الیکشن کے جو بھی نتائج آئے ہیں وہ توقع کے برخلاف نہیں بلکہ توقعات 

کے عین مطابق ہیں۔ البتہ الیکشن کی شفافیت پہ جو سوالات اور اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں وہ بھی ہمارے سیاسی مزاج کا اظہار ہے۔ ممکن ہے کہ ان اعتراضوں میں ایک حد تک سچائی بھی ہو لیکن سب سے بڑی سچائی یہ بھی ہو کہ ملک میں جمہوری عمل مستحکم ہوا ہے‘ اس عمل کے تسلسل کا تقاضا ہے کہ ہم ایک جمہوری قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے الیکشن کے نتائج کو قبول کر لیں۔ جمہوری عمل کو ذاتی سیاسی مفادات کے لیے مشکوک ٹھہرانا نہ ملک کے لیے اچھا ہے اور نہ خود جمہوریت کے لیے مفید۔ جمہوریت کی گاڑی اگر کہیں کہیں پٹڑی سے اتری بھی ہے تو اس کے لیے پورے جمہوری سفر کو سبوتاژ کرنا کوئی دانش مندی ہے نہ حب الوطنی۔ یہ کہنے میں جاتا ہی کیا ہے کہ چلو بھئی اب کے تمہاری باری ہے‘ اپنے مینڈیٹ کے بل پر اب وہ تبدیلی لا کر دکھائو جس کا تم وعدہ کرتے رہے تھے۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ تمہارا نیا پاکستان کیسا اور کس قدر باعث خیرو برکت ہے۔یہ کہنا اور کہہ کر کسی دوسرے کو موقع دینا کوئی آسان تو نہیں اس لیے کہ اس میں سو مفادات قربان کرنا ہوں گے۔ ہزار مصلحتوں سے منہ موڑنا ہو گا لیکن اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ اب ہمارا ملک اقتدار کے لیے لڑنے بھڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حب الوطنی کا جذبہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ قوم اور قومی مفاد کی خاطر کچھ چھوڑنا پڑے تو دل بڑا کر کے اسے چھوڑ دیا جائے جس الیکشن میں دس کروڑ سے زائد ووٹروں کو رائے دہی کا حق ہو اور جس کے لیے عمدہ سے عمدہ انتظام بھی کیا جائے تو کچھ اونچ نیچ اور تین تیرہ ہونا بعیداز امکان نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم جمہوری معاملات کو سلجھانے کے لیے کتنی عالی ظرفی اور صبرو تحمل اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ جیتنے والی پارٹی بھی کشادہ دلی اور برداشت کا رویہ اپنائے گی۔ جس طرح ہمارے ہاں شکست کو کھلے دل سے ماننے کی روایت ذرا کمزور ہے۔ وہیں اپنی فتح اور کامیابی کو ہضم کرنا اور اپنے دماغ میں جگہ نہ دینا بھی ضروری ہے۔ کامیاب جماعت کے فاتح رہنما کا لب و لہجہ اور رویہ بھی ماضی کی تلخیوں سے ازبس خالی ہونا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ خود کو قانون اور ضابطے کے حدود میں رکھنا ان کا بڑا امتحان ہو گا جس طرح انہوں نے ووٹ ڈالتے ہوئے غالباً ازخود رفتگی میں رازداری کا اہتمام نہ کیا اور سب کے سامنے اپنے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگایا جس کا الیکشن کمیشن نے بروقت نوٹس لیا۔ یہ رویہ بذات خود الارمنگ ہے کہ ایک بڑی جماعت کے بڑے لیڈر ہونے کے باوجود خود آپ ہی کے ہاتھوں قانون اور ضابطے کی دھجیاں اڑایں۔ ملک کا مسئلہ اول ہی قانون کی بالادستی کا فقدان ہے اور اس کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ جو مقتدر و با اختیار ہے وہ خود کو قانون سے اور ہر ضابطے سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اگر تبدیلی کا نعرہ ہے تو اس کی صداقت تقاضا کرتی ہے کہ سب سے پہلے تبدیلی آپ اپنے اندر لے کر آئیں اور خود کو عوام کا نجات دہندہ ضرور سمجھیں لیکن قانون سے بلند و برتر تصور نہ کریں۔ تبدیلی کے معنی کیا ہیں؟ حکمراں طبقے اور طبقۂ اشرافیہ کے انداز فکر اور طور طریقوں میں تبدیلی۔ حقیقی تبدیلی کا آغاز اوپر سے ہو گا، تبھی نچلی سطح پر تبدیلی آئے گی تبدیلی قانون سازی سے نہیں آتی۔ تبدیلی آتی ہے سوچ‘ فکر اور رویے کی تبدیلی سے۔ جب تک اوپر کے طبقے کے لچھن نہیں بدلیں گے وہ خود کو عوام کا جواب دہ اور قانون کا پابند نہیں سمجھیں گے‘ تبدیلی ایک خواب ہی رہے گی اور تبدیلی کا نعرہ نعروں ہی میں دفن ہو جائے گا۔ کبھی اس کے روبہ عمل آج کی نوبت نہ آئے گی۔

