اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میںموت کو آٹھ سال سے اوپر ہورہے ہیں۔سینکڑوں سے زیادہ کتابیں ،اور ہزاروں دستاویزات اس پر مرتب کی جاچکی ہیں۔کہ عالمی سیاسی تاریخ میں کسی ایک ’’فرد‘‘ نے اتنی بڑی مضبوط ،منظم دہشت گرد تنظیم تشکیل نہیں دی ہو گی جس نے دنیا کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی ہو۔جرمنی کے مرد ِ آہن فاشسٹ ایڈولف ہٹلر اور اٹلی کے ڈکٹیٹر بینیتو مسولینی کی مثال کسی اور تناظر میں لی جائے گی کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے مقبول لیڈر بھی تھے،جنہیں ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا جنون تھا۔مگر اُسامہ بن لادن تو عالمی تاریخ میں ’’ایک‘‘ ہی تھا۔اور شاید مستقبل کی تاریخ میں بھی ایک ایسے فرد ِ واحد کی حیثیت سے محفوظ کرلیاگیا ہے جس نے سُپر پاور امریکہ کو ہی نہیں ،ساری دنیا کو ایک وقت میں اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔قصے کہانیوں میں سنتے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو ڈرانے کے لئے ’’جنوں اور دیوؤں‘‘ کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔سپر پاور امریکہ اور سارے مغرب پر ایک ایسا وقت آیا کہ ’’اسامہ ‘‘جنوں اور دیوؤں جیسا افسانوی کردار ہی بن گیا تھا۔ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کیلئے امریکہ بہادرنے کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر سے ایک پوری انٹیلی جنس کی فوج تیار کی تاکہ اُسے زندہ یا مردہ پکڑا جاسکے۔مگر پوری دو دہائی تک ۔ ۔ ۔ سپر پاور اپنی تمام افرادی ،عسکری ،مالی امداد سے اُس کا کھوج لگانے میں ناکام رہی ۔بعد میں جس طرح اسامہ بن لادن کی پکڑائی ہوئی اس کیلئے تو’’ کھودا پہاڑ ‘‘ کا محاورہ صادق آتا ہے۔یعنی صرف ایک پاکستانی انٹیلی جنس کا ریٹائرڈ افسر ٹہلتا ہوا اسلام آباد کے سی آئی اے کے اسٹیشن آفس میں داخل ہوتاہے۔اُس کا سارا ’’اتہ پتہ‘ ‘اُن کے حوالے کرتا ہے ۔پھر ایک پاکستانی ڈاکٹر ہی بذریعہ ڈی این اے اسامہ بن لادن کے تابوت میں کیل ٹھونکتا ہے۔جو بنیادبنتا ہے اُس آپریشن کی جو صرف دو یا تین ہیلی کاپٹروں سے دو درجن کمانڈوز سے بغیر کسی نقصان کے آدھے گھنٹے میں ختم بھی ہوجاتاہے۔ عام تاثر بلکہ پاکستان سمیت سپر پاور امریکہ کو یہ تھا کہ جب اسامہ بن لادن کی موت کی خبر بریک ہوگی تو اس کا ساری دنیا میں ردِ عمل کیا ہوگا۔خاص طور پر پاکستان کے حکمرانوں کیلئے تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا کہ وہ پہلے ہی افغان وار کے نتیجے میں مسلسل حالت ِ جنگ میں تھے۔مگر اس پر جتنی بھی حیرت کی جائے ،کم ہے کہ 5مئی 2011کی صبح پھوٹنے کے ساتھ یہ خبر جب ساری دنیا سے نشر ہونا شروع ہوئی تو یہ ایک ایسا بڑا ’’شاک‘‘ تھی کہ جس سے نکلنے میں ہی گھنٹوں نہیں ،ہفتوں لگ گئے۔ کم از کم پاکستان کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد کے سویلین ،ملٹری حکمرانوں کو یہ خوف تھا کہ اسامہ بن لادن کے پاکستانی سرزمین پر ہلاکت سے ملک میں دینی و مذہبی جماعتوں کے حامی اتنے شدید رد عمل کا مظاہرہ کریں گے کہ اُس سے پاکستانی ریاست کی ،میرے منہ میںخاک، اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ گزشتہ کالم میں سیمور ہرش کی کتاب The Killing of Usama bin Ladenمیں سے انتہائی تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ دنیا کو مطلوب سب سے بڑے دہشت گرد اسامہ بن لادن کی سپر پاور امریکہ کو ایک دہائی بعد سنسنی خیز خبر اُس وقت ملی جب تقریبا ً سپر پاور امریکہ ،اسامہ بن لادن کو زندہ یا مردہ پکڑنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکاتھا۔اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر کے بعد میں کام بھی وہ ملک آیا جسے وہ افغان وار میں جھونک کر خود راہ فرار اختیار کرگیا۔یقینا اگر آج پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو انٹیلی جنس کی ساری دنیا کی درجہ بندیوں میں نمبر ایک یا دو کا درجہ حاصل ہے تو یہ مقام اُس نے ایک کٹھن تربیت،کمٹمنٹ اور جد وجہد سے حاصل کیاہے۔پاکستان اور ہندوستان کے انٹیلیجنس سربراہوں کی مرتب کتاب The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace آئی ہے ۔اُس میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تمام تر کوشش اور پر کشش پیشکشوں کے باوجود ، ہم ایک بھی ISIکے افسر کو خریدنے میں ناکام رہے۔آئی ایس آئی نے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے ۔۔۔اور جس سے اُس وقت اور آج بھی حکمت ِ عملی کے طور پر وہ انکار ی بھی ہے۔چار سال تک اپنی محفوظ پناہ گاہ میں رکھا جو بذات خود ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔مگرحال ہی میں جو سی آئی اے نے اپنی دستاویز شائع کی ہیں،اُس میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کئے جارہے ہیںکہ اپنے آخری دوبرسوں میں اسامہ بن لادن ’’القاعدہ ‘‘ کیلئے ایک Liabilityیعنی بوجھ بن چکا تھا۔دستاویز میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ عملاً القاعدہ کی باگ ڈور اُس کے نائب مصری دہشت گرد ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ہاتھ میں آگئی تھی۔اسامہ بن لادن جیسا دیو مالائی ،دیو ہیکل Larger than lifeاور جسے بعد میں ریلیز ہونے والی ویڈیوز میںجس حال میں پکڑا گیا اور دکھایاگیااسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ کوئی مجہول بوڑھا شخص ہے جو اپنے حواس ہی میں نہیں۔خاص طور پر وہ فلم جس میں اسامہ خود ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا اپنی نوجوانی کے زمانے کی فلم دیکھ رہا ہوتا ہے جس میں اُس کے ہاتھ میں AK47بندوق ہوتی ہے۔اسی بنیا د پر امریکی دستاویزات انکشاف کرتی ہیںکہ القاعدہ کی قیادت نے خود اسامہ بن لادن کو پکڑنے کا ’’سہرا‘‘ پاکستانی انٹیلی جنس کو دیا۔بات صرف اتنی صاف اور سادہ نہیں کہ آئی ایس آئی کا ایک افسر اسلام آباد میں سی آئی اے کے ہیڈ کوراٹر پہنچتا ہے ۔اور پھر ایک ڈاکٹر DNAٹیسٹ لے کر اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی راہ ہموار کردیتا ہے۔اگست 2010سے مئی 2011کا جو کم و بیش نو ماہ کا دورانیہ کم نہیں۔سو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد چھاؤنی میں ہو اور اسے آئی ایس آئی کی چھتر چھایہ حاصل نہ ہو۔بجا طور پر وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن میںجب یہ بیان دیا تو اُن کا واضح طور پر یہ مقصد تھا کہ افغان وار کے دوران ہم نے جو جانی اور مالی قربانیاں دیں وہ تو اپنی جگہ ۔امریکہ کو مطلوب سب سے بڑے دہشت گرد کی ہلاکت میںسہولت کاری بھی پاکستان کا امریکہ پر بہت بڑا احسان ہے۔کہ جو 9/11کی صورت میں سپر پاور پر سب سے بڑا حملہ کرنے کا متحرک بنا۔ (جاری ہے)