واشنگٹن،اسلام آباد ( ندیم منظور سلہری سے ،92 نیوزرپورٹ،مانیٹرنگ ڈیسک،نیوزایجنسیاں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ طاقت کے زور پر مسئلہ کشمیر کودبانا بھارت کی بھول ہے جبکہ ایران اور امریکہ کا تنازع پورے خطہ کیلئے خطرناک ہے ۔پاکستان اور امریکہ کے مابین دفاعی اور سکیورٹی تعاون ہمارے دو طرفہ تعلقات کی اہم کڑی ہے ۔گزشتہ روزواشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی، میڈیا کوانٹرویو،امریکی ہم منصب ، نائب وزیر دفاع اوردیگر کیساتھ ملاقاتوں کے دوران گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ بھارتی سرکار اور فوج کے پاکستان کیخلاف جارحانہ عزائم ہیں ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ مودی حکومت نے کشمیر کی زمینی حقیقت کو مٹانے کی جو سازش کی وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔کشمیر کے غیور عوام اپنی سرزمین کو جابر حکومت سے نجات دلانے کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں، کشمیر کی دھرتی میں بہایا گیا خون ضرور رنگ لائے گا۔ سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر اٹھا کر بھارتی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ بھارت آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے بھارت نے 2019ء میں سیز فائر کی 3 ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کیں۔ بھارت اقلیتوں کیلئے جہنم سے کم نہیں، انتہا پسند حکومت اقلیتوں کے حقوق چھین رہی ، شہریت ترمیمی بل کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کیخلاف وہاں کے عوام سڑکوں پر نکل چکے ۔ پاکستان دنیا کو کئی بار آگاہ کر چکا کہ بھارت اپنے اندرونی حالات سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے پلوامہ طرز کا ایک اور جھوٹا آپریشن کر سکتا ہے ۔ پاکستان اپنے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنا خوب جانتا ہے ۔بی جے پی سرکار سراب کے پیچھے بھاگ اور انتہا پسندانہ سوچ کے ذریعے خطے میں ابتری کا سبب بن رہی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خاتمے اور معاشی ترقی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے کرتارپور راہداری کھول کر مذہبی ہم آہنگی کا ثبوت دیا ۔دریں اثنا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے ملاقات کی اور انہیں اپنے ایران اور سعودی عرب کے حالیہ دوروں سے آگاہ کیا۔اس موقع پر ایران امریکہ کشیدگی اور خطے کی بدلتی صورتحال پر بھی تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایران ، افغانستان اور سی پیک جیسے ایشوز پر تشویش ہے ، اس ملاقات میں شاہ محمود قریشی کو امریکی تشویش سے متعلق دیگر معاملات کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ۔دو طرفہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ شاہ محمود قریشی نے خطے کی صورتحال کے بارے میں مائیک پومپیو کو بتایا کہ پاکستان ایک اچھے ہمسایہ اور دوست کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے ، ایک مضبوط افغانستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ کاوشوں سے چالیس سالہ طویل محاذ آرائی کے بعد سیاسی حل کے ذریعے امن کی نوید سنائی دے رہی ہے ۔ تاریخی اعتبار سے جنوبی ایشیائی خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ کاوشیں ہمیشہ سود مند ثابت ہوئی ہیں اور دونوں ممالک کیلئے یکساں مفید رہی ہیں ۔پاکستان ایران اور سعودی عرب کے اختلافات کو ختم کرانے کیلئے موثر سفارتکاری کر رہا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے جامع دو طرفہ پاک امریکہ تعلقات کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ کشمیر میں بھارت نے پانچ ماہ سے 80 لاکھ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ بھارت ڈرامہ بازی کے ذریعے دنیا کی توجہ اپنے اندرونی معاملات سے ہٹانا چاہتا ہے ۔ حقائق چھپانے کیلئے کشمیر میں ابھی تک انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند ہیں ،کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ۔امریکہ اور پاکستان کا "پرامن جنوبی ایشیا" کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ قراردادوں اور کشمیریوں کے استصواب رائے سے حل نہیں کیا جاتا ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مفادات کی خاطر خاموش رہنا بہتر ہے تو ایسی پالیسی خطے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔مسئلہ کشمیر جب تک حل نہیں ہوتا خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مائیک پومپیو نے افغانستان اور خطے میں پاکستان کی امن کوششوں کی تعریف کی۔