اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ اس بار ملک میں اتنی جاندار حزب اختلاف بنی ہے کہ حکومت کو نکیل ڈال کر رکھے گی تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ میں نے حزب اختلاف کا پہلے ذکر اس لیے کیا کہ حکومت بننے سے پہلے ہی اس کا وجود عمل میں آ چکا ہے اور اس میں میدان سیاست کے بڑے بڑے نابغہ روزگار لوگ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس بار اس ملک میں ایسی حکومت آئی ہے جو نہ صرف اپنے آئیڈیلز کی وجہ سے لاجواب ہے بلکہ اس کی پشت پر عوام و غیر عوام کی ایسی طاقت ہے کہ دنیا دیکھے گی تو وہ بھی خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ ابھی ہمارا مقدر بدلنے میں بہت وقت اور محنت درکار ہے۔ جو بھی سمجھتا ہے کہ اس نے ہاتھ مار لیا ہے وہ اپنی یہ غلط فہمی دور کر لے۔ زیادہ فلسفہ جھاڑے بغیر ایک دو سیدھی سی باتیں عرض کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کو کیا پڑی ہے کہ وہ زور دار اور جارحانہ قسم کی اپوزیشن کرے۔ کیوں ؟ آخر کیوں؟ اس نے کیا لینا ہے؟ اور اس نے کیا کھویا ہے؟ سندھ کی حکومت پہلے ہی اس کے پاس تھی اب بھی اس کے پاس ہے‘ یہی نہیں اس نے اسے مزید مضبوط کر لیا ہے۔ صوبے میں اپنی سب سے بڑی حریف ایم کیو ایم کے علاوہ اندرون سندھ کی تمام روائتی قوتوں سے بھی جان چھڑا لی ہے۔ اب وہ سڑکوں پر آئے تو کیوں آئے۔ پورے ملک کے بندوبست میں اس کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہے۔ البتہ ایک بات میں وہ بہت حساس ہے۔ وہ یہ کہ اس کی قیادت پر ہاتھ نہ ڈالا جائے آج تک اس کا بار بار ڈراوا دیا جاتا رہا ہے۔ مگر بعد میں اس کا مقصد صرف ہاتھ مروڑ کر کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیا اس حکمت عملی میں اب تبدیلی آ جائے گی۔ آ جائے گی تو دیکھا جائے گا۔ یہ اتحاد ہم نے اسی دن کے لیے تو بنایا ہے ۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا مرحلہ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ یہاں اسی معاملے کا دوسرا پہلو بھی دیکھتے چلیں۔ کیا احتساب کرنے والے اپنے اعلامیہ سے مکر جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو بڑے دعوئوں سے آنے والی حکومت بھی کیا اس پر چپ سادھ لے گی۔ مک مکا کر لے گی۔ ایسا ہوا تو خود اس کا اعتبار کیا رہے گا۔ یہ حکومت جو ان معاملات پر بڑی بلندیوں پر متمکن ہے۔ اپنے پرستاروں کو کیا جواب دے گی۔ یہ تو صرف ایک مسئلہ ہے۔ اس حکومت کو تو ایسے بیہودہ مسئلے درپیش ہیں جن کا اسے سامنا کرنے کے لیے یا تو بلندیوں سے نیچے اتر کر اپنی بِھد اڑوانا ہے یا پھر آسمانوں میں معلق رہنا ہے۔ کیا خیال ہے۔ایسا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی ہی نہیں‘ شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے پاس بھی اور کون سا راستہ ہے۔ کیا وہ سڑکوں کی سیاست کرنے پر آمادہ ہو گی۔ نواز شریف کا بیانیہ اپنی جگہ‘ مگر اس وقت اپنی بقا کے لیے کیا یہ راستہ ممکن رہا ہے۔ اس بیانیے نے پارٹی کو متحد رکھا۔ نواز شریف کی بہادری کو داد بھی دی گئی اور پارٹی کو ووٹ بھی ملے۔ مگر الیکشن تو ختم ہو گئے‘ اب اس بیانیے کا مطلب ہے میدان میں اترو اور دمادم مست قلندر کر دو۔ اللہ کو جان دینا ہے‘ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ آیا آپ مسلم لیگ (ن) کو اس وقت یہ مشورہ دیں گے۔ صرف اس لحاظ ہی سے نہیں کہ اس میں اتنی سکت ہے یا نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی آیا یہ ملک کے لیے سود مند بھی ہے یا نہیں۔ بہت سی تلواریں بھی مسلم لیگ کے سروں پر لٹکا دی گئی ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے آپ ’’متحدہ‘‘ اپوزیشن سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ اگر یہ بکھرے نہ اور ڈٹ جائے‘ پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو ناکوں چنے چبوا دے تو یہ بڑی بات ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملکی معاملات کے درست سمت پر چلنے کا بہت سا انحصار اس بات پر ہے کہ اپوزیشن کیا کردار ادا کرتی ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ حکومت بننے سے پہلے ہی اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اختلافات ختم کر کے مل بیٹھی ہیں۔ان کے پروگرام مختلف‘ ان کے ارادے الگ‘ ان کے مقاصد میں فرق۔ وہ تو صرف ایک نکتے پر اکٹھے ہوئے ہیں کہ وقت نے جنہیں اقتدار سونپا ہے‘ وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ اس کے اہل نہیں ہیں‘ بہت خطرناک ہیں‘ یا بہت منتقم مزاج یا کینہ پرور ہیں۔ ان سے تعاون بھی کیا تو اس پارٹی نے کیا جسے خود حکمران جماعت ملک دشمن سمجھتی رہی ہے اور جس کی طاقت توڑنے کے لیے ریاست کی ساری مشینری برسر پیکاررہی ہے۔ وہ بنی تو اسے خلائی مخلوق کی کاری گری کہا گیا اور اب بکھری ہے تو اسے بھی اسی مخلوق کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ ماضی بتاتا ہے کہ اس کے ساتھ اتحاد بھی آسان نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کو اس سے پہلے پالا نہیں پڑا۔ چلیے‘ حزب اختلاف کو چھوڑیے ‘ حکومت کی طرف آتے ہیں اس ملک میں کار سلطنت جس طرح چلتے رہے ہیں کیا وہ سب کچھ بدل جائے گا۔ عمران خان کے جو خواب ہیں وہ تو ابھی درختوں پر لٹکے وہ خوبصورت پھل ہیں جن پر ابھی رس آنا ہے۔ اس مرحلے پر اگرا نہیں پکنے نہ دیا جائے تو یہ گل سڑ کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان پھلوں کی بہت زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یار‘ صاف پوچھتا ہوں‘ عمران کو آزادی کے ساتھ حکومت کرنے دی جائے گی؟ کیا سارے پاپڑ اس کارن بیلے گئے تھے۔ ہماری ریاست ایک خاص ڈھب سے چلتی ہے۔ اسے عمران کے انداز میں چلانے کے لیے بہت پہلے بہت کچھ چینج کرنا پڑے گا۔ کیا عمران یا کوئی بھی تاریخ کے اس مرحلے پر ایسا کر سکیں گے۔ نواز شریف تو نہیں کر سکے تھے۔ شاید مورخ یہ کہتا پھرے کہ انہوں نے وقت سے پہلے یہ علم اٹھا لیا تھا یا شاید یوں بھی کہ حکومت کی بے بسی دیکھ کر نواز شریف کا بیانیہ پھر زور پکڑ جائے۔ جسے آج نہیں تو کل زور پکڑنا ہے۔ کل سے میری مراد ایک لمبی مدت بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر عمران اپنے لیے گنجائش نکال لیتے ہیں تو آیا انہوں نے جو خواب دیکھے ہیں انہیں پورے کر سکیں گے۔ چلیے خوابوں کو چھوڑیے۔ عوام مایوس ہو کر بھی بعض اوقات مکمل مایوس نہیں ہوتی۔ کیا وہ ملک کو ان خطوط پر چلا سکیں گے جو خلافت راشدہ کی منہاج چاہے نہ ہو‘ آج کے زمانے کی ایک کامیاب فلاحی ریاست کے ماڈل پر استوار ہو سکے۔ کیا ایسا ہو سکے گا۔ عمران سے کم از کم لوگ اس کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم اپنے اقتصادی مسائل پر قابو پا سکیں گے اس کے ساتھ دوسرا بڑا چیلنج خارجہ پالیسی کا ہے۔ امریکہ کے ماہرین کہتے ہیں پاکستان سے اس وقت امریکہ کی لڑائی افغانستان کے مسئلے پر ہے۔ امریکہ یہاں شکست کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں لینا چاہتا۔ اس کے ساتھ باقی سب باتیں ثانوی ہیں۔ اس کی حکمت عملی اس معاملے میں اتنی آگے نکل گئی ہے کہ وہ بھارت سے ہمارا کوئی تصادم نہیں چاہتا ۔وہ یہ تک نہیں چاہتا کہ ہم کشمیر کا نام بھی لیں۔ اس پورے تناظر میں اور ذرا وسیع پس منظر میں اسے بھی گوارا نہیں کہ ہم سی پیک کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوں۔ وہ کیا چاہتا ہے‘ شاید ہمیں تباہ تو نہیں کرنا چاہتا کہ یہ اس خطے میں خود امریکہ کی تباہی کا آغاز ہو گا‘ وہ ہمیں بس ایک طفیلی ریاست بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ہماری عسکری اور ایٹمی صلاحیتوں کو اپنا تابع فرمان بنانا چاہتا ہے۔ وہ جو چاہتا وہ شاید نہ ہمارے نئے حکمرانوں کے شایان شان ہو گا نہ اس قوم کو قابل قبول۔ ہمارے سارے مسئلے اچھی گورننس اور اچھی اقتصادی صورت حال مانگتے ہیں۔ جبکہ سال پہلے تو انسان صرف روٹی ‘ کپڑا اور مکان مانگتا تھا‘ اب وہ تعلیم ‘ صحت اور انسانی حقوق بھی مانگ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ کے لیے جس چھ ماہ کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے‘ اس میں وضاحت کی ہے کہ ان باتوں کا خیال رکھا جائے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جنہیں آپ میگا پراجیکٹ کہہ کر مطعون کرنے لگے وہ بے معنی تھے‘ تو ایسا بھی ہرگز نہیں۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے‘ یہ سب منصوبے اب ہمارے ملک کے لیے ضروری ہیں۔ اب لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بیل گاڑیاں نہیں چل سکتیں۔ آپ کو ٹریفک کو قابو کرنے کے لیے آئندہ اورنج ٹرین سے بھی آگے کے کئی منصوبہ بنانا پڑیں گے۔ دعا دیجیے کہ جانے والوں نے انرجی کا مسئلہ فی الحال حل کر دیا ہے۔ آج کے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی رسد و طلب برابر ہے۔ انفراسٹرکچر تیزی سے بن رہا ہے۔ اسے اسی تیزی سے مکمل ہونا ہے۔ کھیت سے منڈی تک کے راستے بہتر ہوئے ہیں۔ انہیں مزید بہتر ہونا ہے۔ ایک دوسرے سے کریڈٹ چھین کر نئی حکمت عملی نہیں تراشی جا سکتی۔ اب ملک کو اس مرحلے سے آگے چلنا ہے جب ہم ٹیک آف کی پوزیشن میں ہیں۔ اس ملک کے سیاسی بحران نے ترقی کا سارا عمل سست کر دیا ہے۔ اب اسے دوبارہ شروع کر کے تیز رفتاری سے آگے لے جانا ہے۔ کرنے کی بہت سی نئی باتیں ہیں‘ آپ ان کا مکمل سو فیصد کریڈٹ لے سکتے ہیں۔ اس پر آپ نئی حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری زراعت کو ایک نئے بریک تھرو کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اینگرو انڈسٹری کا قیام بھی ناگزیر ہے۔ دیہی زندگیوں کو عالمی معیشت کے ساتھ جوڑنا بھی ایک چیلنج ہے۔ دستکاریوں سے لے کر کئی شعبے ہیں جن میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ معیارات بلند کئے جا سکتے ہیں خاص کر ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کا معیار‘ نئی حکومت سے اس کی بڑی توقعات ہیں۔ عمران کو اس کا دعویٰ بھی ہے۔ کیا یہ سب ہو سکے گا۔ اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں چلے گا۔ مگر کچھ سراغ دوچار ہفتوں ہی میں مل جائے گا۔ کیسی ٹیم بنائی ہے؟ کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ میں اس بات پر خوش ہونے کا نہیں کہ آپ وزیر اعظم ہائوس میں نہ رہیں یا گورنر ہائوسز کو چڑیا گھر یا کچھ اور بنا دیں۔ اصل کفایت شعاری یہ ہو گی کہ آپ نظم حکومت اس طرح چلائیں کہ ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ مجھے قائد اعظم کی مثالیں یاد آ رہی ہیں۔ ایسی بھی جن میں بعض پوری طرح ریکارڈڈ بھی نہیں ہیں۔ مگر میں ان مثالوں پر کیوں اکتفا کروں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ لیاقت علی خان نوابی چھوڑ کر جب نوزائیدہ ملک کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنی ذات پر ہی نہیں‘ پورے نظم حکومت میں کفایت شعاری کو کیسے فروغ دیا۔ آپ ان بڑے لوگوں کو چھوڑیے۔ اس زمانے کے ہر سیاست دان کی زندگیوں کا مطالعہ کیجیے‘ انہوں نے کس طرح ملک کے معاملات چلائے اور اس کے نتائج بھی نکلے۔ وہ ملک جس کے پاس دفتری کام کے لیے پنوں کی جگہ بیری کے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے اور جس کے وفاقی دفاتر کراچی میں ریت کے ٹیلوں پر لگے شامیانوں میں تھے۔ اس ملک نے کیسے معاشی طور پر اپنے قابل عمل ہونے کا ثبوت دیا۔ ان میں کوئی بددیانت نہ تھا۔ قائد اعظمؒ اور قائد ملتؒ دونوں ان عمارتوں میں رہتے تھے جنہیں ان کے عہدوں کے لیے انگریز نے تعمیر کر رکھا تھا مگر کیا سادگی تھی۔ کیا دیانت تھی اور کیا عزم تھا‘ نئے ملک کو بنانے کا۔ ہیں دکھاوے کے آرائشی کام نہیں چاہیے۔ صحیح معنوں میں دیانت اور سادگی درکار ہے۔ اسے اختیار کرنے کے لیے کن کن قوتوں سے لڑائی کرنا پڑے گی اور یہ قوتیں کتنی طاقتور ہیں۔ یہی میرا مسئلہ ہے‘ یہی اصل مسئلہ ہے۔ خوش فہم نہ ہو جائیے‘ آگے راستہ بہت دشوار ہے۔ اپوزیشن کے لیے بھی اور حکومت کے لیے بھی۔ اور ان کے لیے بھی جو نئے پاکستان کے خوابوں کے ساتھ تھے۔ اور ان کے لیے بھی جو ان خوابوں کو بہکاواسمجھتے تھے۔ ان کے لیے بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف کے خلاف کارروائی سے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے اور ان کے لیے بھی جو یہ سمجھتے تھے اصل مقصد نواز شریف کا احتساب نہیں تھا۔ ان سب کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ اصل امتحان ۔اور یہ تو میں بتا چکا ہوں اصل مسئلہ کیا ہے۔