کل (20 جمادی اُلثانی / 26 فروری کو )پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے بنتِ رسولؐ ، زوجۂ مولا علی ؑ ، حسنین کریمین علیہ السلام اور سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ، مخدومۂ کونین ، سیّد اُلنساء اُلعالمِین ، خاتونِ جنت ، زاہدہ، طیبہ، طاہرہ ، بتول ؔ ، سیّدہ فاطمۃ اُلزہرا سلام اللہ علیہا کی عید ِمیلاد منائی گئی۔ ایک حدیث رسولؐ کے مطابق ’’ پیغمبر انقلابؐ ‘‘نے سیّدہ فاطمۃ اُلزہرا سلام اللہ علیہا سے خطاب کرتے ہُوئے فرمایا کہ ’’ بیشک اللہ تعالیٰ تیری ناراضگی پر ناراض اور تیری رضا پر راضی ہوتے ہیں ‘‘۔ اُم اُلمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہُوئے فرمایا کہ ’’ مَیں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے سِوا کائنات میں فاطمہ سلام اللہ علیہا سے بہتر کوئی اِنسان نہیں دیکھا‘‘۔ سیّدۃ اُلنساء فاطمتہ اُلزہرا سلام اللہ علیہا سے متعلق اپنی فارسی منقبت میں علاّمہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ ’’ آپ امام اُلاوّلِین و آخرین جنابِ رسول پاکؐ کی صاحبزادی، مُشکل کُشا اور شیرِ خُدا سیّدنا حضرت علی ؑ کی زوجہ محترمہ ، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کے محافظ ، سیّدنا حسن ؑاور دُنیا بھر کے نیکوں کے آقا اور احرار کے لئے قوتِ بازو ، سیّدنا حسین ؑکی والدہ ٔ محترمہ ہیں ۔ معزز قارئین!۔ ’’نائب رسولؐ فی الہند‘‘ خواجہ غریب نوازحضرت معین اُلدّین چشتی ؒحسنی اور حسینی سیّد تھے ۔ جن کے دستِ مبارک پر میرے آبائو اجداد نے اسلام قبول کِیا۔ تبلیغ اسلام کے لئے ، نواسہ ٔ رسول ؐ ، سیّد اُلشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی بادشاہت ؔ کا تعارف کراتے ہُوئے کہا تھا کہ … شاہ ہست حُسین ؑ، پادشاہ ہست حُسین ؑ ! دِیں ہست حُسین ؑ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؑ! سَرداد ، نَداد دست ، در دستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسین ؑ! معزز قارئین!۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا تو ،اردو زبان میں پہلی نعت لکھی اور اُس کے بعد کئی نعتیںاور منقبتیں ۔ ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی تو، مَیں نے پھر ایک نعت لکھی جس کے چار شعر یوںہیں… یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا! اَرض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا! …O… مخلُوقِ کائنات ہو ،یا خالقِ عظِیم! مَدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپؐ کا! …O… حقّ کی عطا سے ، صاحب ِ لَوح و قلم ہیں آپؐ! قرآنِ پاک بھی ہُوا، شَہہ کار آپؐ کا! …O… مولا علی ؑ و زَہراس، حسنؑ اور حسینؑ سے! عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا! محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں اُن کی فرمائش پر جب’’آغا حامد علی شاہ موسوی نے وزیراعظم ہائوس جانے سے انکار کِیا اور مجھے یہ پتہ چلا کہ ’’آغا جی حکومتِ ایران سے امداد نہیں لیتے اور اُن کا مسلک یہ ہے کہ دینی جماعتوں کو ’’مروجہ سیاست ‘‘ میں حصّہ نہیں لینا چاہیے‘‘ ۔ تو میری خواہش پر سرگودھوی صحافی برادرِ سیّد رضا کاظمی نے میری آغا جی سے ملاقات کروا دِی۔ گذشتہ 20 سال سے میری آغا جی سے صرِف تین ملاقاتیں ہُوئی ہیں ۔ اِس لئے کہ ، میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) رانا فضل محمد چوہان نے ہدایت کی تھی کہ’’ درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے‘‘۔ آغا جی سے میری آخری ملاقات 21 جنوری 2016ء کو ہُوئی۔ میرے ساتھ میرا داماد معظم ریاض چودھری بھی تھا۔ قبل ازیںتحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری اطلاعات سیّد قمر حیدر زیدی اور سیّد رضا کاظمی ، دانشور ، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر آغا جی کا یہ پیغام بھی لے کر میرے گھر تشریف لائے کہ ’’ مَیں ،سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ کا پیش لفظ لِکھ دوں‘‘۔ ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ (جنت کے چراغ) ’’ جنّت اُلبقیع ‘‘ ۔ مَیں نے کتاب کا پیش لفظ لِکھ دِیا ۔اُس کے آخر میں سیّد عباس کاظمی نے لکھا کہ ’’ صحافی ، دانشور اور شاعر اثر چوہان صاحب اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ، موصوف آئمہ اطہار کا بہت احترام کرتے ہیں ‘‘۔ مَیں نے 1983ء میں مولا علی ؑ کی منقبت لکھی جس کا مطلع اور دو بند ملاحظہ فرمائیں !… نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑمولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یَزداں دا! سارے نعریاں توں وڈّا ، نعرہ تیرے ناں دا! تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی ؔمولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… واہ نہج اُلبلاغہ دِیاں لوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! دسمبر 2011ء میں ، محرم اُلحرام کے آغاز میں ، میرے دو لہوری دوست سیّد یوسف جعفری اور اور سیّد شاہد رشید میرے ’’ڈیرے ‘‘ پر تھے ۔ جعفری صاحب نے کہا کہ ’’اثر چوہان بھائی ! ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سانحہ کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے چند عقیدت مند ’’ ہندو برہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے؟۔ مَیں نے کہا ’’جی ہاں!‘‘ لیکن ، مجھے بہت دُکھ ہے کہ ہندوستان کا کوئی راجپوت ؔ۔امامِ عالی مقام ؑکے ساتھ کیوں شہید نہیں ہُوا؟۔ معزیز قارئین!۔ پھر مَیں نے پنجابی زبان میںاپنی حسرت کا اظہار کرتے ہُوئے امامِ عالی مقام ؑ کی خدمت میں عرض کِیا کہ … تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا ! پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا! فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… جے مِل جاندا، تیرا وسِیلہ! بخشیا جاندا ، میرا قبِیلہ! جنّت وِچّ ، مِل جاندا ، گھروندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… ماتم کِیتا ، بی بی سکِینہ ؑ ! اتھرّوُ وگائے ، شاہِ مدِینہؐ! پاکے ، سِر تے سُواہ، مَیں روندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوند! …O… کوہندے ، اثرؔ نُوں ، یزِید دے چیلے! اپنے لہو نال ، مَردے ویلے! مولاؑ ، تیرے ، پَیر میں دھوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! مَیں نے یکم اکتوبر 2017ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں ، اپنے کالم میں متذکرہ چار بند شامل کئے تو، آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی صاحب نے میرا یہ کالم پڑھا ، اُسی شام سیّد عباس کاظمی نے مجھے فون پر بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب !۔ قبلہ آغا حامد علی شاہ صاحب کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے پیغام ہے کہ ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’حسینی راجپوت‘‘ کہا جائے!‘‘۔ مَیں نے سوچا کہ علامہ محمد اقبالؒ کے آبائو اجداد ’’ ہندو براہمن ‘‘ تھے اور قائداعظمؒ کے بزرگ ’’ کشتری ‘‘ (راجپوت) لیکن، پنجتن ؑپاک اور حسینیت ؑسے اُن دونوں لیڈروں کی لا فانی اور لاثانی محبت کے باعث اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم و فضل سے اُنہیں ’’مصور پاکستان ‘‘ اور ’’بانی ٔ پاکستان ‘‘ کا مرتبہ عطاء فرمایا ۔ معزز قارئین!۔مَیں نے رسالت مآبؐ ، مولا علی ؑ ، بی بی زینب سلام اللہ علیہا، امام زین اُلعابدین ؑ ،اپنے جدّی پشتی پیرو مُرشد ، خواجہ غریب نوازحضرت معین اُلدّین چشتی ؒ ، بابا فرید اُلدّین شکر گنج ؒکی شان میں اردو اور پنجابی میں منقبتیں اور علاّمہ اقبالؒ ، قائداعظم ؒ اور اپنے والدِ محترم کی شان میں نظمیں لکھیں۔ کل 26 فروری کو مَیں نے مخدومۂ کونین سلام اللہ علیہا کی خدمت میں منقبت پیش کی جس کے صِرف تین شعر پیش خدمت ہیں… کِھل اُٹھیں تا ، گُلشنِ ہستی میں ،رنگا رنگ پھول! مومنو! مِل کر منائو ، عید میلادِ بتول ؑ ! …O… زوجۂ مولا علی ؑ ، مخدومۂ کونین ؑہیں! تا قیامت ، زندہ و پائندہ ،فرمانِ رسولؐ ! …O… مادرِ حسنین ؑ و زینب ؑ، مرحبا ، صد آفریں! آپ کے مِدحت سرا ہیں ، ارضِ جنّت کے عُقُول ؑ!