پاکستان جیسے معاشرے میںبڑے لوگوں ۔۔۔ خاص طور پر سیاستدانوں کی بیگمات کی ذاتی زندگی عموماً بلکہ ہمیشہ ایک مسلسل امتحان میں رہتی ہے۔ شوہر اگر سربراہ مملکت کے عہدۂ جلیلہ پر پہنچ جائے تو آرام و آسائش کی وقتی خوشی تو مل جاتی ہے مگر اس سے زیادہ اُن کی فکر مندی اپنے شوہر سے منسوب اسکینڈلز اور اقتدار کے ڈانواڈول ہونے پر رہتی ہے۔ اور پھر اگر نوبت جیل ،جلاوطنی بلکہ شہادت تک پہنچ جائے تو اس کیلئے ایک دوسری عام عورت کی طرح ممکن نہیں ہوتا کہ وہ آسانی سے دوسرا گھر بسا لے۔ ذاتی زندگی کے حوالے سے بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بیگم کی زندگی سراپا اسرار رہی۔اب جو اُن پر مستند کتابیں آنی شروع ہوئی ہیں تو اس المناک تاریخ کا باب کھلا ہے کہ کس طرح مسٹر جناح کی ان کی بیگم رتنا جناح سے علیحدگی ہوئی ۔اور پھر جواں عمری میں ہی وہ دنیا سے رخصت ہوئیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اپنے صاحبزادگان کی پرورش کیلئے بڑے مصائب و آلام سے گزرنا پڑا۔ مگر حکومت میں موجودنوابزادہ لیاقت علی خان کے چند رفقاء کی ذاتی کوششوں سے انہیںغیر ملکی سفیر بنا کر بھیج دیا گیا جس سے اُن کے بچوں کا مستقبل سنور گیا۔ خود انہوں نے بھی ایک آسودہ حال باوقار خاتون کی حیثیت سے طویل عمر پائی۔ حسین شہید سہروردی، چوہدری محمد علی، محمد علی بوگرہ،آئی آئی چندریگر،خان عبد الغفار خان،میر غوث بخش بزنجو،جی ایم سید۔۔۔ ایک طویل فہرست ہے کہ جن کی بیگمات کے نام سے پاکستانی قوم آشنا نہیں۔ہاں، آخری وزیر اعظم فیروز خان نون کی بیگم وقارالنساء کی شہرت چہا ر جہاں میں برسہابرس رہی کہ ایک تو وہ غیر ملکی تھیں، پھر ان کی تربیت اور اٹھان ایسی تھی کہ جب تک زندہ رہیں خبروں میں ہی رہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی بیگم ناہید مرزا کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ صدر اسکندر مرزا کا سارا سیاسی کیریئر ہی ناہید مرزا کے مرہون منت تھا۔ ایرانی نژاد ناہید مرزاکو بہر حال یہ کریڈٹ جائے گا کہ اقتدار سے محرومی کے بعد لندن میں جلا وطنی کے کڑے دنوں میںسابق صدر اسکندر مرزاکا بڑی استقامت سے ساتھ دیا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان دس سال تک پاکستا ن کے مضبوط ترین حکمراں رہے۔ مگر ان کی خاتون اول کا نام تک کبھی نہیں سنا گیا۔عموماً اُن کی صاحبزادی نسیم اورنگزیب ملکی و غیر ملکی دوروں میں اُن کے ساتھ ہوتیں۔صدر یحییٰ خان بدقسمت پاکستان کے وہ فوجی آمر مطلق تھے جو پانچ دہائی بعد بھی بدنام ِ زمانہ بیگمات کے حوالے سے یاد کئے جاتے ہیں۔ مگر خود اُن کی بیگم کا کبھی نام بھی سننے میں نہیں آیا۔ مگر ہاں۔۔۔ ستّر کی دہائی کے بعد ہمارے حکمراں طبقے کی خواتین اپنے شوہروں کے شانہ بہ شانہ نظر آتی ہیں۔ اور اُن میں سب سے نمایاں نام پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکی بیگم نصرت بھٹوکا آتا ہے۔ اقتدار کے دنوں میں تو وہ گریس فُل خاتون کی حیثیت سے اپنا ایک علیحدہ مقام رکھتی ہی تھیں مگر بھٹو صاحب کے اقتدار سے محروم ہونے اور پھر پھانسی چڑھ جانے کے بعد تو بلا شبہ انہوں نے جدوجہد اور قربانیوں کی ایک پوری تاریخ رقم کردی۔ نصرت بھٹو ایک ایرانی نژاد خاتون تھیں۔ مکمل مغرب زدہ بھٹو صاحب جیسے کھلندڑے، رنگین مزاج ،سحر انگیز شخص کی بیوی ہونابذات خود بڑا صبر آزما امتحان تھا جس پر وہ پوری اتریں۔ مگر شہید کی بیوہ کی حیثیت سے چار بچوں کی پرورش اور پھر ایک سخت گیر ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ تھانہ، جیل ،کچہری، حتیٰ کہ پولیس کی لاٹھیوںسے لہولہان بھی ہوئیں۔ اپنی بیٹی شہید بے نظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ ٔ جلیلہ پر بٹھانا اُ ن کا ایک مشن تھا۔دو بیٹوں کی ناگہانی موت کا غم لئے وہ جس طرح رخصت ہوئیں اُس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا معاملہ دوسراہے۔ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئیں۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد محض 24سال کی عمر میں وہ بین ا لاقوامی شہرت کی حامل تھیں۔اسلامی دنیا کی پہلی سربراہ مملکت کا اعزاز انہیں ایک نہیں دو بار حاصل ہوا۔ طویل جدوجہد اورقربانیوں کے بعد ان کی شہادت کسی یونانی ڈرامے کے المیے سے کم نہیں۔ یہاں میں ا نکی خانگی زندگی کی تفصیل میں نہیں جاؤ ں گا کہ مجھے بیگم کلثو م نواز کی رحلت کا ’’نوحہ‘‘ لکھنا ہے کہ اُس نیک نڈر خاتون کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ شریف خاندان کی ’’بہو‘‘ کی حیثیت سے یقینا اُن کی زندگی کا آغاز ایک پر آسائش آرام دہ زندگی سے ہوا۔ 1985میں میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے اور پھر 1991میںانہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ دوسری بار بھی محترم میاں صاحب وزیر اعظم بنے مگر کلثوم نواز نے خود کو صرف روایتی سرکاری تقریبات اور غیر ملکی دوروں میں خاتون ِ اول کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہ رکھا۔ اکتوبر 1999میںجب میاں نواز شریف پر پہلی بار ابتلاء کا دور آیا اور اُن کی جیل یاترا شروع ہوئی تو ساری ن لیگی قیادت پناہ گاہوں کی تلاش میں تھی۔ یہ بیگم کلثوم نواز ہی تھیں جنہوں نے پارٹی کا پرچم لے کر سڑکوں ،چوراہوں پر مشرف کی فوجی آمریت کو ببانگ ِ دہل للکارا۔اور پھر یہی وہ دور تھا جب ان کی صاحبزادی مریم نوازنے سیاست کا پہلا سبق اپنی والدہ کی عوامی جدوجہد سے سیکھنا شروع کیا۔میاں صاحب کی طویل جلا وطنی کے دور میں بظاہر وہ پس منظر میں رہیں۔ مگر میاں صاحب کی سیاسی مصروفیت کے دوران انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ’’گھریلو‘‘ ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2013میں محترم میاں نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کا تیسری بار منصب سنبھالنے کے بعد کم از کم مجھے دوبار وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ غیر ملکی سفر کرنے کا موقع ملا۔آذربائیجان اور سعودی عرب کے ان دوروں میں جو بہتّر،بہتّر گھنٹوں کا ساتھ رہا ۔اُس میں مجھے وہ ایک خاموش طبع، ’’متاثرکن‘‘ خاتون نظر آئیں۔سال بھر سے اوپر انہوں نے میاں صاحب کے کڑے دور میں جس طرح کینسر جیسی بیماری کا مقابلہ کیا ۔۔۔ اُس سے بلاشبہ انہوں نے پاکستان کی بہادر خواتین کی صف ِاوّل میں مقام حاصل کرلیا ہے۔