بابا ذہین شاہ تاجی ایک بہت زیرک مزاج رکھنے والے صوفی دانشور تھے جو کراچی کی علمی اور روحانی زندگی کی جان تھے۔ طریقت میں وہ بابا تاج الدین ناگوری کے سلسلے سے منسوب گنے جاتے ہیں۔ بابا تاج الدین ناگوری ہند کے قرن آخر کی ایک بے مثل قلندر شخصیت تھی۔ بابا ذہین تاجی کے دربار میں اس عہد کے بڑے بڑے فلسفی، ادیب و دانشور اور صوفی حاضر رہتے تھے۔ اتنا لمبا تعارف میں نے ان کی صرف ایک بات بتانے کے لیے کیا ہے۔ ورنہ ان کی اصل شان وحدت الوجود بالخصوص شیخ اکبر ابن عربی کی بے مثل شرح بیان کرنا ہے اگرچہ یہ خاکسار اس شرح و تشریح کا معتقد نہیں ہے تاہم اس سے ان کی عظمت کم نہیں ہوتی۔ خاکسار تو اس معاملے میں یہ سمجھتا ہے کہ بیسویں صدی میں وحدت الوجود میں دو بڑے شارحین کی تقلید درست ہے۔ ایک پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور دوسرے اہل دیوبند میں مولانا اشرف علی تھانوی۔ ہاں جو بات سنانے کے لیے میں نے یہ مضمون باندھا ہے وہ صرف اتنی سی ہے کہ بابا کہا کرتے تھے کہ اگر راہ حق کی خاطر آپ کو جھولی بھی پھیلانا پڑے تو اس سے عار محسوس نہ کرنا چاہیے۔ یعنی اس میں تمہارا کبر و تکبر درمیان میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات مجھے اس لیے سوجھی ہے کہ ایک تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ نے یوٹرن کی تشریح کی ہے اور ساتھ ہی پاکستان کی خاطر قرض مانگنے متحدہ عرب امارات چلے گئے ہیں۔ وہ وہاں ولی عہد شہزادہ محمد بن زیدالنہیان کی دعوت پر گئے ہیں۔ یہ صرف امارات کے ولی عہد نہیں بلکہ اس خطے کی سیاست سمجھنے والے باخبر افراد کہتے ہیں کہ شہزادہ اس خطے میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے مرکزی اور معتبر نمائندے ہیں۔ کبھی یہ اعزاز ان کے شہنشاہ کے پاس تھا۔ پھر سعودی عرب میں رہا، آج کل بنیادی طور پر امریکہ اور اس کے ساتھی اصل اہمیت اس عرب شہزادے کو دیتے ہیں۔ بہت اچھا ہے کہ یہاں سے پاکستان بامراد لوٹے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ہمارے سپہ سالار، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ تیل و پٹرولیم کے وزیر کے علاوہ وزیر تجارت بھی ہیں۔ یہ وزیر تجارت یونس دائود کی اہمیت بھی صرف یہ نہیں کہ وہ ہمارے وزیر تجارت ہیں، بلکہ وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ اس لحاظ سے یہ اہم دورہ ہے۔ میں نے یہاں یوٹرن کی بات اس لیے کی ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اب ہماری سیاست کے بازار میں پھر شور اٹھے گا کہ کشکول اٹھانے سے بہتر خودکشی کرنے کا عندیہ دینے والا ایک اور یوٹرن لے رہا ہے۔ ویسے یہ یوٹرن کا بیان بھی عجیب نہیں ہے کہ ہٹلر اور نپولین نے اس لیے شکست کھائی کہ انہوں نے یوٹرن نہیں لیا۔ غالباً جسے یہ یوٹرن کہہ رہے ہیں، اس سے ان کی مراد پسپائی اختیار نہ کرنا ہے۔ جنگ کے میدان میں ایک پسپائی حکمت عملی بھی ہوتی ہے جسے بعض اوقات ٹیکنیکل ریٹریٹ یعنی حکمت عملی کے تحت پسپائی کہتے ہیں۔ ویسے پسپائی تو دونوں نے اختیار کی مگر شکست کھا کر۔ اس پسپائی اور اس پسپائی میں بڑا فرق ہے۔ کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ تاریخ ان جرنیلوں سے بھی واقف ہے جنہوں نے پسپائی یا یوٹرن کے تمام راستے بند کرکے آغاز جنگ کیا۔ وہ طارق بن زیاد تو یاد ہوگا جس نے اندلس کے ساحل پر قدم رکھتے ہی اپنی کشتیاں جلا دی تھیں کہ واپسی کا خیال ہی دل میں نہ رہے۔ پسپائی کے ہر امکان کو مسترد کردیا تھا اور ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست کا نعرہ لگایا تھا۔ اپنے سپاہیوں کو بھی سمجھا دیا تھا کہ اب آگے ہی بڑھنا ہے، واپسی کا ہر امکان میں نے شعلوں کی نذر کردیا ہے اور پھر اپنی قوت ارادی اور تائیہ ایزدی سے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی تھی۔ یہاں مجھے تاریخ کا ایک اور اہم کردار یاد آ رہا ہے۔ تاریخ انسانی کے عظیم حکمران حضر عمرؓ بن خطاب نے اپنے ایک عظیم ہم عصر موسیٰ ؓ اشعری کے نام ایک خط لکھا جو اب تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ یہ خط تو اگرچہ آداب قضا کے بارے میں ہے تاہم میرا دل اس کے ایک فقرے پر اٹک کر رہ گیا جو فکر انسانی کا ایک اعلیٰ ترین اصول بیان کرتا ہے، ذرا غور فرمائیے، فرمایا ’’کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا، آج اس سے بہتر فیصلہ تمہاری عقل نے تمہیں سجھا دیا تو اپنے پہلے فیصلے کو رد کرسکتے ہو۔ اس لیے کہ حق ازلی ہے۔ اس کی طرف رجوع کرنا غلطی پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔‘‘ سبحان اللہ کیا، عمدہ بیانیہ ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرسکتا ہے۔ اس میں ایک اصول یہ بیان ہوا ہے کہ حق ازلی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے۔ سچائی تک پہنچنے کے لیے آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تہ یہ الگ بات ہے مگر آپ اگر غلطیوں پر غلطیاں کرتے جائیں اور ان کی اصلاح کے لیے دوبار غلطی ہی کریں تو یہ الگ بات ہے۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات فیصلے بدلنے کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ناحق سے حق کی طرف جا رہے ہوں، آپ حق سے حق کی طرف بھی رجوع کرسکتے ہیں۔ یعنی نہ آپ پہلے غلط تھے نہ اب غلط ہیں، صرف حکمت و تدبر کا تقاضا ہے کہ آپ دوسرا فیصلہ اختیا رکرلیں وگرنہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلہ تبدیل کرنے والا کہتا ہے کہ آج عمر ہلاک ہو جاتا، اگر اسے یہ نئی بات نہ بتا دی جاتی۔ فیصلہ بدلنا یا فیصلے پر قائم رہنا دونوں بڑے پن کی نشانیاں ہیں مگر اس کے کچھ اصول ہیں جو نہیں بدلا کرتے۔ آج ذہن اس طرف چل نکلا ہے تو ایک اور بات یاد آئی۔ برصغیر میں اختلافات کی نشانیاں شاہ ولی اللہ کے زمانے کے فوراً بعد پیدا ہو گئی تھیں۔ اس وقت مسلمانوں کا سیاسی اقتدار بھی بکھر چکا تھا۔ شاہ والی اللہ حجاز تشریف لے گئے تو بعض نئے خیالات لے کر واپس آئے مگر وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے بہت احتیاط سے نئے نکات کو سمجھا۔ اس کے باوجود جب ان کا انتقال ہوا اور ان کے عظیم المرتبت صاحبزادے شاہ عبدالعزیز کی دستار بندی ہونے لگی تو اس کام کے لیے دلی کے جس دوسرے جلیل القدر خانوادے کے سربراہ کو منتخب کیا گیا، انہیں تاریخ فخر عالم فخرالدین دہلوی کے نام سے جانتی ہیں۔ ان کی عظمت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیجئے کہ آج پنجاب میں سلسلہ چشتیہ کی نشاۃ تو ان کے فیض کا اثر ہے۔ ان کے جلیل القدر خلیقہ خواجہ نور محمد مہاروی نے یہاں چشتیوں کا فیض عام کیا۔ ان سے تونسہ شریف پھر تونسہ شریف سے سیال شریف اور پھر ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں کا فیض کس طرح گولڑہ، بھیرہ، جلال پور تک پہنچا۔ فخر عالم نے شاہ عبدالعزیز کی دستار بندی کرتے ہوئے ان کے کان میں چپکے سے کہا، میاں، صاحبزادے، تمہارا باپ احناف میں ذرا بدنام ہو گیا ہے، اس لیے ذرا احتیاط کرنا۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے احتیاط کا حق ادا کیا جب تک وہ اس مسند پر رہے یا ان کے بعد ان کے نواسے شاہ اسحاق اس خانوادے کے سربراہ رہے۔ ہندی مسلمان تب تک یک جاویک جان رہے۔ جمہور میں اسلام کی مبادیات پر کوئی اختلاف نہ تھا۔ اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب ان کے بیٹے شاہ اسماعیلؒ نے تقویت الایمان لکھی۔ ان دنوں معمولی معمولی اختلاف تھے، آمین بلند آواز سے کہنا یا دل میں کہنا وغیرہ وغیرہ۔ شاہ اسماعیل جمہور کی رائے کے خلاف اس کے حق میں فتوے دیتے رہتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے پیغام بھیجا، اسے سمجھائو، اس سے فساد خلق کا اندیشہ ہے، اس لیے احتیاط برتے۔ بھتیجے نے جو جواب دیا، اس پر شاہ عبدالعزیز کا تبصرہ تاریخ میں رقم ہے اور ایک ازلی و ابدی اصول کو بیان کرتا ہے۔ کہنے لگے، میں نے تو سمجھا تھا شاہ اسماعیل پڑھ لکھ کر مولوی ہوگیا ہے مگر یہ تو نراغبی کاغبی رہا۔ غالباً شاہ اسماعیل نے کہا تھا کہ احیائے سنت کے لیے اگر فساد خلق کا خطرہ بھی مول لینا پڑے تو اس سے کترانا نہیں چاہیے۔ اس پر شاہ عبدالعزیز نے فرمایا، میاں، یہ حکم وہاں ہے جہاں سنت کے مقابلے میں غیر سنت ہو یہاں تو سنت کے مقابلے میں بھی سنت ہے۔ یعنی آمین جہری بھی سنت ہے اور آمین خفی بھی سنت ہے۔ آپ کوئی سی اختیار کرلو۔ میں حسب معمول دور نکل رہا ہوں۔ یہ واقعہ اس لیے بیان کیا ہے حضرت عمرؓ کے اس قول سے جہاں یہ کہا ملتا ہے کہ حق ازلی ہے، اس طرح بعض اوقات یہ حق سے حق کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ یعنی آپ کا پہلا موقف بھی حق ہوتا ہے۔ مدلل ہوتا ہے اور دوسرا موقف ازلی ہوتا ہے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے غیر حق ہوں، اب آپ پر حق منکشف ہو گیا ہے، یعنی آپ پہلے غلطی پر تھے، اب آپ نے اپنی اصلاح کرلی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنی غلطی کو تسلیم کریں، اعلان کریں عمرؓ ہلاک ہو جاتا اگر اس کو فلاں بات نہ بتا دی جاتی۔ بڑے پن کی یہی نشانی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ غلطیوں پر غلطیاں کرتے جائیں۔ جب ان کی اصلاح کریں تو ایک اور غلطی کر بیٹھیں۔ یا یہ کہ پندرہ دن میں ایک افسر کے چھ تبادلے کردیں اور اسے اس یوٹرن سے تشبیہہ دیں جو ہٹلر اور نپولین نے نہیں لیے تھے۔ آپ کو حق اور ناحق کا فرق بھی معلوم نہ ہو۔ مصلحت یا دل کی خواہش کے تحت خود کو بدلتے رہیں۔ اس سے تو صرف اس بات کا اندازہ ہو گا کہ آپ میں قوت فیصلہ بھی نہیں ہے اور آپ کو غلط یا درست کا پتا نہیں ہے ۔استقامت سے ڈتے رہنا سیکھنا ہے تو اس کی کئی مثالیں ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فیصلہ کرلیا کہ منکرین زکوٰۃ اور رسالت کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہے تو پھر انہیں کوئی نہ روک سکا۔ انہوں نے لشکر کی روانگی اس لیے نہ روکی کہ حضورؐ کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کا پختہ ایمان تھا کہ جو فیصلہ نبی کریمؐ نے کیا تھا، اس میں برکت ہے۔ اپنے فیصلوں کی اصلاح کرنا یا اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اور بات ہے مگر ایک تذبذب کا شکار رہنا دوسری بات ہے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ فیصلہ بدلنے میں نیت کیا ہے اور مصلحت کیا ہے۔ کیا یہ مصلحت ہے کہ بیوروکریسی اور پولیس کو وزیروں کے حکم ماننا پڑیں گے۔ دو ڈپٹی کمشنروں سے لے کر ہمارے پولیس افسروں کے تبادلے اسی قسم کی مصلحت کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ ازلی حق یہ ہے کہ حکومت کے اہلکاروں کے معاملات میں سیاسی مداخلت نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی آپ نے بیان فرمایا تھا، یہ خیر بکھرے ہوئے خیالات ہیں اگر آپ اس پر سوچنا چاہیں تو اس میں بہت کچھ ہے۔