انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا گھر سے نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کے مصداق بدھ کے روز الیکشن کمشن کے سامنے یہی کیفیت مسلم لیگ(ن) کے کارکنان کی تھی جو ایڑیاں اٹھا اٹھا کر کبھی آسمان کی طرف دیکھتے کہ کب کوئی ہیلی کاپٹر فضا میں نمودار ہو گا یا کوئی گزرتا ہوا طیارہ دیکھتے تو فرطِ مسرت سے پکار اٹھتے ہو نہ ہو یہی جہاز میاں شہباز شریف کا ہے اور وہ تھوڑی ہی دیر میں اپنے مخصوص انداز میں بھاگتے دوڑتے آئیں گے اور فوراً مائیک سنبھال کر نوجوانوں کا لہو گرمانا شروع کر دیں گے۔ مگر سادہ دل کارکنوں کو معلوم نہ تھا کہ میاں صاحب پسِ پردہ کسی غوروفکر اور گفت و شنید میں مصروف تھے۔ مگر میاں صاحب نے ذمہ داری بیچارے موسم پر ڈال دی۔ موسم تو بڑا صاف گو ہوتا ہے وہ کسی کے اندر کے موسم کی ترجمانی و تابعداری نہیں کرتا۔ لاہور میں مطلع بالکل صاف تھا۔ اسلام آباد بھی کہیں کہیں بادلوں کے چند آوارہ ٹکڑے دکھائی تو دیتے تھے مگر پروازیں دونوں ہوائی اڈوں سے اڑ بھی رہی تھیں اور لینڈ بھی کر رہی تھیں۔ انتظار شاعروں کا بہت مرغوب موضوع رہا ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں انتظار کے بارے میں بڑے خوبصورت اور دل کو چھولینے والے اشعار ملتے ہیں۔ عربی زبان میں کہا گیا کہ الانتظاراشد من الموت۔ انتظار کی کیفیت موت سے بھی بڑھ کر شدید ہے۔ ایک اور شعر دیکھیے شاید قمر جلیل کا ہے، یقین نہیں مگر شعر لاجواب ہے۔ اس کے آنے کا انتظار رہا عمر بھی موسم بہار رہا عشق و محبت کی دنیا بڑی صبر طلب ہے مگر سیاست تمنائے بیتاب کا دوسرا نام ہے لہٰذا الیکشن کمشن کے باہر کچھ دیر تو موسم بہار رہا اور پھر خزاں کا راج ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں میں بہت مایوسی پیدا ہو گئی اور کئی بزرگ یہ کہتے سنے گئے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے اگلے روز جمعرات کو میاں شہباز شریف نے اڈیالہ جیل میں میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو بڑے ذومعنی جوابات دیئے۔ کوئی چاہے تو بین السطور بہت کچھ پڑھ سکتا ہے۔ صحافی کے سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کیا جواب دیا یہ سننے سے پہلے ذرا وہ جواب سنیے جو 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کے زمانے میں یونیورسٹی ہال میں ایک عالم دین نے دیا۔ طالب علم نے مولانا سے پوچھا کہ حضور آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے بھٹو سے ایک پلاٹ لیا تھا۔ مولانا ایک لمحے کو رکے اور پھر انہوں نے بڑے پرجوش انداز میں فرمایا نوجوان پوچھتا ہے کہ تم نے بھٹو سے پلاٹ لیا ارے نادان ایک پلاٹ کی بات کرتے ہو ہم غاصب بھٹو سے سارا ملک واپس لینا چاہتے ہیں۔ اس جواب پر تادیر ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ اسی طرح صحافی نے میاں شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کے کوئی مذاکرات چل رہے ہیں جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف جلد باہر آ رہے ہیں اسی لیے آپ کل کے احتجاج میں بھی شریک نہیں ہوئے، کیا یہ درست ہے؟ اس سوال کا میاں شہباز شریف نے ذہانت اور سیاست کو ملا کر بڑا ملفوف جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا دنیا مذاکرات کے بغیر چل سکتی ہے۔ جواب کا اگلا حصہ بھی دلچسپ تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہ کوئی این آر او دے رہا ہے اور نہ کوئی این آر او لے رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہر بار ’’مفاہمت‘‘ کا نام این آر او ہی رکھا جائے گا۔ نام کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک جملۂ معترضہ بھی سن لیجئے۔ جمعرات کے روز کوئی ایک درجن سے زائد مسلم لیگی رہنمائوں اور میاں نواز شریف کے مداحوں نے ان سے صبح 8بجے سے لے کر شام 4بجے تک ملاقاتیں کیں۔ اتنی وسیع تر ملاقاتیں تو میاں صاحب اپنے دورِ حکمرانی میں شاید ہی کرتے ہوں۔ اسی پر کچھ ن لیگی رہنمائوں نے مطالبہ کیا کہ جیل میں ملاقات ہفتہ وار صرف جمعرات کو نہیں دو تین روز ہونی چاہیے۔ مجھے مختلف صوبوں کی جیلوں کے بارے میں وسیع تر معلومات رکھنے والے ایک باخبر دوست نے بتایا سندھ اور خیبرپختونخوا کی جیلوں میں قیدیوں کو خاصی سہولتیں اور رعایتیں دی جاتی ہیں۔ پنجاب میں بھی ایسا ہی تھا مگر خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اکثر رعایتیں واپس لے لیں اور ہفتہ وار ملاقاتوں کے لیے صرف ایک دن مقرر کر دیا۔ دوسری طرف لوگوںکو 13اگست کا بڑی شدت سے انتظار ہے جس روز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں سب سے پہلے ان ارکان اسمبلی سے حلف لیا جائے گا جن کا الیکشن کمشن نے نوٹی فیکیشن کر دیا ہے۔ حلف کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہو گا۔ گزشتہ شام ایک ٹی وی چینل پر ایک لائیو پروگرام کے دوران مسلم لیگ(ن) سے کافی دل بستگی رکھنے والے ایک تجزیہ کار دوست نے کہا کہ خفیہ رائے شماری کے دوران کوئی سرپرائز بھی ہو سکتا ہے اور تحریک انصاف کو اندازے سے کم ووٹ پڑ سکتے ہیں۔ سبب اس کا انہوں نے یہ بتایا کہ پی ٹی آئی کے اندر کی کوئی چپقلش اپنا رنگ دکھا سکتی ہے۔ اس کے جواب میں عرض کیا کہ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے مابین سرد مہری گرم جوشی میں بدل چکی ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ دونوں رہنما ایک ساتھ جہاز میں اڑے پھرتے ہیں کبھی کوئٹہ اور کبھی کراچی اور ہر جگہ وہ دونوں مل کر ہی فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ یوں بھی شاہ محمود قریشی اتنے ذہین و فطین تو ضرور ہیں کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں فوری طور پر جہانگیر ترین سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ تو وزارتوں اور عہدوں کی دوڑ سے ماوراء ہیں پی ٹی آئی سے مخلص ہر شخص اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ہر پاکستانی جہانگیر ترین کی پارٹی کے لیے بے لوث خدمت اور اقتدار پی ٹی آئی اور عمران خان سے سپرد کر کے اپنی کھیتی باڑی کی طرف لوٹ جانے کے اعلان کو تحسین کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے تو وہ بڑی شدت سے 13اگست کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ انتظار انتقالِ اقتدار کا نہیں تبدیلی کی ابتدا کا ہے۔ 13اگست تبدیلی کا روز اوّل ہے، آغازِ نو ہے۔ میں کئی بار شکوہ کر چکا ہوں کہ کئی بڑے بزرگ دانشور اس جذبے کا کما حقہْ اندازہ نہیں لگا سکے جو لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کے بارے میں موجزن ہے۔ تاہم گزشتہ روز مشہور قانودان، سابق وزیر قانون اور ممتاز دانشور جناب ایس ایم ظفر نے میرے شکوے کا جواب شکوہ پیش فرما دیا ہے۔ انہوں نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب تبدیلی ایک نعرہ نہیں ایک منشور بن چکا ہے، کسی نے ووٹ دیا یا نہیں سب تبدیلی کا تقاضا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تبدیلی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ سب کو تبدیل ہونا پڑے گا اور اس کے لیے کام کرنا پڑے گا۔ ایس ایم ظفر نے بجاطور پر حکمرانوں اور سیاست دانوں کو خبردار کیا کہ اب ’’سٹیٹس کو‘‘ ایک گالی بن چکا ہے۔ انتخابات سے پہلے لوگوں نے صرف گریبان پکڑے تھے لیکن اگر اب تبدیلی نہ آئی تو گریبان چاک ہوں گے۔ ہر سال یومِ آزادی کے موقعے پر ایک امید ابھرتی ہے اور وہ جوش اور ولولہ پھر تازہ کیا جاتا ہے کہ جو تحریک پاکستان کی جان تھا۔ ہر سال اگست کے مہینے میں 1947ء کے ان دنوں کو یاد کیا جاتا ہے کہ جن دنوں برصغیر پاک و ہند میں ایک ناقابل یقین تبدیلی آ رہی تھی۔ تحریکِ پاکستان کا ولولہ ہی تو ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ یہ ولولہ ہمارا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ 7اگست 1947ء کو ایک بے مثال کامیابی حاصل کرنے اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان حاصل کرنے کے بعد جب نئی دہلی سے کراچی روانگی کے موقع پر قائد اعظم نے کہا ہمیں ماضی کی رنجشیں دفن کر دینی چاہئیں۔ اب ہمیں دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا آغاز کرنا ہے۔ میں ہندوستان میں امن اور خوش حالی کا متمنی ہوں۔ قیام پاکستان کا اعلان سننے کے لیے ان دنوں لوگوں کا انتظار دیدنی تھا۔ یہ انتظار 14اگست 1947ء کو ہونا تھا۔ 11اگست کو کراچی میں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے لیے مستقل آئین بنانا ہے اور ملک سے رشوت، اقربا پروری اور بلیک مارکیٹنگ جیسی لعنتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ 13اگست 1947ء کو قائد اعظمؒ نے لارڈمائونٹ بیٹن کو مخاطب کر کے کہا کہ اس طرح کی رضا کارانہ انتقال اقتدار کی صورت دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ آج 13اگست 2018ء کو بھی پرامن انتقال اقتدار ہو رہا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب مخالف کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام بڑی شدت سے تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ تبدیلی کا منشور اب تحریک انصاف نہیں عوام کی ملکیت بن چکا ہے۔