اب الیکشن ہو چکے اور ہار جیت کا فیصلہ بھی ہو گیا اس لیے ضروری ہے کہ فضا میں جس ہیجان نے جنم لیا تھا اور جو جذباتیت نعروں اور وعدوں سے پیدا ہو گئی تھی۔ اب ان کا خاتمہ ہو۔ جذبات سیدھے سبھائو استوار ہوں اور عقل و شعور کا دامن تھام لیا جائے جو کشیدگی اور بیزاری رویوں میں آ گئی ہے اس کی جگہ کشادگی‘ عالی ظرفی اور درگزر سے کام لیا جائے۔ تعمیر وطن کا یہی تقاضا ہے کہ اب تخریبی سوچ اور حقیقت سے منہ موڑنے کا وقت نہیں۔ اب جو کچھ ہے وہ یہی ہے کہ ہم ایک نئے جذبے سے اپنے اختلافات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر حُبِ وطن سے سرشار ہو کر مثبت انداز فکر اختیار کریں ہمیں آج بھی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی‘ ملکی معیشت کا عزم استحکام اور افراتفری اور طوفان بدتمیزی کا سامنا ہے۔ یہ چیلنج اسی وقت پورے ہو سکیں گے جب ہم بلند سطح پر اتفاق رائے(consensus)کا ماحول پیدا کریں۔ فروعی اور ثانوی اختلافات تو رہیں گے لیکن بنیادی اور اصولی معاملات پر ایسے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتفاق رائے کی کوشش ہی ملک و ملت کے لیے سود مند ہو گی۔ آج والی نئی حکومت سے عوام کو بہت امیدیں ہیں۔ پچھلی حکومتوں نے اپنی بدمعاملگیوں اور حماقتوں سے جو کچھ نقصان پہنچایا‘ ان کا خاتمہ کرنا اور نئی روایات قائم کرنا گڈ گورننس کی عمدہ مثال سامنے لانا‘ عوامی دکھوں اور پریشانیوں کو ترجیحی بنیادوں پر دور رکھنا‘ تعلیم کے معاملے پر سنجیدگی کا رویہ اپنانا اور خصوصاً غربت و امارت کے فرق کو کم سے کم تر رکھنا‘ بدعنوانیوں اور قانون شکنی کی بری عادتوں کو کڑے احتساب سے کنٹرول کرنا‘ نئی حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہو گا۔ الیکشن سے پہلے تک بڑی بڑی باتیں کرنا‘ بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرنا بہت آسان ہے لیکن کامیابی کے بعد اور حکومت میں آج کے بعد ان وعدوں اور دعوئوں کو یاد رکھنا اور انہیں پورا کرنا ماضی بعید میں تو شاید اتنا ضروری نہ تھا کہ عوام کا حافظہ تو ویسے 

