سیدہ رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کی ولادت بصرہ کے نہایت متقی وپرہیزگارشخص شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں ہوئی۔تذکرہ نگاروں کے ہاں آپ کا سن ولادت 95،97اور99ھ مذکورہے ۔ شیخ اسماعیل ایک سفید پوش بزرگ تھے ‘تنگ دستی اس انتہاکوپہنچی ہوئی تھی کہ گھرمیں موجود ہرشخص کے کپڑوں کے پیوندبھی بوسیدہ ہوچکے تھے ‘شیخ اسماعیل کے ہاں تین بیٹیاں تھیں‘جب چوتھی کی پیدائش ہوئی تو چراغ میں جلانے کیلئے تیل بھی موجود نہ تھا‘تین بیٹیاں موجود تھیں اسی نسبت سے آپ کانام رابعہ رکھاگیا‘عربی میں رابعہ چوتھی چہارم کوکہتے ہیں۔ان کی زوجہ نے کہاکہ ’’جائیے !کسی سے چراغ جلانے کے لیے تیل لے آئیے ‘‘شیخ اسماعیل جنھوں نے کبھی کسی کے آگے دست ِ سوال دراز نہ کیاتھاتذبذب کاشکارہوگئے لیکن موقع ہی نازک تھاچناچہ ہمسائے کے گھردستک دی‘اتنی رات گئے بھلامخلوق کہاں مخلوق کی تشنگی بجھایاکرتی ہے یہ کام توخالق کاہے ناکام لوٹ آئے او ربیوی کے اس سوال پرکہ ہمسایہ نے تیل نہیں دیا‘فرمایا!بھلاجوغیر کے آگے ہاتھ پھیلائے اسے پہلے کبھی کچھ ملاہے جو اب ملے گا؟اسی رات محبوبِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کادیدارنصیب ہوا‘سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں شیخ اسماعیل کوفرمایا:اسماعیل!غم نہ کر!تیرے ہاں اس باسعادت بچی کی ولادت ہوئی ہے جومیری امت کے ہزارہالوگوں کے لیئے مشعل ِ راہ ثابت ہوگی‘اس کے روحانی مرتبہ سے اہل ِدنیاکو فیض پہنچے گا‘تم تنگدستی کی وجہ سے افسردہ ہوتوکل صبح حاکم ِ بصرہ کے پاس چلے جانا‘ہماری طرف سے ایک خط حاکم کے نام لکھنا‘اس میں لکھنا کہ تم ہرروز ہم پر100مرتبہ اورہرجمعرات 400مرتبہ درودبھیجاکرتے تھے ‘گزشتہ جمعرات تم نے ہم پردرود نہیں بھیجا لہٰذاکفارہ کے طورپرہمارے اس بندے کو چارسودینادے دو۔افسردگی وبے بسی کے آنسولیے جو شخص رات کوسویاتھا‘اگلی صبح اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوتھے کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یادفرمایا‘بشارت دی‘اوراپنے ہی درِ اقدس سے عطا فرمایا۔اپنی حیات میں صابروشاکررہنے والے اورخداکے سواکسی کے آگے سوال نہ کرنے والے شیخ اسماعیل اب حسنین کریمین علیہما السلام کے ناناجان کے حکم پرحاکمِ بصرہ عیسٰی زروان کے پاس پہنچے تو خط پڑھ کروہ آبدیدہ ہوگیااورآنے والی مبارک ہستی کو شکریہ کے ساتھ چارسودیناردیے ‘دس ہزا ر دینا رغرباء میں تقسیم کیے اورشیخ اسماعیل سے ادب سے کہاکہ پھربھی ہمارے لائق ہوتوہمیں یادفرمائیے گاآپ کی وجہ سے مجھے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یادفرمایا۔ شیخ اسماعیل اس چوتھی معصوم دخترکے عادات واطوارسے متاثرہوتے ‘اس کی بے نیازی‘اندازِ گفتگواورطرزعبادت دیکھاتوپکارااُٹھتے کہ یہ لڑکی مختلف ہے ۔