وزیراعظم عمران خان نے الیکشن مہم اور اس سے پہلے جو خواب دیکھے اور شہریوں کو دکھائے انہوں نے ملک کے طول وعرض میں امیدوں کے چراغ روشن کردیئے۔ قانون کی بالادستی، شہریوں کے حقوق کا احترام، تعلیم، صحت اور صاف پانی کی سہولتوں کی فراہمی جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے کر انسانی وسائل کو ترقی دینے کے عزم نے نوجوانوں کو بالخصوص متاثر کیا اور سرگرم بھی۔ یہ وہ ماڈل ہے جس کا تکرار کے ساتھ ذکر کیا جاتارہا۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کے لیے امکانات کا ایک نیا جہاں ہویداہواہے۔ ان کا تعلق روایتی سیاسی گھرانے سے نہیں۔ حکمرانی کی کوئی روایت لے کر وہ پیدا نہیں ہوئے۔ ان کا خاندان کبھی اشرافیہ کا حصہ نہیں رہا ۔مغربی تعلیم و تربیت نے انہیں سرکاری خزانے کو جزرسی سے خرچ کرنے اور سادگی کے ساتھ امور مملکت چلانے پر مائل کیا ۔جس کا اظہار حلف برداری کی تقریب سے خوب ہوا ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ان کے نظریات لگے بندھے نہیں۔ان کا تعلق دائیں یا بائیں بازور کی روایتی نظریاتی تقسیم کے ساتھ بھی نہیں، لہٰذا انہیں امور مملکت چلانے میں کئی ایک آسانیاں بھی ہیں۔ عمران خان اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے سے مذہب کی طرف راغب ہیں لیکن ضیا ء الحق کی طرح ان کا جھکاؤکسی خاص مکتب فکر یا فرقہ کی جانب نہیںبلکہ ان کی اہلیہ محترمہ کا رجحان اسلام کے صوفیائی سلسلے کی طرف زیادہ نظر آتاہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام مذہبی مکتب فکر ہی نہیں بلکہ اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ سلوک روا رکھیں گے۔معاشرے کے محروم طبقات کو معاشی اور سماجی طور پر بااختیار بنانے کی کوششوں میں اضافہ کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی مقبولیت کے حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ عوامی پذیرائی ایک بلبلے کی مانند ہوتی ہے۔ ذرا سی غلطی سے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔عوامی پذیرائی کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں اور پوری حکمران ٹیم کو دن رات محنت کرنا ہوگی۔ملک جن مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہے وہ غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔ ان سے نبردآزماہونا سہل نہیں۔داخلی محاذ پر کامیابی اور خارجہ تعلقات میں بھی گہرا تعلق ہے ۔پاکستان کے بہت سارے مسائل کا تعلق پڑوسی ممالک کے ساتھ پائے جانے والے تناؤاور عالمی طاقتوں کی پاکستان کے بارے میں غیر منصفانہ پالیسیوں سے ہے۔ عالمی طاقتیں اور کئی ایک سیاسی اور سماجی رہنما چاہتے ہیں کہ عمران خان خارجہ پالیسی کے محاذ پر نئی را ہیں تلاش کریں۔ماضی کو فراموش کرکے مستقبل میں جھانکیں ۔بظاہر یہ خواہش صائب ہے لیکن نئے راستوں کی تلاش میں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا۔امریکہ وزیرخارجہ مائیک پومپیواگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد آرہے ہیں۔واشنگٹن چاہتاہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکہ کے براہ راست مذاکرات کی بساط بچھانے میں معاونت فراہم کرے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرانے میں مدد کی درخواست کی ہے۔ غالباًاسی پس منظر میں سعودی بادشاہ اور ولی عہد نے وزیراعظم عمران خان کو بار بار ٹیلی فو ن کیے اور پاکستان کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ بھارتی میڈیا میںبھی بحث چل رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ کس طرح کے روابط استوار کیے جائیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔کشمیر ہی دونوں ممالک میں وجہ تنازعہ نہیں بلکہ افغانستان میں بھی بھارت کی موجودگی اور بلوچستان میں مداخلت نے قومی سلامتی کے پاکستانی اداروں کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ بھارت کے ساتھ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنا ہر پاکستانی کی خواہش ہے حتیٰ کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے بغلگیر ہو کر امن کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا لیکن یہ عمل تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت اور بتدریج ہونا چاہیے۔ پرویزمشرف اور میاں محمد نوازشریف کے دور حکومت میں جو تجربات کیے گئے انہیں مدنظر رکھا جائے تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو۔خاص کر کشمیر ایک بہت ہی نازک اورجذباتی مسئلہ ہے۔ جانی اور مالی قربانیاں دینے اور مسلسل مزاحمت کرنے والے مفاہمت کی ہر کوشش کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مکالمے کی ہر کوشش کو کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی سے تعبیر کرکے ماحول کو ناخوشگوار بنادیتے ہیں۔ کئی ایک تجزیہ کار اور سیاستدان تحریک انصاف کو شہ دے رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر ابھی سے سوار ی کرنا شروع کردے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ابتدائی دنوں میں ہی تناؤپیداکرنے کے بجائے مفاہمت اور باہمی مشاورت کے ساتھ قومی امور سرانجام دیئے جائیں۔ اسٹیبشلمنٹ کا کردار کم کرنا مقصود ہے تو بہتر کارکردگی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اسٹیبلشمنٹ خودبخود پس منظر میں چلی جائے گی ۔ سویلین حکومت کی بالادستی کے قیام کا خواب محنت اور کارکردگی کی کوکھ سے جنم لے گا ‘محاذ آرائی سے نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک مضبوط تنظیم اور جمہوری پارٹی نہیں بن سکی۔یہ بھان متی کا ایک کنبہ ہے۔پی ٹی آئی کے حامیوں کی بڑی تعداد کی امیدوں کا مرکز اور محور محض عمران خان کی ذات ہے نہ کہ کوئی سیاسی نظریہ۔ جذباتی، مباحث میں الجھ جانے والوں کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ و ہ وزیراعظم خان کو نجات دہندہ اور طلسماتی شخصیت تصور کرتے ہیں ۔مخالفین کو نکٹھو اور ’’چور ‘‘ قراردیتے نہیں تھکتے۔ وزیراعظم عمران خان کو پارٹی کارکنوں اور لیڈروں کی تربیت بھی کرنا ہوگی ۔انہیں دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ احترام اور دوستانہ طرزعمل اختیار کرنے کی ترغیب دینا ہوگی۔انہیں اپنی پارٹی اور لیڈرشپ کے فیصلوں پر نکتہ چینی کا ہنر سکھانا ہوگا کیونکہ جمہوری نظام میں کوئی بھی لیڈر تنقیداور محاسبے سے بالاتر نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں پارٹی کو سائنسی بنیادوں پر منظم کرنے کے لیے نئی مگر نظریاتی ٹیم سامنے لاناہوگی۔ظاہر ہے کہ وزیراعظم کے پاس پارٹی منظم کرنے کے لیے وقت نہیں ۔یاد رہے کہ اگر پارٹی کمزور پڑگئی تو حکومت کی چولیں ہل جائیں گی اور مخالفین اسے نگل جائیں گے۔ خود وزیراعظم عمران خان کو بھی اب اپنے لب ولہجے میں تلخی اور جلدبازی کی جگہ تحمل لانے کی ضرورت ہے۔قومی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں وہ بھڑک اٹھے۔مخالفین کے خلاف ویسی تقریر کرڈالی جو وہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں کنٹینر پر کھڑے ہوکرکیاکرتے تھے۔ دنیا کی نظریں پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم کے خطاب اور طرزعمل پر مرکوز تھیں۔ تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کرتے تو ملک میں سیاسی مفاہمت کا ایک باب رقم ہوجاتا۔ ان کے سیاسی قدکاٹھ میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوتا۔ احتساب سب کا ایک مقبول نعرہ ضرور ہے لیکن یہ دودھاری تلوار بھی ہے۔ احتساب وزیراعظم کا کام نہیں بلکہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔آپ اداروں کو مضبوط بنائیں۔احتساب کا عمل خودبخود شروع ہوجائے گا۔ یہ عمل بھی تبدریج کریں ۔ماضی بعید کو کریدنے کے بجائے آئندہ کے لیے ایسے قوانین اور نظام کار واضع کیا جائے جو کرپشن اور بدعنوانی کے چور دروزے بند کردے ۔ ایسا کوئی عمل شروع نہ کیا جائے جوملک سے سرمایہ کار وںکو بھگانے کا باعث بن جائے۔ دولت مند اور ہنر مند افراد کو کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کرنے میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