علاوہ ازیں شاہ محمود قریشی نے وائٹ ہاؤس واشنگٹن میں امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ او برائن سے ملاقات کی جس میں پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین ملاقاتوں نے پاک امریکہ تعلقات کو مستحکم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ پاکستان ،امریکہ کے ساتھ جامع، طویل المدتی اور کثیر الجہتی شراکت داری پر مبنی دو طرفہ تعلقات کا خواہاں ہے ۔ پاکستان امن کا حامی ہے ، خطہ کسی نئی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ امریکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیے کا نوٹس لیتے ہوئے کرفیو کے خاتمے اور کشمیریوں کو انکا جائز حق خود ارادیت دلانے کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالے ۔ فریقین نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کو مثبت اقدام قرار دیا۔ امریکی مشیر قومی سلامتی نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کو سراہا۔دریں اثنا شاہ محمود قریشی نے امریکی نائب وزیر دفاع جان روڈ سے خصوصی ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات ،مسئلہ کشمیر، افغانستان اور ایران سمیت دیگر علاقائی امور پر تفصیلاً گفتگو کی گئی ۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور چاہتا ہے کہ خطے میں کسی بھی چھوٹی یا بڑی جنگ کو روکا جائے ۔ امریکہ نے عسکری تعلیم و تربیت پروگرام کی بحالی کا فیصلہ کر کے اچھا اقدام کیا، اس سے تعلقات مزید بہتر ہونگے ، پاکستان اس خطے میں کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ افغانستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے ۔ امریکی نائب وزیر دفاع نے پاکستان کی جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی اور استحکام کی کوششوں کی تعریف کی ۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے فوج کا انخلا کرے ، 80 کی دہائی کی غلطی دوبارہ نہ دہرائی جائے ، امریکہ اورطالبان کے مذاکرات کرانے میں پاکستان ثالثی کاکرداراداکررہاہے ۔ ایران امریکہ تنازع کے سنگین نتائج برآمد ہونگے ،ہم خطے میں قیام امن کیلئے کوششیں کرتے رہینگے ۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف بھی تناؤ میں اضافہ نہیں چاہتے ،انہیں اندازہ ہے کہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے سے کیا نتائج پیدا ہونگے ۔ کشیدگی میں کمی لانا ہر ایک کے مفاد میں ہے ، دونوں ممالک کے تنازع سے تیل کی قیمتیوں میں خلل اور عالمی معیشت بھی متاثر ہوگی۔ فضائی کارروائیوں کی وجہ سے بننے والے تناؤ کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے ۔وزیرخارجہ سے امریکی سینیٹر کرس ہولین نے ملاقات کی جس میں پاک امریکہ تعلقات، ایران، افغانستان ، کشمیر کے امورپرگفتگو کی گئی، ملاقات میں پاکستان کاکس کے بانی ممبر طاہر جاوید بھی شریک تھے ۔ سینیٹر کرس ہولین نے پاکستان کیلئے کانگریس میں نیا بل پیش کرنے کا اعادہ کیا، بل کے تحت پاکستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔بعد ازاں واشنگٹن میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ کوشش کررہے تھے کہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال سے سلامتی کونسل کوآگاہ کیاجائے ،مقبوضہ کشمیرمیں کرفیوچھٹے ماہ میں داخل ہوچکا، میڈیاپرقدغن ہے ،سیاسی رہنماوَں کوگرفتارکیاجارہاہے ،بھارت نے عالمی مبصرین کوکشیدہ صورتحال والے علاقوں کادورہ نہیں کرایا،دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔عالمی مبصرین نے کہامقبوضہ کشمیرمیں صورتحال کشیدہ ہے ۔مائیک پومپیوسے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال کانوٹس لیں،امریکی حکام پرواضح کیابھارتی جارحیت،فالس فلیگ آپریشن پرجواب دینامجبوری ہوگی۔پاکستان امریکہ ایران تنازع پرثالث نہیں بنناچاہتا،مشرق وسطیٰ کی صورتحال پرثالثی مقصدنہیں ،کشیدگی کاخاتمہ چاہتے ہیں۔پاکستان نے امریکہ کابڑامطالبہ پوراکردیا، افغان طالبان کومذاکرات کی میزپرلے آیا،دومغربی مغویوں کی بازیابی میں بھی اہم کرداراداکیا۔امریکہ نے افغان طالبان کی بااختیارمذاکراتی ٹیم کامطالبہ کیاجوپوراہوگیا۔دنیامعترف ہے کہ پاکستان نے افغان مسئلے کوسلجھانے کی کوشش کی،افغانستان میں امن کاسنہری موقع ہے ۔