معروف اطالوی انٹرویو نگار اوریانا فلاسی سے انٹرویو میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ مستقل مزاجی چھوٹے ذہنوں کی خاصیت ہوتی ہے۔ بڑے ذہن اور اس کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ اوریانا نے بھٹو صاحب پر وہی یوٹرن کا الزام لگایا تھا۔ اب ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم وہی کچھ فرما رہے ہیں جو بھٹو صاحب نے اپنے دفاع میں کہا تھا۔ وزیراعظم کے بقول ہٹلر اور نپولین کی ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ وہ یوٹرن نہ لے سکے۔ اگر وہ ایسا کرلیتے تو ناکامی ان کا مقدر نہ بنتی۔ اصل میں سیاست بدلتی ہوئی حقیقت ہے۔ حقائق کی ایسی دنیا جس میں ہر آن صورت حال تغیر پذیر رہتی ہے۔ ان تغیرات سے اپنی پالیسی کو جوڑے رکھنا سیاستدان کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ بصورت دیگر شکست و ناکامی مقدر بن جاتی ہے۔ برسہا برس پہلے کی بات ہے اس کالم نگار نے یوٹرن کے ماہر حسین حقانی سے عرض کیا تھا کہ گوتم بدھ نے انسانی ذہن کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ ذہن انسانی کی ایک قسم چٹان کی مانند ہوتی ہے جس پر ایک مرتبہ لکیر کھینچ دی جائے تو وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ دوسری قسم ذہن انسانی کی ریت کی مانند ہوتی ہے جس پر کھینچی جانے والی لکیر کچھ دیر تک رہتی ہے پھر ہوا اسے بھی مٹا دیتی ہے۔ تیسری قسم کی مثال اس نے سطح آب سے دی جس پر لہریں ہر آن بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں اور ذہن انسانی کی یہ قسم سب سے اعلیٰ اور بہترین ہوتی ہے۔ حسین حقانی بدھا کے اس قول کو سن کر اچھل پڑے تھے جیسے انہیں اپنی بے وفائیوں اور تیزی سے بدلتی ہوئی وفاداریوں کا معقول جواز مل گیا ہو۔ حالانکہ گوتم بدھ کا مدعا یہ ہرگز نہ تھا۔ مراد غالباً یہ تھی کہ انسانی ذہن اور اس کی سوچ کو ٹھس نہ ہونا چاہیے۔ جو لوگ سوچتے ہیں ان کی فکر میں ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔ حالات و واقعات بھی ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ شاعر مشرق نے بھی اپنے ایک شعر میں آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے کو قوموں کی زندگی میں ایک کٹھن مرحلہ قرار دیا ہے۔ خود شاعر مشرق کی فکر میں اس ارتقا کو دیکھ سکتے ہیں کہ متحدہ قومیت سے چل کر وہ کس طرح امت کے تصور تک پہنچے۔ اردو ادب کے ممتاز نقاد محمد حسن عسکری کہا کرتے تھے کہ دلائل اگر مجھے قائل کرلیں تو میں نہایت بے شرمی سے اپنے خیالات بدل لیتا ہوں۔ یہ بڑی قسمت کی بات ہوتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آدمی موقع پرست اور مفاد پرست ہو جائے۔ نظریات و خیالات کے بدلنے کا تعلق اگر ذاتی مفادات اور موقع پرستی سے نہ ہو تو فکر کی تبدیلی ارتقا کہلاتی ہے بصورت دیگر اسے ایک غیراخلاقی طرز زندگی سے موسوم کیا جائے گا۔ ایک چینل نے اس پر ہمارے وزیراعظم کے ایسے تمام بیانات کو اپنے پروگرام میں یکجا کر کے دکھایا کہ جس میں انہوں نے ایک موقع پر ایک بات کہی اور دوسرے موقع پر برعکس بات کہہ دی۔ یونانی فلاسفر کہا کرتے تھے کہ تم ایک دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ جس پانی میں تم نے پہلی مرتبہ قدم رکھا وہ بہہ کر آگے کہیں چلا گیا۔ اب جو قدم دوسری بار رکھا جائے گا وہ نئے پانی کا ہوگا۔ انسانی زندگی اور اس کے معاملات و مواقع بھی ایسے ہی ہیں جب اور جس موقع پر ایک بات کہی گئی، وہ حالات بدل گئے تو اس پر پرانی بات کا اطلاق و انطباق نہیں ہوسکتا۔ اب جو بات کہی جائے گی وہ نئے حالات اور نئی صورت حال کے مطابق ہوگی۔ لہٰذا یوٹرن کا الزام علما اور دانشور پر ماضی میں بھی لگتا رہا ہے اور آئندہ بھی لگتا رہے گا۔ بات فقط اتنی سی ہے کہ حقیقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ مختلف مذاہب کی شریعتیں بھی اسی لیے مختلف احکامات، ہدایات سے عبارت رہی ہیں۔ کیونکہ انسان بھی بدلتا جاتا ہے۔ ایک نسل جن عادات و اطوار کی عادی ہوتی ہے، اگلی نسل ویسی نہیں ہوتی۔ اس کا مزاج اور عادتیں پچھلی نسل سے الگ ہوتی ہیں اسی سے کمیونی کیشن گیپ پیدا ہوتا ہے۔ سارا قصہ اور ساری بحث تبدیلی کے حوالے سے ہے کہ تبدیلی کیا ہے۔ کیوں ہے اور اس کی طرف ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ کائنات اور زندگی کوئی جامد حقیقت نہیں ہے۔ یہ بدلتی رہتی ہے اور اس کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا رہتا ہے۔ کل تک یہ دنیا اور دنیا کے لوگ جیسے تھے آج ویسے نہیں ہیں۔ نہ دنیا اور نہ دنیا کے لوگ۔ دین میں اجتہاد جسے شاعر مشرق نے دین کا اصول حرکت قرار دیا ہے، اسی لیے ہے کہ نئی دنیا، نئی ضروریات، نئے حالات سے دین کو ہم آہنگ رکھنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اجتہاد سے دین نیا ہوتا ہے اور مجتہد کا کام یہی ہے کہ دین کو جھاڑ پونچھ کر نیا کر دکھائے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جنہوں نے دنیا کو ترقی و تبدیلی سے ہمکنار کیا، اس کے دریافت کردہ قوانین و نظریات میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ نیوٹن کے تصورات آئن سٹائن تک آتے آتے کتنے بدل گئے۔ ایک سائنس دان قوانین فطرت کو دریافت کرتا ہے، بعد کا سائنس دان اس میں اضافہ کرتا ہے یا اسے کلیتاً غلط ثابت کردیتا ہے۔ اس ساری بحث سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تبدیلی ہر چیز میں آ رہی ہے اور جس کو مستقل حیثیت حاصل ہے وہ یہی تبدیلی ہے ع ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں رہا معاملہ ہمارے کپتان وزیراعظم کا تو، سیاست ہو یا ان کی اپنی زندگی اور اس کے معاملات، وہ کسی بھی نئی چیز یا نئے تجربے کو آزمانے سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ گھبراتے ہیں۔ کل تک وہ ایک یہودی گھرانے کے داماد تھے تو آج ایک باشرع باپردہ اہلیہ کے شوہر ہیں اور نہایت اعتماد سے ہیں۔ اتنی ہمت ہمارے کسی اور سیاستدان میں ہے؟ وہ رجوع کرنے اور پیچھے ہٹنے سے بھی ہراساں نہیں ہوتے۔ وہ اپنی کسی غلطی یا لغزش کو ماننے اور اس پر شرمندہ ہونے اور توبہ کرنے میں بھی خود کو چھوٹا محسوس نہیں کرتے۔ وہ اپنی غلطیوں سے رجوع کرنے اور اس سے سیکھنے میں بھی نہ جھجکتے ہیں اور نہ شرماتے ہیں۔ یہ وصف کیا ہمارے کسی اور سیاستدان یا حکمران میں ہے؟ اگر ہمارے کپتان وزیراعظم ہٹلر اور نپولین کی زندگی اور ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے کچھ سیکھتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ ہمارے قائداعظم نے بھی جب دادا بھائی نورو جی کی صحبت سے آداب سیاست سیکھنا شروع کیے تو ان کا بڑا وقت لائبریری میں جا کر بادشاہوں، حکمرانوں اور دنیا کے عظیم لیڈروں کی سوانح ہائے حیات کے مطالعے میں گزرتا رہا تھا۔ ہمارے لیڈروں میں بدقسمتی سے مطالعے اور اپنے علم میں اضافے کی خواہش بھی مشکل ہی سے پائی جاتی ہے۔ اس لیے کپتان وزیراعظم نے جو کچھ کہا ہے اس پر انہیں اور ہمیں بھی مطمئن رہنا چاہیے۔