ابھی عفت ماب رابعہ کی عمر مبارک بمشکل پانچ برس ہی تھی کہ والد کاسایۂ شفقت سرسے اُٹھ گیا‘کچھ عرصہ بعد والدہ ماجدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔اورپھر105 ہجری کے نزدیک بصر ہ نے وہ خون آشام شا میں بھی دیکھیں کہ بقول سعدی یار لوگ عشق وعاشقی کرنا بھول گئے ۔ ایک روایت کے مطابق جب چاروں بہنیں بھوک پیاس سے تنگ آکرہجرت کررہی تھیں توکسی ڈاکونے آپ کو اغواکرلیا اورپھر ’’عتیق‘‘ نامی تاجرکے ہاتھوں فروخت کردیا۔نوبرس کی عمرمیں حزن وملال ،والدین کی ہمیشہ کے لیے جدائی‘بہنوں سے بچھڑنااورظالم آقاکی غلامی کوئی شے بھی اس گوہرکونایاب بننے سے نہ روک سکی مگربالی عمرمیں اس قدربوجھ نے کمزورکردیا‘ مالک نے کہاکیاتم بیمار ہو؟فرمایا! کیوں کیاکام میں کوتاہی ہوئی ہے ؟مالک نے نفی میں جواب دے کرآپ کے کام کی تعریف کی اورصحت کاخیال رکھنے کو کہاتو آپ نے خاموشی اختیار کرلی۔ ایک رات عتیق کی آنکھ کھلی توگھرمیں سے مناجات کی آوازیں سنیں۔تجسس سے آوازکی طرف بڑھاتو اُس کے قدم اسے سیدہ رابعہ کے کمرے تک لے گئے ۔ادھر جاکرکیادیکھتاہے کہ دن بھرمستعدی سے کام کرنے والی معصوم بچی بارگاہِ الہی میں حاضر ہے اوراپنے رب سے عجزوانکساری سے مخاطب ہے ،’’اے میرے حقیقی معبودومحبوب!میں تیری بارگاہ میں دیرسے حاضرہوتی ہوں ،مجھے معاف فرما۔تجھے معلوم ہے کہ میں اپنے ایک ایک لمحے کوتیرے ذکر کے موتیوں سے سجاناچاہتی ہوں مگردن کومجھے دنیاوی مالک کی فرمانبرداری تیری جانب آنے سے روکتی ہے ‘اگرتونے مجھے اپنی مخلوق کی غلامی میں نہ دیاہوتاتوایک لمحہ بھی تجھ سے غافل نہ رہتی‘‘۔آوازمیں اس قدرسوزوگداز اورخلوص تھاکہ رب کی محبت سے سرشاراس معصوم بچی کے الفاظ نے تاجر کے دل پرقیامت ڈھادی۔اب وہ بدل چکاتھااُس نے شب بھرتوبہ کرتے گزاردی۔صبح آپ سے معافی طلب کی اورعرض کی کہ اس گھرمیں رہناچاہیں توآزاد رہیں اوراسے میں اپنے لیے خوش بختی تصورکروں گااوراگرجاناچاہیں تومیری طرف سے اجازت ہے ۔عشق ومحبت کی اس تصویرنے فرمایامگر میرے پاس تیری اداکی ہوئی قیمت نہیں ہے ۔تاجر نے کہا’’قیمت یہی ہے کہ مجھے معاف کردیجئے ‘‘۔آپ نے اسے معاف کردیااورکہا میں تنہارہ کرخداکی عبادت کرناچاہتی ہوں اوروہاں سے رخصت ہو گئیں۔ عتیق سے رہائی پاکرآپ اپنی علمی تشنگی بجھانے کیلئے بصرہ سے کوفہ تشریف لے گئیں۔کوفہ ا س وقت تعلیمی میدان میں سورج کی مانند چمک رہاتھا‘آپ نے اس روشنی سے اپنے آپ کواس قدر منورکیاکہ آپ کے معاصرفقیہ ومحدث‘آپ کی مجلس میں حاضر ہونے کو باعثِ فضیلت سمجھتے تھے ۔ ایک مرتبہ امیرالمومنین فی الحدیث حضرت سفیان ثوری آپ کی عیادت کیلئے خدمت میں حاضر ہوئے اوربصدادب خاموش بیٹھے تھے کہ آپ نے خودہی گفتگوکاآغازکیا۔فرمائیے ‘‘حضرت سفیان نے کہا۔’’ا س سے دعاگوہوں کہ وہ آپ کواس دکھ سے نکالے ‘‘ سیدہ رابعہ نے فرمایا ’’کیاتمہیں علم نہیں کہ یہ بیماری مالک کے حکم سے ہے ؟‘‘ حضرت سفیان نے فرمایا۔’’