آج وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے بعد ملک میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ مرکز اور چاروں صوبوں میں پرانی اور نئی جماعتیں حکومتیں سنبھال کر کابینہ اور پالیسی سازی کا عمل کل سے شروع کر یں گی۔عید قربان کی وجہ سے یہ عمل کچھ سست روی کا شکار ہو گا لیکن جاری ضرور رہے گا۔اس بار اگر کوئی جماعت کسی بھی صوبے یا مرکز میں حکومت حاصل نہیں کر پائی وہ مسلم لیگ (ن) ہے۔اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے جمعہ کے روز وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر قومی اسمبلی میں غیر معمولی طویل ہنگامہ آرائی کی لیکن وہ عمران خان کو پاکستان کا وزیر اعظم بننے سے نہ روک سکے۔ کھسیانی بلی کھمبہ نوچے کے مصداق مسلم لیگی طبلچی اس احتجاج کو بہت بڑی کامیابی قرار دیتے رہے لیکن ایک بات کا ادراک نہ کر سکے کہ عمران خان اگلے پانچ سال کے لئے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔جو واقعی ایک بہت بڑی فتح ہے عمران خان کی ذاتی حیثیت میںبلکہ اس ملک اور قوم کی بھی کہ پہلی دفعہ تاریخ میں پاکستان کا وزیر اعظم کوئی روایتی سیاستدان ، جاگیردار، سرمایہ دار یا ڈکٹیٹروں کا پروردہ نہیں بلکہ 22سالہ سیاسی جدوجہد کر کے ایک ایسا شخص بنا ہے جس کی اپنی ساری زندگی کھلاڑی سے لیکر سیاستدان تک جہد مسلسل ہے۔پاکستان کی کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس نے اقتدار میں آنے کے لئے 22سال کا سفر طے کیا ہو۔پیپلز پارٹی دوسری سیاسی جماعت ہے جو تشکیل پانے کے بعد سیاسی جدوجہد کے نتیجے اور پاکستان کے دو لخت ہونے کے سانحہ کی بدولت اقتدار میں آئی لیکن وہ بھی اپنی تشکیل کے دو چار سال بعد۔یہاں بہت سی سیاسی جماعتیں بنیں اور ٹوٹیں لیکن اتنی طویل اور صبر آزما کوشش کسی جماعت نے نہیں کی بھلے وہ تحریک استقلال ہی کیوں نہ ہو۔مسلم لیگوں کی بات کریں تو راتوں رات کوئی فیکشن بنتا تھا اور اگلی صبح سورج کے ساتھ ہی انکا اقتدار طلوع ہو جاتا تھا اور کسی شام اچانک غروب ہو جاتا تھا۔مسلم لیگ ہر ڈکٹیٹر کے عقد میں آئی اور پھر مطلقہ ٹھہری۔مسلم لیگ (ن)کے علاوہ اسکے اب تک بننے والے فیکشن بے یارومددگار ہو کر ختم ہو گئے یا پھر کسی دوسری جماعت کا حصہ بن گئی ۔ مسلم لیگ (ن) وہ واحد فیکشن رہا جوجنرل مشرف کے مار شل لاء میں سکڑ ضرور گیالیکن جیسے ہی میاں نواز شریف واپس آئے ایک بار پھر یہ جماعت اکٹھی ہو گئی اور2002ء کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) 2008 ء کے انتخابات میں سکڑی اور 2013 ء کے انتخابات میں تقریباً نا پید ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) میں واپس نہ جانے والا چوہدری خاندان ڈٹا رہا اور اکیلے رہ جانے کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا جو انکی سیاسی بصیرت کا ثبوت تھا ۔انہوں نے نا صرف کچھ قومی اور صوبائی نشستیں جیتیں بلکہ عمران خان نے خود چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی۔ اس مرحلے پر بظاہر یہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کرنے کی طرف ایک قدم ہے لیکن آگے چل کر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں۔ کچھ اشارے تو چوہدری پرویز الٰہی کے سپیکر کے طور پر توقع سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے سے مل ہی چکے ہیں لیکن یہ معاملہ صرف ووٹ کی حد تک رکنے والا نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) کے منتخب ارکان گزشتہ کئی دہائیوں سے چوہدری خاندان کے ساتھ مل کر سیاست کرتے چلے آئے ہیں اور سبھی چوہدری صاحبان کی وضعداری کے معترف بھی ہیں۔اسکے بر عکس شریف خاندان کا اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ برتائو حکمرانوں والا رہا ہے اور وہ ہمیشہ سے انکے روییـ سے شاکی رہے ہیں۔ سیاست کی مجبوری سمجھ لیںکہ انہیں کسی اور جگہ انتخابی سیاست کے لئے گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے شریف خاندان کا مرہون منت رہنا پڑا۔دوسری وجہ شریفوں کا منتقم مزاج ہونا ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ حتیٰ کہ چوہدری خاندان جس کا خود بھی پنجاب کے تگڑے سیاسی خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ‘کے خلاف بھی 1998ء میںانتقامی قدم اٹھانے سے باز نہیں آئے جب وہ مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھے اور چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی تھے۔یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو کسی کی وجہ سے نہیںبلکہ اپنی آزادانہ رائے کے تحت موقع ملا ہے کہ وہ کسی اور سیاسی جماعت کا حصہ بنیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو سدھار گئے کچھ نے آزاد انتخاب لڑنا مناسب سمجھا۔بہت سے لوگ اس خوف سے ہمت نہیں کر پائے کہ کہیں شریف خاندان دوبارہ مرکز یا صوبے میں اقتدار میں نہ آ جائے۔اب جبکہ یہ خطرہ ٹل چکا ہے تو مسلم لیگ (ن) کو لا محالہ توڑ پھوڑ کا شکار ہونے سے روکنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔اس صورتحال میں شریف خاندان کے اندر کی دراڑیں واضح ہوتی چلی جارہی ہیں جو جلتی پہ تیل کا کام کرے گی۔مسلم لیگ (ق) سے (ن) کا سفر کرنے والوں کے لئے واپس (ق) کا سفر شاید بہت مشکل نہ ہو۔کل تک یہ شاید اتنا آسان دکھائی نہ دیتا ہو کیونکہ ابھی تک مسلم لیگ(ن) کے کاسہء لیس یہ افواہیں پھیلا رہے تھے کہ پنجاب میں کایہ پلٹ سکتی ہے اور شہباز شریف یا انکا بیٹاجوڑ توڑ کر کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں ۔لیکن اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شریف خاندان کے اگلے پانچ سال حکومت میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس لئے (ن) سے (ق) میں جانے کا عمل تیزی اختیار کر سکتا ہے۔ اگر کسی کایہ خیا ل ہے کہ آئین میں فلور کراسنگ کی رکاوٹ ہے‘ اگر کوئی ایسا عمل کرے گا تو وہ اپنی نشست سے محروم ہو جائے گا تو انکو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 2008ء میں مسلم لیگ (ق) کے ارکان نے فارورڈ بلاک بنا کر (ن) کی حکومت بنوائی تھی لیکن کیا ہوا۔پھر عائشہ گلالئی تو حالیہ مثال ہے۔کیا الیکشن کمیشن نے اسے پارٹی پالیسی کے خلاف جانے پر نااہل قرار دیا۔ حوصلہ رکھیں اور (ن) سے (ق)کے سفر کا لطف لیں۔