ہر طرف حج اور بکر عید کا چرچا ہے ، فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حجاج کرام حجاز مقدس پہنچے ہوئے ہیں ۔ ان میں بہت سے عازمین ایسے بھی ہیں جو الحاج کہلاتے ہیں اور اُن کو کئی مرتبہ حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے ، صاحب حیثیت کے لیے ایک حج فرض ہے اور زیادہ تعداد میں حج کی بجائے حج پر آنے والے مصارف غریبوں کی ضروریات کے لیے خرچ ہوں تو اس کا زیادہ ثواب ہے ۔ اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ عید قرباں پر منڈیوں میں مہنگے سے مہنگے جانور بھی آئے ہوئے ہیں ،ایک کروڑ سے زائد والے جانور کی آواز بھی آئی ہے۔ جانوروں کا کاروبار کرنے والے پورا سال منڈی میں فروخت ہونے والے جانور کی خوب تواضع کرتے ہیں مقصد ثواب سے زیادہ دولت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ صاحب حیثیت پر قربانی فرض ہے مگر ایک سے زائد جانور ذبح کرنا فرض نہیں ہے ،اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے لوگ پہلا فرض نماز ادا نہیں کرتے مگر جانور قربان کرنے کی فرض میں جوش و خروش کے ساتھ پیش پیش ہوتے ہیں۔اگر اس موقع پر غرض مندوں کی ضروریات کا خیال ر کھ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ مغرب کی تنقید سے قطع نظر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہمارے مذہب اسلام نے کہا ہے کہ ’’کھائو پیو ،مگر اصراف نہ کرو ‘‘۔ کھربوں کے وسائل اُمت مسلمہ کی غربت کے خاتمے کے لیے بھی خرچ ہونے چاہیئں۔ حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے جیسا کہ نماز ، روزہ زکواۃ کی فرضیت ثابت ہے: اس لیے جو شخص حج کی فرضیت سے انکار کرے وہ کافر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس گھر کا حج کرنا ہے یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے غنی ہیں ‘‘ ۔ حج انتہائی نیک عمل ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، ’’نبی کریم ؐ سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں ؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ، اللہ اور اس کے رسول پر ایما ن لانا ۔ پوچھا گیا ، پھر کون؟ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔ پوچھا گیا پھرکون؟ ارشاد فرمایا: حج مبرور (بخاری شریف )۔حج مبرور کیا ہے ؟ یہ وہ حج ہے جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو ۔ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو ۔ وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو ۔ وہ حج جس سے لوٹنے کے بعد گناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رحجان بڑھ جائے۔ حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ابن شماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے ۔ وہ کافی دیر تک روئے، پھر انہوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انہوں نے (اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے ) فرمایا: جب اللہ نے میر قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا، تو میں رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : آپ ؐ اپنا داہنا دست مبارک میرے سامنے کیجئے تاکہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔ آپ ؐ نے سامنے کیا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، آپ ؐ نے فرمایا : اے عمرو تمہیں یہ کیا ہوا ؟میں نے کہا میری مغفرت فرمائی جائے ۔ آپ ؐ نے فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا )پہلے (کے تمام گناہوں) کو مٹا دیتا ہے ؟ ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج پہلے (کے کیے ہوئے گناہوں) کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں حضوؐر نے ارشاد فرمایاکہ حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہا، سونا اور چاندی سے زنگ کو ختم کر دیتی ہے ۔ اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ۔ا للہ تعالیٰ ان کی مانگ ان کو عطا فرماتے ہیں ان کی دعائوں کو قبول کرتے ہیں ان کی سفارش قبول کرتے ہیں ا ور ان کے لیے ہزار ہزار گنا تک ثواب بڑھایا جاتا ہے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’اللہ کے راستے کا مجاہد اور حج و عمرہ کرنے والے ا للہ کے مہمان ہیں ۔ اللہ نے انہیں بلایا، لہٰذا انہوں نے اس پر لبیک کہا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے ۔ تو اللہ نے ان کو نوازا ہے ۔‘‘حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’حج یعنی فرض حج میں جلدی کرو ، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والا ہے۔’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا ، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی ‘‘۔ ۔ جن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نواز ا ہے ان کو چاہیے کہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ کریں کیوں کہ ہم ہمہ دم نیکیوں کے حصول اور گناہوں اورسیئات سے مغفرت کے سخت محتاج ہیں ۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔ یہ کاغذ کی ایک نائو ہے جہاں تک پہنچ جائے غنیمت ہے ۔ خطبہ حجۃ الوداع مختصر ہونے کے باوجود معافی کے لحاظ سے اتنا فصیح وبلیغ ہے کہ اس میں اسلام کا مکمل نظام اقدار پنہاں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنا انفرادی محاسبہ کریں اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے اور سکھائے ہوئے راستے پرگامزن ہونے کی سعی کریں ۔ دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے۔اس میں انسان اور انسانیت کی فلاح ہے تو ان متبرک دنوں میں ہمیں فلاح کی طرف آنا چاہیے اور انسانیت کی بہتری کے لیے سوچنا چاہیے اور اور اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