Common frontend top

ملکی مستقبل روشن، کافی حد تک معاشی استحکام آگیا :گورنرسٹیٹ بنک

منگل 18 جون 2019ء





کراچی،اسلام آباد (کامرس رپورٹر،خصوصی نیوز رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے ملک کا معاشی مستقبل روشن ہے ، ملک میں کافی حد تک معاشی استحکام آیا ہے ، پاکستان کے اقتصادی مستقبل سے مطمئن ہیں، بیرونی اورمالیاتی خسارے میں بہت حد تک کمی آنا شروع ہوگئی، ہمارا سب سے بڑا مخالف بے یقینی ہے ، ہمیں عوام کو اعتماد دینا ہوگا،ملک میں غیریقینی صورتحال ختم کرکے دم لیں گے ،تمام معاشی فیصلوں میں پاکستان کے مفاد کو اولیت حاصل ہے ، مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ سسٹم میں مرکزی بینک کسی ریٹ کی پیشگوئی نہیں کرسکتا،اس وقت روپے کی قدر مارکیٹ بیسڈ سسٹم اور طلب و رسد کی بنیاد پر طے ہو رہی ہے جس پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں، اگر ضرورت سے زیادہ عدم استحکام یا خصوصی دباؤ آیا تو سٹیٹ بنک مداخلت کرے گا۔ اپنی پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ماضی میں حکومتیں سٹیٹ بینک سے قرضہ لیتی رہی ہیں تاہم اس مالی سال حکومت سٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے گی،ماضی میں ایکسچینج ریٹ کے نظام میں حکومت کی مداخلت رہی ہے ، ہماری معیشت کو بیرونی ادائیگیوں اور مالی خسارے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے ۔روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی ادائیگیوں کا زور کم ہونا شروع ہوا، مارکیٹ ویلیو کے برابر ایکسچینج ریٹ ایکسپورٹس کو بڑھانے میں مددگار ہوگا۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا فری فلوٹ ایکسچینج ریٹ ہماری پالیسی نہیں بلکہ مارکیٹ بیسڈ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی ہے ، ہماری مارکیٹ پر گہری نظر ہے ، مارکیٹ پر منحصر ایکسچینج ریٹ میں کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے ، ترسیلات زر بڑھنے سے ایکسچینج ریٹ میں کمی آتی ہے جبکہ ڈالر کی سپلائی بڑھتی ہے تو روپیہ مضبوط ہوتا ہے ۔ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دی ہیں، آئی ایم ایف کے پروگرام میں آنے سے غیر ملکی اداروں کا بھی معیشت پر اعتماد بڑھتا ہے ، دنیا اورفنانشل مارکیٹ کو پیغام جاتا ہے اور اصلاحات کے پروگرام کو سپورٹ ملتی ہے ، آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ 3 جولائی کو ہوگی، آئی ایم ایف کے ساتھ پیشرفت میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھا جائے گا، امید ہے اسی روزآئی ایم ایف بورڈ قرضے کی منظوری دے دے گا،بورڈ میٹنگ ہوتے ہی پروگرام کی تفصیلات عام ہوجائیں گی، اپنے ملک کے لیے آئی ایم ایف کا تجربہ بروئے کار لانا میرے لیے فخر کی بات ہے ، مالیاتی استحکام کے لیے آئی ایم ایف پروگرام مددگار ثابت ہوگا،حکومت کو آئی ایم ایف سے سستا قرضہ ملے گا،آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے دیا، اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں،آئی ایم ایف کی ساکھ کے بارے میں آئی ایم ایف سے سوال کیاجائے ۔