کچھ اسی طرح کی صورت حال یہاں دیگر اداروں پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ ایک سفارتی ضیافت کے موقع پر میں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (جو اب سابق ہیں) سے پوچھا تھا کہ آخر عدالتیں وزیر اعظم کا احتساب کرنے سے کیوں گھبراتی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ استحکام کو احتساب کی خاطر قربان نہیں کیا جاسکتا۔یہ شاید ایک اور انتہا ہے۔ مگر پاکستانی سیاستدانوں ، میڈیا اور دیگر اداروں کے ذمہ داران سے عرض ہے کہ دونوں میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وزیر اعظم ہی حالت تذبذب میں ہو تو وہ انتظامیہ کی سربراہی کیسے کرے گا؟ حکومتیں زور زبردستی اور اتھارٹی سے زیادہ اقبال سے چلتی ہیں اور اگر اقبال ہی ماندپڑجائے تو ملک کا خدا ہی حافظ۔ موجودہ دور میں جمہوریت ایک واحد طرز حکومت ہے جس میں خرابی بسیارکے باوجود، حکمران طبقہ پانچ سال بعد عوام کے احتسابی عمل سے گزرتا ہے۔ مجھے یاد ہے، نومبر 1996ء میں پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی کی خبر جب بی بی سی سے نشر ہو رہی تھی، میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ سید علی گیلانی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کا پہلا ردعمل یہ تھاکہ کرپشن اور دیگر الزامات کے باوجود ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ جمہوریت کے ثمرات انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی ہوتے ہیں۔ اس میں بہتری لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ جمہوریت کا واحد مقصدعام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنے وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔ پاکستان کے انتخابات میں کم و بیش شاید صرف 55فیصدووٹروں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ ابتدائی جائزہ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو 32.22فیصد ووٹ ملے ہیں۔اس کے مطابق ان کے خلاف 68.88فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ برطانوی طرز کے فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ میں یہ ایک بڑی خامی ہے۔ 2014ء میں بھارت کے عام انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف 31 فیصد ووٹ لے کر لوک سبھا کی 543 میں سے 282 یعنی 52 فیصد نشستیں حاصل کر لیں۔کانگریس کو 19.3فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف 44 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ جنوبی بھارت کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے صرف 1.60 فیصد ووٹ حاصل کرکے 37 سیٹیں جیت لیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دلت راہنما مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے تو اس سے کہیں زیادہ 4.1 فیصد ووٹ حاصل کئے مگر اس کو کوئی سیٹ نہیں مل سکی۔ موجودہ لوک سبھا میں اس کا کوئی نمائندہ موجود نہیں جبکہ ووٹوں کے تناسب کے حساب سے اس کو 21 سیٹیں ملنی چاہیے تھیں۔ بائیں بازو نے 2.08 فیصد ووٹ لے کر نو نشستیں حاصل کیں۔ آخر ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کیسے یہ نتیجہ اخذکیا جائے کہ بھارت اور پاکستان میں ایک نمائندہ حکومت بر سر اقتدار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب حکومت سازی کے لئے 51 فیصد منتخب اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے، تو ہر منتخب رکن کے لئے بھی 51 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہونا چاہیے۔ بہر حال بھارت میں عمران خان اور انکی پارٹی کا موازنہ عام آدمی پارٹی (آپ ) سے کیا جاتا ہے۔ تین سال قبل جس طرح اسنے دہلی صوبائی انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے، لگتا تھا کہ آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخابی نظام کے نتیجے میں جمہوری لبادہ میں ملبوس ا ْمرا ء کا جو طبقہ وجودمیں آیا ہے، اس کو چیلنج کرنے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگیا ہے۔ مگر جلد ہی اس نے مایوس کیا۔ پچھلے سال ’’آپ‘‘ کی نیشنل کونسل کی میٹنگ میں دھینگا مشتی، ہاتھا پائی، مارپیٹ دیکھنے میں آئی اور پارٹی کے سینئراراکین کی بے عزتی کرکے ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ، اس سے عوام سکتے میں آگئے۔یہ بات توطے تھی، کہ ’’آپ‘‘ کو ملک میں ایک سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جمہوری لبادہ میں جو نظام وجود میں آیا ہے، اس کے درپردہ افراد نے جس طرح ملک کو لوٹا کھسوٹا ہے، آخر وہ کس طرح ’’آپ‘‘ کے نظریہ کو قبول کرسکتے تھے۔وی وی آئی پی کلچر اور خاندانی راج جنوبی ایشیاء میں سیاست کی علامت بن چکے ہیں۔ ماضی کے اس طرح کے تجربات بھی بتاتے ہیں کہ جب بھی اس سسٹم کو چیلنج کرنے کیلئے کوئی کمر کس کے میدان میں آجاتا ہے، تواس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، اگر وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے، تو سسٹم اس کے اردگرد ایسا جال بنتا ہے، کہ کچھ عرصے میں ہی اس کو کرپٹ، یعنی شریک کار بنالیتاہے۔ اس انقلابی فکر کے فرد کو اقتدار کی ایسی چاٹ لگائی جاتی ہے کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ بن کر انہی کرپٹ اور امراء کے قبیل کا فرد بن کر اپنا مقصد بھول جاتا ہے۔چند سال قبل روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک سابق افسر نے انکشاف کیاکہ ان کی ایجنسی نے دماغ کو کنٹرول کرنے کی ایک ایسی تکنیک تیار کی ہے، جس سے سیاسی لیڈروں کے دماغوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جنرل بورس رتنکوف نے ایک روسی اخبار روزیسکانیا گیزٹ کو بتایا کہ 80ء کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے زمانے میں 50تحقیقی اداروں میں انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے کی تکنیکوں پر ریسرچ کی جارہی تھی۔ ا ن کا کہنا تھا کہ دماغ کو کنٹرول کرنا اب سائنسی فکشن کے مصنفوں کے تخیل کی پرواز نہیں، بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب امریکی صدر بارک اوباما برسر اقتدار آگئے، تو فلسطین کے حتمی حل کے حوالے سے ان سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔مجھے یاد ہے، کہ بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ 2010ء کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورہ کے دوران میں نے دیکھا کہ مغربی ایشیا کے اخبارات مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں خاصے پر امید تھے اور روز اس سلسلے میں خبروں اور تجزیوں سے اخبارات کے صفحات بھرے ہوتے تھے۔دورہ کے آخری دن، میں نے تل ابیب میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کی خاتون نائب سربراہ سے جب اس سلسلے میں استفسار کیا، تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دنیا جلد ہی اوباما سے مایوس ہوجائے گی۔’’اوباما جلد ہی سیاست کے ر ازوں اور اس کی پیچیدگیوں سے آشنا ہو جائیں گے۔ انتظار کیجئے۔ اوباما امریکہ کی روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہیں کر پائیں گے۔‘‘ جو لوگ سمجھ رہے تھے، کہ بھارتی سیاست میں ایک انقلاب آئے گا اور ایک متبادل سیاسی نظام کی راہ ہموار ہوگی، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال کے تیور سے وہ ششدر اور مایوس ہیں۔ اب کسی اور مسیحا کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں ۔شاید عمران خان ’’آپ‘‘ کی ناکامیوں سے سبق حاصل کرکے جمہوری نظام کو احتساب کے ساتھ ساتھ استحکام بخشنے میں معاون ثابت ہوکر پورے جنوبی ایشیاء کیلئے مثال قائم کریں گے۔ امید ہے کہ وہ واقعی ارض خدا کے کعبے سے بت اٹھواکر حکمران کی ساحری کا توڑ کرنے میں کامیاب ہونگے ۔ (ختم شد)