جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہونگے ان شا اللہ العزیز وہ شخص وزیر اعظم بن چکا ہوگا جسے سیاست نہیں آتی تھی۔ ابھی وہ وزیر اعظم نہیں بنا تھا ، صرف انتخابات میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی تھی ،تب سے دنیا کے ہر اہم ملک کا سفیر اس سے ملاقات کر چکا اور دنیا بھر کے سربراہوں نے اسے مبارک باد کے فون کئے۔ بعض کا دل ایک بار نہیں بھرا تو دوسری بار بھی فون کیا۔ سعودی عرب نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی حکومت کو دو ارب ڈالر قرضہ دینے کا اعلان کیا جو ابھی بنی ہی نہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے بھی ساڑھے چار ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ یہ ایک ایسے شخص پہ اعتماد کا اظہار ہے جو اپنی دیانت اور امانت داری کے لئے معروف ہے ۔عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے ہی دنیا بھر سے مبارکبادیں اور دورے کی دعوتیں وصول اور قبول کرچکے۔یہ دنیا بھر میں ان کے مثبت امیج کا ثبوت ہے جسے نواز شریف اور ان کے حواریوں نے اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بے تحاشا مجروح کرنے کی کوشش کی۔ اس کی بڑی وجہ وہ 124 دن کا وہ دھرنا تھا جو نواز حکومت کی انتخابات میں منظم دھاندلی کے خلاف دیا گیا اور دنیا بھر میں یہ تاثر دیا گیا کہ اس دھرنے نے ملکی معیشت جو حیرت انگیز رفتار سے ترقی کررہی تھی، کی ٹانگ کھینچ لی ہے۔ معیشت کا پہیہ اس تیزی سے گھوم رہا تھا کہ عام انسانی نظر اس پہ ٹہرنے کی تاب نہ لا سکتی تھی اس لئے وہ نظر ہی نہیں آتا تھا، تو ا س پہیے میں اڑچن بھی اسی دھرنے نے لگا رکھی تھی۔اس دھرنے کی وجہ سے چینی صدر نے اپنا دورہ پاکستان ملتوی کردیا تھا۔ اس دورے کی نواز شریف اور ان کے بھائی کو اتنی جلدی تھی اور اس عجلت کی وجہ کچھ اور تھی کہ دونوں بھائی تو نہ آیا تو ہم چلے آئے کے مصداق خود چین پہنچ گئے۔ نواز شریف تو خیر وزیر اعظم تھے، شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی کی حیثیت سے چین کیوں گئے تھے اس کا جواب ان پہ اب تک ادھار ہے۔ عمران خان نے اس پہ شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم کے ہمراہ جاسکتے ہیں تو خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی پرویز خٹک کو بھی ساتھ جانا چاہئے کیونکہ خیبر پختونخواہ میں ہائیڈرو پاور منصوبوں کے امکانات زیادہ ہیں۔ بلوچستان سے تو سی پیک گزر رہا ہے۔سندھ تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں اور باقی تین وزرائے اعلی وزیر اعظم کے بھائی بھی نہیں ہیں۔اس پانچ روزہ دورے پہ جو وزیراعظم کے ابتدائی تیس ماہ کے دوران پچھتر غیر ملکی دوروں میں سے ایک تھا انہوں نے روانگی سے قبل عوام کو خوشخبری سنائی کہ بس ان کی چین یاترا کی دیر ہے، ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی ،دس لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔تجارت کا حجم بڑھ جائے گا قصہ مختصر ملک میں چینی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔یہی وہ 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تشکیل پانے والا سی پیک تھا جس کا اعلان نواز حکومت بننے سے ایک ماہ قبل ہی ہوچکا تھا لیکن جس کا کریڈٹ شہباز شریف لیتے نہیں تھکتے اور عمران خان کو یہ طعنہ دیتے باز نہیں آتے کہ منصوبہ ان کے دھرنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔ بار بار حکومت میںآنے کے باوجود یہ خاندان عالمی سیاست اور معاشی منصوبوں سے واقعی اتنا ہی ناآشنا ہے یا عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے،اس کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔حد تو یہ ہے کہ نواز خاندان کے اس دورے کے بعد جب چین کے صدر شی پنگ چن نے پاکستان کا دورہ کیا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بعد نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے قائدین سے معزز مہمان کا تعارف کروایا۔ جب صدر شی پنگ عمران خان کے قریب پہنچے تو رک گئے اور انہیں بغور دیکھنے لگے۔چینی قیافہ شناسی میں بہت اعتقاد رکھتے ہیں بلکہ اس فن کا آغاز ہی چین سے ہوا۔چینی صدر غالبا عمران خان کی ضدی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے جو ممکن ہے انہیں چو این لائی کی آنکھوں جیسی نظر آئی ہوں ، یا اس کی وجہ عمران خان کی بلندقامتی بھی ہوسکتی ہے جو باوقار ایستادگی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔اس وقت بھی عمران خان سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھے جو آج کل پوری تحریک انصاف میں ایک یونیفارم کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔جو بھی وجہ تھی نواز شریف کو صدر شی پنگ کی یہ دلچسپی ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے جلدی سے کہا۔ یہ ہیں وہ صاحب جن کے دھرنے کی وجہ سے آپ کا دورہ تاخیر کا شکار ہوا۔ اس پہ عمران خان اپنی روایتی صاف گوئی سے بولے:دھرنا ختم ہوئے چار ماہ ہوگئے، اگر ان کا دورہ میری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا تو انہوں نے دورے میں چار ماہ کیوں لگا دیئے۔یاد رہے دھرنا دسمبر2014 ء میں ای پی ایس کے اندوہناک سانحے کے بعد ختم کرنا پڑا تھا جبکہ چینی صدر نے اپریل2015ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور نومبر 2014ء میں ، دھرنے کے دوران نواز شریف چین کا دورہ کرچکے تھے۔چینی صدر کو اس دوٹوک اور بروقت جواب سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ نواز شریف کس مشکل سے گزر ررہے ہیں ۔ان پہ نواز شریف کی اس اوچھی حرکت کا کوئی اچھا اثر بھی نہ پڑا ہوگاجس کا نہ موقع تھا نہ محل۔پاکستان کے دیرینہ دوست چین کا صدر سرکاری دورے پہ تھا اور اس وقت پارلیمان میں معزز اراکین سے انتہائی رسمی ملاقات کررہا تھا۔سی پیک کا اعلان ہوچکا تھا اور یہ وقت اتحاد و یکجہتی اور وسعت قلبی کا متقاضی تھا۔ وہ لیکن نواز شریف تھے جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دل میں رکھا کینہ کہیں نہ کہیں نکال کر رہتے ہیں۔ انہیں یہی مناسب موقع معلوم ہوا ہوگا۔جس دن وہ اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت پیشی کے لئے آرہے تھے، یہی عمران خان قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں متوقع وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا رہا تھا۔ بے شک دنوںا ور دلوں کو پلٹنے والے کو جو شے سب سے زیادہ ناگوار ہے وہ تکبر ہے۔ عمران خان نے تو اپنے پہلے خطاب میں ہی ان تمام لوگوں کو معاف کرنے کا اعلان کردیا تھا جنہوں نے اس پہ کیچڑ اچھالا اور اس کی تذلیل کی کوشش کی۔ ان کا بطور متوقع وزیراعظم خطاب ایک ایسے شخص کا خطاب تھا جسے اپنی ذات کی پروا نہ ہو، جو آگے بڑھنے اور معاف کرنے پہ یقین رکھتا ہو اور جسے خوب اندازہ ہو کہ اسے بطور وزیر اعظم اتنے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے کہ یہ باتیں بہت چھوٹی ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین نہیں پورے ملک کے ذمہ دار سربراہ کا خطاب تھا ان کا بھی جو کئی کئی بار وزیراعظم بن کر بھی ظرف و مروت سے کوسوں دور رہے۔اسی عمران خان پہ ترک صدر کی آمد کے موقع پہ غیر ذمہ دارانہ رویے کے مظاہرے کا الزام ہے جب تحریک انصاف نے ترک صدر طیب اردوان کے پاکستان دورے کے موقع پہ پارلیمنٹ سے ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ وجہ بالکل سادہ سی تھی۔ عمران خان کا موقف تھا کہ پاناما لیکس میں ملوث نواز شریف متنازع وزیر اعظم ہیں اور ان کی زیر صدارت کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی جائے گی۔ یہی وہ موقع تھا جب دنیا بھر میں پاناما لیکس میں ملوث سربراہان یا تو استعفیٰ دے رہے تھے یا ان سے استعفی لیا جارہا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں میں اتنی اخلاقی جرات نہ تھی کہ وہ استعفیٰ دے کر آزاد کمیشن کے سامنے اپنی پوزیشن ہی صاف کرلیتے۔ ایسے میں تحریک انصاف کے پاس یہی ایک راستہ تھا کہ دنیا بھر سے پاکستان کا دورہ کرنے والے سربراہان مملکت کو اجلاس میں شرکت نہ کرکے احساس دلایا جائے کہ پاکستان کی اپوزیشن جو عملی طور پہ صرف تحریک انصاف تھی، کرپشن کے خلاف واضح موقف رکھتی ہے۔اس احتجاج کے بعد عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تحریک انصاف کے وفد کے ساتھ طیب اردوان سے معمول کی ملاقات کی۔ اس بائیکاٹ کا ترکی نے بالکل برا نہیں منایا ۔ اس کا موقف تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ہم دوستوں کے اندرونی معاملات پہ بات نہیں کرتے البتہ نواز لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ سیاست سمجھ داروں کا کا م ہے جو عمران خان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ آج کوئی بتائے گا کہ طارق فضل چوہدری کہاں ہیں، رانا ثنا اللہ جو عمران خان کی معزز اہلیہ کے متعلق انتہائی گری ہوئی گفتگو کرتے تھے آج کس گوشے میں ہیں۔ جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا سیل نے عمران خان کے کردار پہ کونسی کیچڑ نہیں اچھالی۔ وہی جماعت اسلامی اپنا واحد ووٹ کلیجے سے لگائے شوری میں بیٹھی اپنے سروائیول کی فکر میںہے۔ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے والے فضل الرحمن کہیں دکھائی نہیں دیتے اور وزیر اعظم عمران خان ساری دنیا سے مبارکبادیں وصول کررہے ہیں۔