انہوں نے کہاپاکستان کی معاشی ٹیم معاشی پلان پر عملدرآمد اورمعاشی استحکام کیلئے جدوجہد کررہی ہے ، استحکام کی وجہ سے مڈل کلاس اور غریب طبقہ کا فائدہ ہوگا،پاکستان میں معاشی عدم استحکام کی دو اہم وجوہات ہیں، تجارتی خسارہ اور مالیاتی خسارہ، یہ دونوں مسائل اب کنٹرول ہورہے ہیں ،جاری کھاتے کا خسارہ صفر کرنا مقصد نہیں تاہم تجارتی خسارے میں کمی آرہی ہے ،روپے کی قدر کم ہونے سے تجارتی خسارہ کم ہوا،غیرملکی قرضوں کی وجہ سے سماجی شعبہ پر خرچ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی، بجٹ میں مالیاتی خسارہ کو کنٹرول کیا جائے گا۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ملک کو کس طرح آگے لے جانا ہے یہ بات زیادہ اہم ہے ،معیشت کی بہتری میں میڈیا کا کردار اہمیت کا حامل ہے ،شرح مبادلہ معاشی اصلاحات کے پروگرام کا حصہ ہے ،ماضی میں مرکزی بینک پر قرضوں کے انحصار سے افراط زر اور روپے کی قدر پر اثر پڑا،فری فلوٹ کی پالیسی اختیار نہیں کی، سٹیٹ بینک مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ پر چل رہا ہے ،ہم مارکیٹ میں بگاڑ پیدا نہیں ہونے دیں گے ،سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا بخوبی اندازہ ہے ،سٹہ بازی کی صورتحال میں سٹیٹ بینک مداخلت کریگا، روپے کی قدر کم ہونے سے مقامی صنعتوں کو فائدہ ہوگا،ایکسچینج ریٹ کی پالیسی سے برآمدات بڑھیں گی اور درآمدات میں کمی آئے گی، مارکیٹ بیسڈ ایکس چینج ریٹ سے جاری کھاتے کا خسارہ صفر نہیں ہوگا۔گورنرسٹیٹ بنک نے کہامارکیٹ بیسڈ ایکس چینج ریٹ کی پالیسی پاکستان کے لیے استحکام کا ذریعہ بنے گی ، عید سے قبل بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقوم میں اضافہ ہوا،ڈالر کی سپلائی بڑھ گئی ،جون کے مہینے میں کمپنیوں کو کھاتے بند کرنے ہوتے ہیں،کمپنیوں پر ادائیگی کا دباؤہوتا ہے ،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات میں اضافہ سے روپیہ کی قدر مستحکم ہوگی۔انہوں نے شرح سود کی صورتحال پر کہا مالیاتی استحکام کا مطلب ایکسچینج ریٹ میں کمی نہیں ہوسکتا، مانیٹری پالیسی کمیٹی افراط زر سے مقابلہ کرتی ہے ،مانیٹری پالیسی کمیٹی افراط زر کی آئندہ صورتحال کو مدنظر رکھتی ہے ،مستقبل کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے افراط زر کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے ،افراط زر بڑھنے کی صورت میں شرح سود بڑھانے کے سوا مرکزی بینک کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ، درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کرکے درآمدات کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے سمگلنگ بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے ،سمگلنگ سے حکومت کو محصولات میں کمی آتی ہے ۔انہوں نے ایک سوال پر کہا باہر سے آنے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے زمینی حقائق سے لاعلم ہوں،سٹیٹ بینک کی ٹیم تو باہر سے نہیں آئی ،میں کئی مرتبہ پاکستان آتا رہا ہوں،متعدد ممالک کی پالیسیوں کے بارے میں اپنا تجربہ پاکستان کی بہتری کے لیے بروئے کار لانا چاہتا ہوں،مصر اور پاکستان میں ایکسچینج ریٹ کا فرق ہے ،پاکستان کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں بہت کم فرق ہے ،مصر کے زرمبادلہ ذخائر کافی حد تک مستحکم ہوچکے ہیں،میں فلپائن میں تھا تو وہاں کرنسی کی قدر بڑھ رہی تھی۔ 

 

 



آپ کیلئے تجویز کردہ خبریں










اہم خبریں