معزز قارئین!۔ یوں تو تلہ گنگ کے موضع ’’ڈُھلی ‘‘ کی جَم پَل ، ستمبر 1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی 1962ء ہی میں اپنی بیگم زبیدہ ربانی کے ساتھ گلاسگو میں "Settle" ہیں اور اُنہوں نے 1978ء میں لاہور میں اپنا ایک گھر بھی تعمیر کرلِیا تھا۔ گھر کیا ہے ایک ڈیرہ ہے ، جہاں ’’ بابائے امن‘‘ کی غیر موجودگی میں اُن کے دوست اور رشتہ دار ہی ٹھہرتے ہیں ۔موضع ڈُھلی ، فیصل آباد اور لاہور میں ’’ بابائے امن‘‘ اور بیگم زبیدہ ربانی کی رشتہ داریاں ہیں اور ’’ بابائے امن‘‘ کا حلقہ احباب ۔ اِس بار ’’ بابائے امن‘‘ صِرف 24 دِن پاکستان میں گزار کرکل (18 ستمبر کو ) عازمِ گلاسگو ہوگئے ہیں ۔ ستمبر 1981ء ہی میں میرا ’’ بابائے امن‘‘ نے "Businessman"چودھری محمد سرور سے تعارف کرایا تھا ۔ موصوف اکثر بے روزگار پاکستانیوں کو اِس شرط پر پانچ ہزار برطانوی پائونڈ ،قرضِ حسنہ کے طور پر دے دیتے تھے کہ ’’ جب تمہارا کاروبار چل جائے تو، تُم مجھے بتا کر یہ پانچ ہزار پائونڈ کسی اور بے روزگار پاکستانی کو دے د و گے‘‘۔ 1981ء کے بعد جب بھی مجھے برطانیہ جانے کا موقع ملا (خاص طور پر ) جب میرے تین بیٹے لندن میں "Settle" ہوگئے تھے تو میرا گلاسگو جانا میری عادت بن گیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ 1965 اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں گلاسگو کے مخیر ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان‘‘ نے حکومت ِ پاکستان کو بھاری رقوم بھجوائیں اور زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کے لئے بھی۔ اُن میں مرحومین جناب محمد طفیل شاہین ، بھائی فتح محمد شریف ، چودھری یعقوب علی ، محمد رفیق شیر، سیٹھ محمد سلیمان اور ماشاء اللہ بقید ِ حیات چودھری بشیر مان ، چودھری نذیر احمد ، ’’بابائے امن‘‘ ، چودھری محمد سرور، راجا محمد حنیف ، محمد افضل جگر ؔ،طاہر انعام شیخ اور سابق رُکن قومی اسمبلی میاں محمد آصف ( چوبرجی والے ) کے علاوہ کئی دوسرے اشخاص (خواتین و حضرات ) شامل ہیں ۔ گلاسگو کی "Central Mosuqe" ( مرکزی جامع مسجد ) بہت ہی شاندار ہے جس میں چار ہزار سے زیادہ نمازیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہے ۔ چودھری محمد سرور ’’ بابائے امن‘‘ کو اپنا بزرگ سمجھتے ہیں اور اُن کی اہلیہ بیگم پروین سرور بھی۔ مَیں جب بھی گلاسگو میں یا بعد ازاں گورنر ہائوس میں ’’ بابائے امن‘‘ کے ساتھ چودھری محمد سرور سے ملا تو، اُنہوں نے یہی کہا کہ ’’ لَؤ جی !۔ اَج تے دونویں بابے کَٹھّے آگئے نَیں‘‘۔ اِس سے پہلے گلاسگو میں نامور شاعرہ اور چیئرمین محترمہ راحت زاہد کی ’’ بزم شعر و نغمہ‘‘ کی ایک تقریب میں ’’بابائے امن‘‘ نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ برادر اثر چوہان !۔ کیا مَیں اہلِ گلاسگو کی طرف سے آپ کو بھی ’’ بابا ‘‘ کا خطاب دِلوا دُوں ‘‘ تو، مَیں نے کہا کہ "Sorry"۔ مَیں 2 نمبر بابا نہیں بننا چاہتا‘‘۔ ایک دِن بیگم زبیدہ ربانی نے مجھ سے کہا کہ ’’ بھائی جان!۔ 1970ء میں ہمارے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کا روزنامہ ’’ مساوات‘‘ آتا تھا ۔ اُس میں کبھی کبھی آپ کا بھی کالم چھپتا تھا‘‘۔ اِس پر مَیں نے ’’ بابائے امن‘‘ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ بابا جی !۔ اب آپ کو پتہ چل گیا کہ ’’ لاہور میں آپ کی شادی ، خانہ آبادی میں کسی حد تک میری "Goodwill" بھی شامل تھی؟‘‘۔ اِس پر بابا جی نے کہا کہ ’’شکریہ!۔‘‘ معزز قارئین!۔گورنر چودھری محمد سرور کی اہلیہ بیگم پروین سرور سے میری صِرف دو ملاقاتیں ہُوئیں ۔ دونوں گلاسگو میں۔ ’’ بابائے امن‘‘ مجھے اُن سے ملوانے کے لئے اُن کے گھر لے گئے تھے ۔ ڈرائنگ روم میں بیگم پروین سرور کے ساتھ اُن کی بہو حنا اور بچے بھی بیٹھے تھے ۔ مَیں اُن سے مسلسل پنجابی زبان میں گفتگو کر رہا تھا اور وہ انگریزی اور اردو میں ، البتہ کبھی کبھی پنجابی کا تڑکا بھی لگا دیتی تھیں۔ پھر 6 ستمبر 2013ء کو مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ مجھے گورنر چودھری محمد سرور کی اہلیہ بیگم پروین سرور پُر اعتماد اور پُر عزم خاتون نظر آئیں ۔ حقیقی معنوں میں گورنر پنجاب کی "Better Half"۔ اکتوبر 2013ء کو مَیں اور لندن میں مقیم میرا قانون دان بیٹا انتصار علی چوہان گلاسگو میں تھا۔گورنر چودھری محمد سرور بھی گلاسگو میں تھے۔اُن کی دعوت پر ’’ بابائے امن‘‘ ہمیں اُن کے گھر لے گئے۔ چودھری صاحب نے ہم تینوں سے باری باری جپھّی ڈالی اور سیدھے ہمیں کچن میں لے گئے۔ وہاں چار کُرسیاں بچھی ہُوئی تھیں۔ ہم چاروں بیٹھ گئے ۔ پھر بیگم پروین سرور آگئیں اور اُنہوں نے خُود اپنے ہاتھوں سے ہمارے لئے ناشتہ تیار کِیا۔ مَیں نے کہا کہ ’’ بھابھی جی!۔ آپ یہ تکلف کیوں کر رہی ہیں؟‘‘۔ تو اُنہوں نے کہا کہ ’’ بھائی جان!۔ ’’ بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی صاحب ، چودھری صاحب کے اور میرے بزرگ ہیں ۔ آپ بابا جی کے دوست ہیں ،تو ہمارے لئے بھی قابل احترام ہیں ۔ آپ کی خدمت سے مجھے خوشی ہے‘‘ ۔ ستمبر 2015ء میں عارضۂ جگر کے علاج کے لئے مَیں لندن کے ایک ہسپتال میں داخل تھا کہ ’’بابائے امن‘‘ نے گلاسگو سے لندن آ کر ائیر پور ٹ سے میرے بیٹے انتصار علی چوہان سے ٹیلی فون پر ’’ساز باز ‘‘ کرلی ۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ ’’ ڈیڑھ گھنٹے بعد میرا بیٹا ہسپتال میں میرے کمرے میں چُپ چاپ بیٹھا تھا کہ ’’ بابائے امن‘‘ ، بیگم زبیدہ ربانی ، اُن کی بھتیجی پروین اور کچھ دوسرے رشتہ داروں نے میرے کمرے پر چھاپہ مارا ۔پھر خُوشی سے میرے آنسو نکل گئے۔ کبھی کبھی تو مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ کیوں نہ مَیں ’’ بابائے امن2 نمبر ‘‘ بن ہی جائوں ؟۔ معزز قارئین!۔ یوں تو اپنے سسرالی شہر لاہور میں ’’ بابائے امن‘‘ کے کئی ڈیرے ؔہیں لیکن، اِس بار اُنہیںاُن کے نظریاتی دوستوں نے اپنے گھیرے میں لے لِیا۔ ’’ بابائے امن‘‘ کے والد صاحب ملک حاکم خان تحریک ِ پاکستان کے ’’گولڈ میڈلسٹ‘‘ کارکن تھے اور اُن کے اعزاز میں تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میاں الطاف اُلرحمن کے فرزند وائس چیئرمین ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ میاں فاروق الطاف نے ظہرانے کا اہتمام کِیا۔ مہمانوں میں سب سے معمر اور پنجابی ، اردو اور فارسی کے ہزاروں اشعار کے حافظ گوجرانوالہ کے چودھری ظفر اللہ خان ، نبیرۂ اقبالؒ ( تحریکِ پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ )کارکن ڈاکٹر جاوید اقبالؒ کے فرزند سینیٹر ولید اقبال اور تحریک پاکستان کے دوسرے کارکنوں کے ورثاء کو مدّعو کِیا گیا تھا ۔ دیگر (گولڈ میڈلسٹ) کارکنانِ تحریکِ پاکستان میں سے درگاہِ حضرت مجدد الف ثانی کے خدّامینؔ میں سے قاضی ظہور اُلدین سرہندی کے بھتیجے ،(روزنامہ ’’ جراتٔ ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ) برادرِ محترم جمیل اطہر قاضی ، ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ امرتسری کے پوتے ،سیکرٹری ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید ، چودھری محمد رفیع کی صاحبزادی ، بیگم مہناز رفیع ، میاں محمد اکرم کے صاحبزادے سینئر صحافی اور شاعر برادرِ عزیز سعید آسی اور میاں غلام حسین مرحوم کے صاحبزادے (ایڈیٹر روزنامہ ’’ نئی بات‘‘ ) پروفیسر عطاء اُلرحمن ۔ گلاسگو کے ڈاکٹر عبداُلرزاق ، حضرت داتا گنج بخش ؒ کی ’’امورِ مذہبیہ کمیٹی ‘‘ کے چیئرمین نذیر احمد چوہان ، اینکر پرسن سلمان غنی ، میڈیا پرسن احمد ولید اور رئوف طاہر اور دوسرے اصحاب ، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے بارے میں گفتگو سے حب اُلوطنی جھلکتی تھی۔ ’’ بابائے امن‘‘ نے اپنے طور پر احبا ب سے گفتگو کرتے ہُوئے بتایا کہ ’’ گلاسگو اور برطانیہ کے دوسرے شہروں کے ’’فرزندان و دُختران پاکستان ‘‘ اپنی روایت کے مطابق ، حکومت ِ پاکستان ، افواجِ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے مکمل تعاون کریں گے ‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ قائداعظمؒ ، علامہ اقبالؒ اور مادرِ ملّت ؒ کے افکار و نظریات کے مطابق ، نظریاتی لوگ تو اِس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں گے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے دیکھا کہ میاں فاروق الطاف کے صاحبزادے "America Return" مسٹر سلمان فاروق اور سیّد شاہد رشید کے صاحبزادے سیّد خدیر علی شاہد تو آدابِ میزبانی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ حسب روایت مَیں نے ظہرانے سے پہلے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے ڈپٹی سیکرٹری پروگرامز چودھری محمد سیف اللہ سے ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ کی "Pictorial Gallery" دیکھی تو ، میرا ایمان تازہ ہوگیا۔