جمعتہ المبارک کی سعید ساعتوں میں‘ بادشاہی مسجد کا اجلا‘ نکھرا اور سنورا سا ماحول طبیعت میں فرحت اور گداز پیدا کر رہا تھا۔ ہمارے وزیر محترم پیر سید سعید الحسن شاہ صاحب یہاں آمد پر ہمیشہ اورنگزیب عالمگیر کو یاد کرتے ہیں‘ بلاشبہ اس مسجد کا بانی اورنگ زیب سُنی ‘ حنفی عقائد کا امین اور نقشبندی اسلوب طریقت کا حامل تھا‘ اس نے ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی ترتیب و تدوین کے لئے ایک سو ساٹھ علماء اور مفتیان پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا‘ جس کی سربراہی اپنے استاد ملاجیون کو سونپی اور یہی شخصیت بادشاہی مسجد کے اولین خطیب کے طور پر بھی معروف ہوئی۔ بادشاہی مسجد کے مرمریں گنبد‘ سربفلک مینار اور سرخ پتھر سے آراستہ وسیع و عریض اور کشادہ صحن آج بھی انفرادیت کے حامل اور خوبصورتی کا مرقع ہیں، اس تاریخی مسجد میں منعقدہ ’’داعی اتحادِامت کانفرنس‘‘ جس کا اہتمام خطیب مسجد مولانا سید عبدالخبیر آزاد صاحب نے کر رکھا تھا، سے فراغت کے بعد شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضویؒ کی اہلیہ کے دار فانی سے کوچ کر جانے پر تعزیت کے لئے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے پہلو میں واقع‘ دارالعلوم حزب الاحناف حاضری ہوئی۔ جہاں جانشین شارح بخاری پیر سید مصطفی اشرف رضوی امیر مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف اپنے دیگر برادران اور متوسلین کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے والی یہ عظیم المرتبت خاتون خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے نبیرۂ عظمیٰ سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ روحانی اور علمی خاندان جو کہ چالیس واسطوں سے آئمہ اہل بیت میں سے آٹھویں امام حضرت امام رضا بن امام موسیٰ کاظم سے متصل ہوتا اور اسی نسبت سے ’’رضوی‘‘ کی نسبت سے متصف ہے،جہانگیر کے عہدمیں مشہد سے ہندوستان آیا اور شاہی اعزاز کے ساتھ راجستھان کے علاقے میں ’’الور‘‘ کے مقام پر آباد ہوا ۔الور سے اجمیر‘ غالباً دو اسٹیشن کے فاصلے پر تھا۔ علامہ سید محمود احمد رضوی نوجوانی ہی میں علمی بانکپن سے آراستہ تھے۔ اجمیر شریف خطاب کے لئے تشریف آوری مذکورہ بندھن اور نسبت کا باعث بنی۔ بہرحال اقبال کے الفاظ میں: آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے اور دعا ہے کہ : موت ہے ہنگامہ آرا قْلزْمِ خاموش میں ڈْوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں نَے مجالِ شکوَہ ہے، نَے طاقتِ گفتار ہے زندگانی کیا ہے، اک طوقِ گْلو افشار ہے! فاتحہ و دعا کے بعد غیر رسمی گفتگو اور محبت آمیز باتوں میں۔ بزرگوں کے پرانے مراسم اور راہ و رسم کے تذکرے شروع ہوئے۔ جو پون صدی نہیں تو کم از کم نصف صدی پرانے ضرور تھے ،اس لئے کہ میرے تایا جان صدر المشائخ پیر سید امیر محمد شاہ بخاری ؒ جن کا ذکر صاحبزادہ سید مصطفی اشرف رضوی صاحب نے فرمایا اور میرے والد گرامی سید الافاضل پیر سید محمد فاضل شاہ بخاری ؒ درگاہ پیر بخاری نارنگ شریف، نے درسیات اپنے والد محترم حضرت پیر سید محمد ابراہیم شاہ بخاری ؒ سے مکمل کی تھیں،جو کہ قطب دوراں حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ؒ کے کبائرخلفا میں سے تھے‘ درسیات کی تکمیل کے بعد حدیث شریف کے لئے امام المحدثین حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری قدس سرہ سے اکتساب علم کیا‘اور یوں اس نسبت سے میرے والد گرامی کی سندِ حدیث کا سلسلہ سید المحدثین سید محمد دیدار علی شاہ رضوی محدث الوری‘ حضرت شاہ محمد فضل الرحمن محدث گنج مرارباری سے ہوتا‘ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے اتصال پاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ علامہ سید محمود احمد رضویؒ کے برادر پیر سید مسعود احمد رضویؒ صاحب کی زبانی تو یہ تذکرے سنے ہی تھے۔