ہی خراب ہوتا ہے لیکن اب اس لیے لازم ہے کہ ہر تقریر کا جو وعدے و عید 

سے بھری ہوتی ہے‘ اس کا ریکارڈ میڈیا کے پاس محفوظ ہے اور وہ آئینہ دکھانے میں چوکتا نہیں ہے۔ پچھلی حکومتوں کی ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے میڈیا کو نظر انداز کیا۔ انہیں اپنا متحارب فریق سمجھا۔ میڈیا کی رپورٹوں اور چشم کشا حقائق اور خبروں کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔ میڈیا کے ذریعے جو اطلاعات‘ انکشافات اور معاملات عوام تک پہنچتے رہے‘ ان کا بروقت نوٹس لے کے اصلاح احوال کی کوشش کی جاتی تو آج ان کے بڑے بڑے بت منہ کے بل نہ گرتے اقتدار میں رہ کر دیوتا بننے کی کوشش ہی ہوا میں معلق کر دیتی ہے۔ قصہ زمین برسر زمین ہی سے یہ سبق ملتا ہے کہ برسر اقتدار طبقے کو down to Earthرہنا ہی زیبا ہے وہ جو کسی نے کہا ہے:

دیوتا بننے کی کوشش میں معلق ہو گئے

اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے

تو یہ دیوتا بننے کی حسرت تو دل کی ہی حسرت بن جاتی ہے۔ آدمی کو تو آدمی ہی رہنا چاہیے چاہے عملاً وہ صدر مملکت یا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو۔ بقول شاعر:

قندیل مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا

کچھ اس سے زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا

وہ جو ایوبی دور کے بیورو کریٹ الطاف گوہر نے کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد آنکھوں پر ریشمی پٹی سی بندھ جاتی ہے۔ یہ پٹی تبھی اترتی ہے جب اقتدار سے آدمی نیچے اترتا ہے۔ یہ سو فیصدی سچی بات ہے۔ اس پٹی سے بچنے کا اور کوئی طریقہ نہیں کہ صاحب اقتدار خوشامدیوں سے خود کو دور رکھے۔ وہ خوشامدی عناصر جو سبحان اللہ کے مصرعے پہ مصرعہ اٹھاتے ہیں اور کیا بات ہے، زبردست، بے مثال کی داد، کے ڈونگرے برسا برسا کر صاحب معاملہ کا رشتہ حقیقت سے توڑ دیتے ہیں اور پھر صاحب معاملہ اپنے Ivory Towerمیں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی خدشامدی عناصر اس کی آنکھیں بن جاتے ہیں جن سے وہ دیکھتا ہے‘ ان ہی کے کانوں سے سنتا اور ان ہی کے ذہنوں سے سوچتا ہے اور یہی انداز حکمرانی اس کا انداز زیست بن کر اسے زوال کے پاتال تک پہنچا دیتاہے۔ بادشاہت ہو یا جمہوری تماشا ہو‘ یہی طبقہ تھا اور آج بھی ہے جو صاحبان اقتدار کو اپنے گمانوں میں بلند کر کے ایک دن ان کی تباہی کا مقدر بن جاتا ہے۔ اسی طبقے کے نمائندے بڑی دانش مندانہ بات اپنے جواز میں کہی تھی کہ ہم بے وفا نہیں۔ ہم تو حکومت سے وفادار رہتے ہیں۔ حکومت بے وفا ہوتی ہے جو بدل جاتی ہے۔ نئے آنے والے کو حکومت میں ان ہی عناصر سے بچانا اور خود کو عام آدمی سمجھ کر عام آدمی ہی کے مصائب کو دور کرنا اور ہر حال میں اسی کے ساتھ رہ کر اپنے ہونے کا جواز پیش کرنا ہے۔ کامیابی اور تسلسل اقتدار کا کوئی اور طریقہ اس کے سوا ہے ہی نہیں۔