جمہوری استحکام کی طرف پیشقدم پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم کے طور پر جناب عمران خان نے حلف اٹھا لیا ہے۔ عمران خان ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اس منصب تک پہنچے ہیں جہاں وہ ملک کی حالت بہتر بنانے کے لیے براہ راست کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب میں مسلح افواج کے سربراہان‘ مختلف ممالک کے سفرائ‘ تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں‘ 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فاتح قومی ٹیم کے ارکان‘ بھارت کے سابق کرکٹر اور سیاستدان نوجوات سنگھ سدھو سمیت بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ ایک دن قبل عمران خان کو اپنا اور تمام پاکستانیوں کا وزیراعظم تسلیم کرنے والے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے تقریب میں شرکت نہ کی۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہبازشریف بھی مدعو کئے جانے کے باوجود نومنتخب وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شریک نہ ہوئے۔ اہم اپوزیشن رہنمائوں کی عدم شرکت سے عوام میں یہ پیغام گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کی بجائے خودغرضی کے راستے پر چلنا چاہتی ہیں۔ عمران خان کے حلف اٹھانے کے فوری بعد عوام نے امید افزا مسرت کا اظہار کیا۔ دراصل پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ سیاستدانوں کو جب کبھی اقتدار ملا انہوں نے اپنے خاندان اور اپنے میل ملاقات والے لوگوں کو مختلف مناصب اور مراعات دے کر عوام پر مسلط کیا۔ یوں عوامی مینڈیٹ سیاسی جماعت کی بجائے ایک خاندان کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ جمہوریت منتخب نمائندوں کو اختیار عطا کرتی ہے‘ مختلف معاشروں کی داخلی کیفیت کو پیش نظر رکھ کر منتخب نمائندوں کے اختیار کی سطح ریاست طے کرتی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس کے نمائندوں کوجو اختیار حاصل ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے ملک کے اراکین پارلیمنٹ کے نصیب میں ہو مگر یہ بات بھی ہے کہ قانون کے سامنے جس قدر کڑی جوابدہی ان ممالک کے اراکین پارلیمنٹ کی ہوتی ہے پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش یا نیپال جیسے جنوب ایشیائی ممالک میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جو تقریر کی اس میں انہوں نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ان کی حکومت کرپشن کے معاملات پر کسی سیاسی جماعت یا خاندان کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی۔ انہوں نے اس تاثر کی دو ٹوک انداز میں نفی کی کہ سیاسی حمایت کے بدلے وہ کسی سیاستدان کو این آر او دیں گے۔ یقینا عمران خان کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ دنیا کئی عشروں سے ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے واقف ہے۔ عمران خان نے زندگی کے ہر مرحلے پر ملنے والی کامیابی کو اگلی کامیابی کی بنیاد بنایا۔ 1992ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت ان کے لیے کئی کامیابیوں کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بنی۔ انہوں نے ورلڈ کپ کی جیت سے اندازہ لگایا کہ پاکستانی قوم کس قدر خوشیوں کو ترسی ہوئی ہے۔ لاہور میں 1994ء میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال تعمیر کر کے انہوں نے خود کو فلاحی منصوبوں کی طرف بڑھایا۔ 1996ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ فلاحی میدان میں انہوں نے لاہور کے بعد پشاور میں کینسر ہسپتال بنایا‘ اپنے آبائی علاقے میں جدید تعلیمی سہولیات سے مزین نمل کالج بنایا۔ جہاں تک سیاسی سفر کی بات ہے تو 2002ء کے انتخابات میں اپنی جماعت کی طرف سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے وہ واحد رکن تھے۔ 