1950ء کے عشرے یعنی آزادی کے فوری بعد جب کانگرس کی طرف سے سکھوں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے ہوتے نظر نہ آئے تو پنجاب کی لسانی شناخت محفوظ بنانے کے لئے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارت کے سٹیٹ ری آرگنائزیشن کمشن نے شدید احتجاج کے بعد پنجابی زبان کو قومی زبانوں میں شامل کرنے کے حوالے سے سکھوں کے مطالبات تسلیم کر لئے مگر اس کے بعد مشرقی پنجاب کے وسیع علاقے کو ہما چل پردیش ‘ ہریانہ اور پنجاب کی تین ریاستوں میں بانٹ دیا۔ پنجاب کو زرعی مراعات ملیں۔ سبز انقلاب کے مقامی آبادی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی آئی۔ مگر اس سے دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہو گیا۔ بھارتی حکومت پنجاب کو پاکستان کی سرحد پر واقع ہونے اور سکھوں کو ناقابل اعتبار سمجھ کر یہاں بھاری صنعتوں کا قیام ایک خطرناک چیز سمجھتی ہے۔ جب بھی پنجاب میں بڑی سرمایہ کاری کا سوال اٹھا بھارتی حکام نے اس کے اثرات کو مشرقی اور مغربی پنجاب کے طور پر دیکھا۔ بھارتی حکمران پنجاب کو تقسیم کرنے کے بعد بھی اس خدشے کا شکار ہیں کہ ننکانہ صاحب‘ کرتار پور‘ پنجہ صاحب اور رنجیت سنگھ کی سمادھی کے متعلق قائد اعظم کے وعدے کو پاکستانی قوم آج تک نبھا رہی ہے۔ اس امر نے سکھوں کی سوچ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف مشرقی پنجاب کو صنعتی ترقی سے محروم اور اس کے کاشت کاروں کو پاکستان سے لین دین کے لئے پابندیوں کا سامنا رہتا ہے۔پنجاب کے سکھوں نے جدیداور اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگر ان کے لئے ملازمتیں موجود نہ تھیں۔ احساس محرومی بڑھا تو انہوں نے مسلح گروپ بنانے شروع کر دیے۔ 1972ء میں اکالی دل نے پنجاب میں انتخابی میدان مار لیا۔ اکالی دل نے کامیاب ہو کر آنند صاحب قرار داد منظور کی۔1973ء میں پیش کردہ اس قرار داد میں پنجاب کے لئے مزید خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا۔ اس میں سکھوں کو درپیش سیاسی و مذہبی مسائل کا ذکر کیا گیا تھا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ سکھ مت کو ہندو مت سے الگ مذہب تسلیم کیا جائے۔ مرکز سے اختیارات ریاستوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ بھی اس قرار داد کا حصہ تھا۔ بھارتی حکومت نے اس قرار داد کو مسترد کر دیا۔بھارت کے بعض حلقوںنے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے اسے درپردہ پاکستانی کارفرمائی قرار دیااور کہا کہ پاکستان سقوط مشرقی پاکستان کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ پنجاب کے سکھوں نے بھارتی حکومت کے اس فیصلے کو تحریک آزادی کے دوران اپنے ساتھ ہونے والے وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیدیا۔1982ء میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے بھارتی حکومت کے خلاف دھرم یدھ مورچہ شروع کرنے کے لئے اکالی دل میں شمولیت اختیار کر لی۔ جلد ہی ہزاروں لوگ اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ ابتدائی طور پر اس مورچے کے مطالبات میں وسائل کا زیادہ حصہ اور چندی گڑھ کو پھر سے پنجاب میں شامل کرنا تھا۔ بھنڈرانوالہ نے آنند صاحب قرار داد مسترد ہونے کے بعد ہی سکھوں کے لئے خالصتان کے نام سے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطالبے کو تیزی سے پذیرائی ملی۔ اکالی دل کی حریف جماعت کانگرس کی سربراہ اور بھارت کی وزیر اعظم اندراگاندھی کا خیال تھا کہ آنند صاحب قرار داد کو تسلیم کرنے کا مطلب بھارت کو تقسیم کرنا ہے۔ بھنڈرانوالہ قدامت پسند تھے ۔ ان کی تقریروں نے سکھوں میں جوش بھر دیا۔ بھنڈرانوالہ کے ساتھی فوجا سنگھ کی بیوہ بی بی امرجیت کور نے ببر خالصہ کے نام سے ایک گروپ قائم کیا جو ہر اس شخص کو قابل گردن زدنی سمجھتا تھا جو سکھوں کا دشمن تھا۔ فوجا سنگھ دل خالصہ گروپ کا سربراہ تھا اور اس نے الگ سکھ ریاست کا مطالبہ کر دیا تھا۔ فوجا سنگھ کی کوششوں سے ہی آل انڈیا سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم ہوئی۔ پنجاب میں یکایک کانگرس کے حامیوں اور علیحدگی مخالف شخصیات کے قتل کے واقعات بڑھ گئے۔ ان واقعات کی ذمہ داری ببر خالصہ اور بھنڈرانوالہ گروپ پر عائد کی جانے لگی۔ ببر خالصہ کے کارکن گولڈن ٹیمپل میں رہائش کرنے لگے۔ کانگرس نواز نرانکاری سکھ فرقے کا سربراہ گوربچن قتل ہوا تو الزام جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ پر لگا۔ بھنڈرانوالہ گولڈن ٹیمپل میں روپوش ہو گیا۔ تین سال بعد اکھنڈ کرتانی جتھہ کے اجیت سنگھ نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کر لی۔ بھارت کا خیال رہا ہے کہ مشرقی اور مغربی پنجاب کے گوردواروں میں علیحدگی پسند سکھ پناہ لیتے ہیں اور یہاں اسلحہ چھپایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ پاکستان آنے والے سکھوں کی خصوصی نگرانی کرتا ہے۔ سکھوں کے خلاف یہی سوچ اندراگاندھی کو آپریشن بلیو سٹار تک لے گئی جس میں سینکڑوں سکھ بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ آخر کار اندراگاندھی خود بھی انتقام سے بھرے اپنے ایک محافظ سکھ کا نشانہ بن گئیں۔ شاید سکھوں نے کانگرس کی سربراہ اور ملک کی وزیر اعظم کو قتل کر کے نہرو اور پٹیل کی وعدہ خلافیوں کا بدلہ لے لیا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارتی پولیس اور فوج نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالا اور سوویت یونین نے پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ امریکی سی آئی اے کو بھی خالصتان نواز قرار دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ کش فسادات شروع ہو گئے۔ 20ہزار سے زائد سکھ بھارت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ ان ہنگاموں نے خالصتان کے لئے عوامی حمایت میں اضافہ کر دیا۔پنڈت نہر ونے سیکولر بھارت کا نعرہ اس لئے لگایا تاکہ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی کوئی دوسری اقلیت الگ وطن کا مطالبہ نہ کر سکے۔ پنجاب کی تقسیم اسی لئے مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر ہوئی۔ سکھ کانگرس کے اس دھوکے میں نہ آتے تو پنجاب سارے کا سارا پاکستان میں شامل ہوتا۔ لاکھوں افراد قتل نہ ہوتے اور سکھوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے بھارت کی اجازت کا محتاج نہ ہونا پڑتا۔