آپ نے بالکل درست فرمایا‘‘ آہستہ سے سیدہ نے فرمایاکہ پھر ’’میں اس رفیق کی مرضی کے خلاف کیسے عرض گزارسکتی ہوں‘‘ حضرت سفیان نے سوال کیاکہ آپ کو سب سے شدید تمناکیاہے ؟آپ یوں گویاہوئیں’’سفیان! تم اہلِ نظرہو، ایسی گفتگوکیوں کرتے ہو۔مجھے گزشتہ بارہ برس سے تازہ خرمے کھانے کی خواہش ہے اورتم یہ بھی بخوبی جانتے ہوکہ اس دھرتی پرخرمے کس قدرارزاں ہیں اورکتنی بے مایگی سے فروخت ہوتے ہیں مگرتم بہترجانتے ہوکہ میں غلام ہوں اورغلام اورخواہش کاجوڑ نہیں،اگرمیں کسی شے کی تمناکروں اوروہ میرے آقاکوپسندنہ ہوتوپھریہ سراسرانکارِیارہوا۔‘‘ آپ کی اس عارفانہ گفتگوکوسن کرسفیان ثوری نے عرض گزاری کہ میں آپ کے معاملات میں دخل دینے کااختیارنہیں رکھتا۔ عبادتِ الٰہی آپ مناجات میں کہتی تھیں: میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کروں تَو تُو مجھے دوزخ میں جلا ،اور اگرجنت کی آرزو کی وجہ سے عبادت کروں تو جنت مجھ پر حرام کر، اور اگر تجھ کو تجھ سے چاہوں تو اپنا جمال مجھے نصیب کر ،اور فرمایا: اگرخدا مجھے دوزخ میں بھیجے گا تومیں فریاد کروں گی کہ میں نے تجھے دوست رکھا، دوست دوست کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتا۔ غیب سے آواز آئی اے رابعہ! تو ہم سے بدگمان نہ ہو، ہم تجھے اپنے دوستوں کے قرب میں جگہ دیں گے تاکہ تو ہم سے بات کر سکے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتیں: اے میرے رب! میرا کام اور میری آرزو دنیا میں تیری یاد ہے اور آخرت میں تیرا دیدار، آگے تو مالک ہے جو چاہے کر۔ ایک شب کو عبادت کرتے وقت آپ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا: خدایا میرے دل کو حاضر کر ،یا میری بے دلی کی عبادت کو قبول کرلے ۔ جب آپ کی وفات کا زمانہ قریب ہوا توجو مشائخ آپ کے قریب تھے ، ان سے آپ نے فرمایا :تم لوگ اٹھ جائواور فرشتوں کے لیے جگہ خالی کر دو، سب باہر چلے آئے اور دروازہ بند کر دیا گیا، سب لوگوں نے ایک آواز سنی، وہ آواز یہ تھی ’ ’اے نفس مطمنۂ! اپنے پروردگار کی طرف اِس حال میں چلو کہ وہ تجھ سے راضی (اور)تو اُس سے راضی۔‘‘ (سورۃ الفجرآیت:27-28) اس کے بعد دیر تک کوئی آواز نہ آئی۔ لوگ اندر گئے تو دیکھا کہ آپ کا وصال ہو چکا ہے ،آپ نے اس دنیائے بے بقا سے کوچ فرمایا۔ آپ بہت کم گو تھیں مختصراورمدلل گفتگو فرماتیں۔زیادہ وقت تنہارہ کراپنے رب کی عبادت کرتیں۔دوسری صدی ہجری کوصوفیاء کی صدی کہاجاتاہے ، اس میں سیدہ رابعہ رحمۃ اللہ علیہا کی ہستی نے جومقام حاصل کیاوہ رہتی دنیاتک عورتوں کے لیے باعث ِ فخررہے گا۔بہار کے دنوں میں ایک مرتبہ موسم نہایت ہی خوشگوارتھامگرمحب کو محبوب سے فرصت ہوتوکسی اورشے کودیکھے ۔آپ کی خدمت گار خاتون نے کہاکہ سیدہ باہر تشریف لاکرصانع حقیقی کی قدرت کانظارہ کیجیے توآپ نے فرمایا’’تواندرآ، اورآکرصانع حقیقی کودیکھ ،میراکام صانع کودیکھناہے نہ کہ صانع کی صنعت کو دیکھنا ‘ ‘۔ وصال