حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو 2023ء میں ،جنوری اور اپریل تک، بالترتیب پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی زیادہ سے زیادہ 50 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔سات بلین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (آئی ایم ایف ) کے ساتویں اور آٹھویں جائزوں کی تکمیل کی باضابطہ منظوری کے لیے آئی ایم ایف کو بھیجے گئے اپنے لیٹر آف انٹینٹ (ایل او آئی) میں پاکستان نے موجودہ 5 ہفتوں سے رواں مالی سال کے اختتام تک کم از کم 10 ہفتوں کی درآمدات تحفظ دینے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور ان ذخائر کو کبھی بھی شرح مبادلہ کی حمایت کے لیے استعمال نہ کرنے کے 'آہنی وعدے' کیے ہیں۔ مہنگائی کی ماری عوام اب دعا ہی کر سکتی ہے کہ حکومت اس سے تو نہیں کم ازکم عالمی مالیاتی ادارے کے سے کیے گئے اپنے وعدوں میں ہی سرخرو ہو تاکہ قرضہ کا دوبارہ اجرا ہو سکے، ڈالر کی قیمت کم ہو اور روپے کی قدر میں اضافہ ہو پائے۔ جیسا کہ معاہدے کے مندرجات سے ظاہر ہے، مسئلہ زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو درآمدات کے حجم کے مقابلے میں کم ہیں۔ اب یا تو برآمدات بڑھائی جائیں یا پھر درآمدات پر قابو پایا جائے لیکن یہ دونوں کام سول حکومتوں سے نہیں ہو پاتے۔ ایک تو مٹھی بھر امیر طبقہ کی ضروریات ہیں جو بہر طور درآمدات سے پوری ہوتی ہیں۔ دوسرے پاکستان کی محصولات کا ایک بڑا حصہ درآمدات سے ہونے والے آمدنی ہے۔ اس مد میں روزمرہ کی ضروریات جیسا کہ گندم ،دالیں ، کوکنگ آئل اور انرجی محصولات بھی شامل ہوگئیں ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان معاشی غلامی میں جکڑا جا چکا ہے۔ معیشت یرغمال ہوگئی ہے تو سیاست کی کمر بھی ٹوٹ چکی ہے۔ بنیادی حقوق کی محافظ جمہوریت ملک کے تین سو تیس خاندانوں کے شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معاشی بحران کے پیش نظر یہ فعال ہوتی لیکن اس کے برعکس یہ نفاق کا شکار ہوچکی ہے۔ الزام تراشی ، گالم گلوچ اور نقاق اس کی پہچان بن چکے ہیں۔ پارلیمان مفلوج کھڑی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو جس چیز کی واضح کمی نظر آرہی ہے وہ قومی غیرت (نیشنلزم) کا احساس ہے۔ ہمارے حکمران بیرونی مفادات کے آلہ کار ہیں۔ آج سے نہیں، تقسیم ہند کے وقت سے۔ آزادی کے ہفتوں بعد ہی واشنگٹن سے مالی امداد کی درخواست کر لی گئی تھی۔ سردجنگ کا سارا دور معاملات امریکہ کے زیر اثر خاندانوں کے ہاتھ میں رہے۔ یہ وہی لوگ تھے جو سلطنت برطانیہ کے خدمت گزار رہے تھے اور شاہی مراعات سے فیض یاب ہوئے تھے۔ اگر ایوب خان کے دور میں ان خاندانوں کی تعداد بائیس تھی تو اب یہ بڑھ کر تین سو تیس ہوگئی ہے۔ مطلب وہ زیادہ طاقتور ہیں اور بیرونی ہاتھوں کی مدد سے عوام پر تسلط قائم رکھنے میں زیادہ پر عزم۔سرد جنگ کے بعد، نوے کی دہائی میں، جب خاندانِ غلاماں ملکی معیشت کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق نہ ڈھال سکا تو جنرل مشرف نے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا اور اس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جنرل مشرف نے شروعات کیں لیکن بعد میں جب جمہوریت بحال ہوئی تو اصلاحات کا عمل ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ یعنی اس پر اس حد تک عمل کیا گیا جس حد تک اشرافیہ کے مفادا ت وابستہ تھے۔ احتساب ، مقامی حکومتیں اور ریگولیٹری ادارے مضبوط ہوتے تو شاید جمہوریت کے اثرات عوام تک پہنچ پاتے لیکن ان سب کی غیر موجودگی میں صرف اجارہ داریاں ہی پروان چڑھ سکی ہیں اور بنیادی خدمات کی فراہمی بے لگام نجی شعبے کے حوالے ہوگئی ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ کرپشن رواج پا چکی ہے اور احتساب کا تصور ختم ہوچکا ہے۔مقامی حکومتوں کا نظام پاکستان کے دو بڑے صوبوں ، پنجاب اور سندھ ، میں موجود نہیں۔ بنیادی خدمات فراہم کرنے والے ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں آچکا ہے۔ جو ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے، مقامی حکومتیں مالی، انتظامی اور سیاسی طور پر خود مختار ہوں تاکہ لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی حاصل ہوسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ریگولیٹری ادارے منظم اور سرگرم رہیں اور حکومتی گرفت سے آزاد بھی تاکہ عوام اجارہ داریوں کے فتنوں سے بچے رہیں۔ مہنگائی کا حل علاقائی تجارت سے ممکن ہے۔ اس سے ایک تو انڈسٹری کو سستا خام مال ملے گا، دوسرے اشیائے ضروریہ بھی معیاری اور سستی دستیاب ہو پائیں گی۔ جیو سٹریٹجک سے جیو اکنامکس کی طرف منتقلی پر اصولی اتفاق تو ہے اور نئی دفاعی پالیسی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ موجودہ سیاسی نفاق اس راہ میں رکاوٹ کے طور پر کھڑا ہوگیا ہے تو یہ بے مقصد نہیں۔ اگر سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کے لیے تیار نہیں تو ظاہر ہے اس میں کسی کا فائدہ ہے۔ معاملات جادوئی چھڑی ہلانے سے حل ہوسکتے ہیں اور نتیجے میں ملکی معیشت کا قبلہ ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یہ حرکت میں نہیں آ پا رہی۔