وقت میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا مگر اچھی طرح اندازہ ہے کس طرح اس تنظیم کو کہیں چپکے چپکے کہیں کھلے بندوں ریاست کی تائید حاصل تھی۔ ان دنوں ریاست کا لفظ جن معنوں میںمعروف ہے اس نے تو گویا سارے تصورات کی ایسی تیسی کر کے رکھ دی ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت سے پہلے یہ ریاست کا فیصلہ تھا اس کا کیا مطلب ہے۔ پولیٹیکل سائنس کی کس کتاب سے یہ مطلب اخذ کیا گیا ہے۔ قصہ مختصر کہ لیڈر شپ کے انتخاب سے لے کر اسے پروان چڑھانے تک وہ ہماری ریاست کے چہیتے رہے حتیٰ کہ بقول کسی کے انہوں نے ڈبل کراس کیا۔ ان کے بھارت کے خفیہ اداروں سے رابطے سامنے آئے۔ پھر کیا ہوا؟ یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ ہم نے انہیں پھر بھی ترک نہیں کیا۔ ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ ان کے سپلینٹر گروپ بن گئے تو ہر ایک کو قابو کرنا مشکل ہو گا۔صرف ایک قیادت کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔ کس طرح وہ دو عشروں تک اقتدار میں شامل ہوتے‘ باہر آتے‘ پھر شامل ہوتے۔ یہ کہانی اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے حتیٰ کہ وہ مرحلہ آیا کہ ہم جنہیں چلا رہے تھے‘ ان کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو گئی۔ تاہم یہ کارروائی بھی اس طرح ہوئی کہ ان کی روح آج بھی زندہ ہے۔ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ صرف کراچی کا نہیں جو پاکستان کا صنعتی و تجارتی دارالحکومت تھا بلکہ پورے پاکستان کا بھی۔سارا ملک صرف معاشی لحاظ سے مفلوج نہیں ہوا بلکہ عملی طور پر کئی دھڑوں میں بٹ گیا۔ جب ایک بار جن بوتل سے باہر آیا تو قابو سے باہر ہو گیا۔ جو کہتا ہے کہ ہم نے اس جن کو قابو کر لیا ہے‘ وہ غلطی پر ہے۔ اس طرح اچھی طرح یاد ہے جب لاہور کے ایک ضمنی الیکشن میں لبیک والے اور حافظ سعید والے انتخابی معرکے میں اترے اور اچھے خاصے ووٹ لئے گئے۔ ایک نے پانچ ہزار دوسرے نے سات ہزار۔ پتا چلا کہ لبیک والے حافظ سعید والوں سے زیادہ ووٹ رکھتے ہیں۔حافظ سعید صاحب بلا شبہ ایک محب وطن مجاہد ہیں۔ ہم نے ان سے مختلف اوقات میں جو بھی سلوک کیا انہوں نے برداشت کیا۔ ہم نے کوشش کی کہ دنیا والوں کو قائل کریں کہ ہم مجاہدین کے اس گروپ کو مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں‘ اس لئے انہیں انتخابی سیاست میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا نے حقارت سے ہماری اس دلیل کو ٹھکرا دیا۔ ہم نے انہیں ایک بار پھر پابند سلاسل کر دیا۔ اگرچہ اس سے پہلے وہ عدالتوں سے اپنی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ لے چکے تھے۔ دوسری طرف جس پھرتی سے رجسٹریشن ہوئی یہ حیران کن تھی۔ ان کا ایک لیڈر ’’رضا کارانہ‘‘ طور پر فارغ کر دیا گیا جب اس نے ساری حدود پار کر دیں۔ اب اس پر بلا شرکت غیرے ایک ایسے لیڈر کا کنٹرول تھا جو شعلہ بیان تھا۔ ان کی اپنی تاویل تھی۔ تاہم انتقال کے بعد جہاں خادم حسین رضوی کے جنازے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا وہاں عشق رسولؐ میں ڈوبی ہوئی اور اقبال کے اشعار سے مزین ان کی تقریروں نے ایک دم ایک تازہ ولولہ پیدا ہو گیا۔ فیض آباد میں ان کے دھرنے نے یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ یہ کسی بھی قوت سے ٹکڑانے کی ہمت رکھتے ہیں مگر صرف اس وقت تک جب ’’ریاست‘‘ ان کے ساتھ ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے میں مقتدرہ کا لفظ تلاش کر رہا تھا مگر یہاں تو اسے ریاست بنا دیا گیا۔ بہرحال کوئی بات مخفی نہیں ہے۔ اس معاملے میں عدلیہ نے اپنا فرض ادا کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اس دھرنے کے بارے میں جو فیصلہ لکھا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ اتنا بے لاگ تھا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار تک تلملا اٹھے۔وہی نہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اسے ناقابل قبول سمجھا۔ اس مقدمے کا فیصلہ پڑھتے جائیے اور دیکھتے جائیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کیا کچھ نہیں کہا۔ پھر یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ اب انہیں مزید پالا پوسا نہ جائے اور ان پر پابندی لگانے کے لئے کون کون سے طریقے اختیار کئے جائیں۔ مگر حکمت عملی بنانے والے اس وقت تک اس طرح نہ سوچتے تھے۔ یہ تنظیم پھلتی پھولتی رہی حتیٰ کہ مہم جوئوں کی نئی اڑان سامنے آئی۔ یہ لوگ دوبارہ ڈٹ کر بیٹھ گئے۔ اس وقت تک ان پر اتنا اثر ضرور تھا کہ انہوں نے حکومت سے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے۔ یہ معاہدہ اس بار ’’ریاست‘‘ کی طرف سے نہیں حکومت کی طرف سے تھا۔مطلب یہی تھا کہ فی الحال تو انہیں اٹھائو پھر’’ریاست‘‘ سے کہیں گے وہ انہیں سنبھال لے گی۔ اس دوران بانی تحریک انتقال کر گئے۔ ان کا جنازہ دیکھ کر شاید ہماری حکومت اور ریاست دونوں کو اندازہ ہو گیا کہ اب یہ قوت قابو میں آنے کی نہیں۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ نہیں یہ تو ابھی حالات حاضرہ کا حصہ ہے۔ اس وقت جو اس کارروائی کی حمایت کر رہے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ ماضی میں بہت غلطیاں کی گئیں۔ مگر کیا یہ غلطیاں کر نے والوں کو بھی اندازہ ہے یہ سب شیخ رشید کے بس کی بات نہیں ہے۔ خدا کرے معاملہ قابو میں آ جائے۔ وگرنہ جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ اچھے نتائج نہیں لایا کرتا۔ وزیروں کا یہ کہہ دینا کہ ریاست کی طاقت کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اپنے اس خوف کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم ڈنڈے کی زبان استعمال کریں گے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان ‘ کراچی اور فاٹا کے بعد اب پنجاب کا بڑا حصہ بھی جبر کی زد میں آ گیا ہے۔یہ لوگ ابھی سیاسی قوت نہیں بنے تھے۔ جہاں اس بات سے مطمئن ہوا جا سکتا ہے وہاں یہ تشویش کی بات بھی ہے۔ میں نے بہت احتیاط کے ساتھ بہت کچھ کہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک میں طوائف الملوکی نہ پھیلے۔ کہیں لاوا اندر ہی اندر نہ ابلنے نہ لگے۔حضور والا‘ معاملہ بہت پھیل گیا ہے اب ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر باہر کا دبائو نہیں ہے یہ فیصلہ ہم نے خود کیا ہے ۔ پھر بھی یہ فیصلہ ہمارا ہے اور حافظ سعید کے فیصلے کی طرح باہر سے مسلط نہیں کیا گیا۔ اگرچہ بعض بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے ارادے بہت دور کے تھے۔وہی فیٹف کا معاملہ وغیرہ وغیرہ۔ ایک تو یہ فیٹف ہمارے گلے کا طوق بنا ڈالا گیا ہے۔خیر فیصلہ ہمارا ہے تو اسے ایسے نافذ کیجیے جیسے اپنے نافذ کیا کرتے ہیں۔ غیر نہیں۔