اس لئے کہ مجھے معلوم ہے کہ حضرت ابوالبرکات قبلہ سید صاحبؒ اور حضرت میاں غلام اللہ قبلہ ثانی صاحبؒ شرقپوری جیسی اکابر ہستیاں ہمارے قدیمی گائوں سیھول شریف سالانہ تقریبات عرس میں تشریف فرما ہوتی تھیں‘ لیکن صاحبزادہ سید مصطفی اشرف رضوی صاحب کی برجستہ باتیں میرے لئے زیادہ محبت آفریں تھیں‘ جب وہ یہ بتا رہے تھے کہ اپنے دادا حضرت ابوالبرکات ؒ کے ہمراہ ان کو بھی اس دور کی ایسی رفاقت کی سعادت میسر رہی۔ بہرحال۔۔۔۔ ان باتوں کا ذکر تو وفور محبت کے سبب آ گیا۔ وگرنہ مقصود تو سادات الور کی ان بلند پایہ ہستیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جن کی شبانہ و روز مساعی اور مخلصانہ دینی اور تعلیمی کاوش کا فیضان اس خطہ پاک کے ہر قریے اور علاقے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ پہنچا۔ مسجد وزیر خان کا ماحول اس خاندان کے علمی اور دینی فیضان کے سبب گزشتہ صدی کے درمیانی عشروںمیں پورے برصغیر میں ممتاز اور معتبر رہا۔ علامہ سید ابوالبرکات کی سرکردگی میں اسی مسجد میں‘ انجمن حزب الاحناف کا تین روزہ سالانہ جلسے ہماری عظیم علمی تاریخ میں ایک روشن اور درخشاں باب ہے۔ بریلی‘ مراد آباد‘ پیلی بھیت‘ بمبئی اور آگرہ سمیت ہندوستان بھر سے سادات مشائخ اور علما کے قافلے آتے‘ حضرت ابوالبرکات لاہور کی اکابر دینی اور علمی شخصیات کے ہمراہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر ان کا استقبال کرتے۔ وزیر خاں کی مسجدمیں جلسہ گاہ بڑے تزک و احتشام سے سجائی جاتی ‘ علمائ، مشائخ، سادات اور اکابر دینی شخصیات کی نشستیں آراستہ ہوتی۔کہیں حضرت محدث کچھوچھہ تشریف فرماہیں، تو کہیںحضرت صدر الشریعہ جلوہ گر۔ کائنات علم و حکمت کے آفتاب و ماہتاب ایسی روشنیاں بکھیرتے کہ قلب و ذہن نور علی نور ہو جاتے۔ بہرحال ؎ تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صِلا لے بھی گئے آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے آئے عْشّاق، گئے وعدہ فردا لے کر اب اْنھیں ڈھْونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر گزشتہ روز کی نشست میں یہ امر، میری معلومات میں اضافے کا باعث بنا کہ حضرت قبلہ سید صاحب دو سال تک حضرت داتا گنج بخش ؒکی مسجد میں بھی باقاعدہ خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے۔ یہ اس خاندان کی حضرت مخدوم امم سید ہجویر ؒکی خانقاہ سے عقیدت و محبت کا ثمرہ ہے کہ حضرت ابوالحسنات سید محمد قادری ؒکی تدفین حضرت داتا گنج بخشؒ کی خانقاہ عالیہ میں عمل میں آئی۔ حضرت ابوالحسنات طویل عرصے تک مسجد وزیر خان کی خطابت کے منصب پر فائز رہے اور اس کے تاریخی اور تعمیراتی شکوہ کے ساتھ اس کی علمی اور دینی وقعت اور اہمیت میں اضافے کا باعث ہوتے۔تحریک پاکستان کے سرگرم راہنما اور جہاد کشمیر کے مجاہد تھے ۔تفسیر الحسنات کے مصنف اور کشف المحجوب کے ترجمہ نگار ہوئے۔ آپ کا وصال 20جنوری 1961ء کو ہوا۔ یوں آج ان کا 59واں یوم وصال ہے۔بہر حال ۔۔۔۔ مذکورہ نشست میں محترم پیر سید سعیدالحسن شاہ صاحب نے‘ شارح مختصر المعانی علامہ مہر الدین جماعتی‘ جو کہ دارالعلوم حزب الاحناف سے منسلک اور دوسری طرف پیر صاحب کے جد اعلیٰ حضرت پیر سید چراغ علی شاہؒ(درگاہ چراغیہ) کی مجلس خاص سے وابستہ تھے، کی باتیں اور یادیں بھی تازہ کیں۔