2008ء کے انتخابات کا انہوں نے اس بنا پر بائیکاٹ کیا کہ جنرل پرویز مشرف نے پیپلزپارٹی‘ ن لیگ‘ ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے ارکان پر قائم سینکڑوں مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے این آر او کی منظوری دی تھی۔ عمران چاہتے تھے کہ عدالتوں کو ان لوگوں کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل عوام کی بڑی تعداد عمران خان کے سیاسی پروگرام کی طرف مائل ہو چکی تھی۔ عوامی سطح پر پی پی اور ن لیگ سے بیزاری کا اظہار کیا جارہا تھا مگر انتخابی نتائج ایک اور تصویر پیش کر رہے تھے۔ پولنگ ڈے سے دو روز قبل عمران خان کرین سے گر کر شدید زخمی ہو گئے۔ صحت یاب ہوکر انہوں نے انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی۔ دھاندلی کے خلاف انہوں نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ جمعہ کے روز شہبازشریف جس طرح دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن قائم کرنے اور 30 روز میں اس کی رپورٹ سامنے لانے کا مطالبہ کر رہے تھے 2013ء میں ان کی جماعت کا طرز عمل اس سے بالکل مختلف تھا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جناب عمران خان نے سابق حکمران دونوں جماعتوں کو یاد دلایا کہ اگر وہ اداروں کو مضبوط بناتے اور انتخابی امور کو شفاف بنانے پر توجہ دیتے تو آج وہ انتخابی عمل پر شکوک کا اظہار نہ کر رہے ہوتے۔ اس وقت حالات مناسب ہیں اور عمران خان الیکشن کمشن کو زیادہ بااختیار اور انتخابی عمل کو قابل بھروسہ بنانے کے لیے اپوزیشن سے تعاون طلب کریں۔ اداروں کو مستحکم کرنے کے ضمن میں ان کا پہلا قدم ہی متاثر کن ہوسکتا ہے۔ وطن عزیز کا ہر شعبہ سابق حکمرانوں کی نالائقی کا شاہکار دکھائی دیتا ہے۔ ملک پر بھاری قرضوں کا بوجھ ہے جن کی ادائیگی کے لیے مزید قرضوں کی بات ہورہی ہے۔ ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات صرف دفاعی امور تک محدود نظر آنے لگے ہیں۔ کھیلوں‘ ثقافت‘ علم و ادب اور سیاحتی امور میں دنیا ہماری صلاحیتوں سے پوری طرح واقف ہے نہ ہم نے اپنی یہ قابلیت بین الاقوامی تعلقات استوار کرنے کے لیے کبھی استعمال کی۔ خارجہ امور کی سمت درست کرنے کے ساتھ اس شعبے کو متحرک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصاً خطے میں بھارت‘ امریکہ اور افغانستان نے ہمارے لیے جو چیلنجز کھڑے کئے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع سطح کی عالمی حمایت ہماری ضرورت ہے۔ پاکستان طویل مدت سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ محدود وسائل کے باوجود پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے نہ صرف سرزمین پاک کو تشدد اور دہشت گردی سے محفوظ بنانے کی کوشش کی بلکہ خطے اور بین الاقوامی امن کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں سابق حکومت میں ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی سفارشات بھی اس پلان کا حصہ ہیں مگر بوجوہ اس منصوبے پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ عمران خان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو پوری طرح بروئے کار لانا ہوگا۔ زراعت کا شعبہ ہمیشہ حکومتوں کی ترجیحات سے خارج رہا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی‘ مشینری اور ترقی یافتہ بیجوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نئی منڈیوں کی تلاش اس شعبے سے وابستہ کروڑوں کاشتکاروں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ عمران خان کے سامنے بہت سے اہداف ہیں‘ وہ اس لحاظ سے منفرد رہنما ہیں کہ ان کی سیاسی اٹھان کسی آمر کی سرپرستی کا نتیجہ نہیں۔ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں‘ عوام نے ہمیشہ ان کی دیانتداری اور اصول پسندی کوسراہا ہے۔ امیدوں کا بوجھ بہت بھاری ہے لیکن کپتان وزیراعظم نے ہر شعبے کے لیے اچھی ٹیم منتخب کرلی تو ملک ترقی و استحکام کی منزل حاصل کرلے گا۔