مدت ہوگئی بجلی کے شعبہ کے بارے میں کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی۔چند برس پہلے تک تو لوڈ شیڈنگ نے زندگی عذاب بنائے رکھی۔ اب تازہ خبر یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں ڈیڑھ سے دو روپے فی یونٹ اضافہ کیا جانے والا ہے اور کچھ عرصہ بعد یہ اضافہ تین روپے فی یونٹ تک کردیا جائے گا۔حالانکہ اس وقت بھی بجلی کی قیمت اچھی خاصی زیادہ ہے۔عام لوگ تو بجلی کی موجودہ قیمت پر ہی بہت نالاں ہیں۔اگر بجلی کا نرخ مزید بڑھا توحکومت کے خلاف عوام میںاوربے چینی پھیل جائے گی۔ پاور ڈویژن کی سرکاری رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کے شعبہ کا گردشی قرض دو ہزار تین سو ارب روپے ہوگیا ہے اور اگلے جون تک پونے تین ہزار ارب روپوں تک جاپہنچے گا۔ وزیراعظم کے توانائی کے مشیر تابش گوہر کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخ میں اضافہ ناگزیر ہے کیونکہ گزشتہ دو سال میںروپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے اور قدرتی گیس جس سے بجلی بنائی جاتی ہے اسکی قیمت دوگنا ہوچکی ہے۔ حکومت کا یہ موقف بھی ہے کہ ن لیگ کے دور میں بجلی کے جو نئے پلانٹ لگائے گئے ان کی قیمت اصل سے تقریباً پچیس فیصد زیادہ دکھا کر ان کا ٹیرف زیادہ مقرر کیا گیا یعنی نجی کمپنیوں سے مہنگی بجلی خریدنے کے معاہدے کیے گئے ۔ ان کمپنیوں سے یہ بھی عہد نامہ کیا گیا کہ وہ جتنی بجلی پیدا کرنے کی استعداد رکھتی ہیں اسکے برابر انہیں ادائیگی حکومت کرے گی خواہ بجلی خریدے یا نہ خریدے۔ ان نئے منصوبوں کے باعث حکومت کونجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کو اس برس اضافی اڑھائی سو ارب روپے سالانہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ وفاقی حکومت بجلی بنانیکی نئی اور پرانی نجی کمپنیوں کو اس سال مجموعی طور پر صرف انکی استعداد کی مد میں ساڑھے سات سو ارب روپے ادا کرے گی۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں لگائے گئے بجلی کے نجی منصوبوں کا تقریباًساڑھے چار سو ارب روپے کا قرض حکومت پر چڑھا ہوا ہے جس پر اسے دس فیصد سالانہ سودبھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھانے سے متعلق حکومت کا موقف اپنی جگہ کسی حد تک درست بھی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ کچھ حقائق اور بھی ہیں جنہیں حکومت چھپاتی ہے۔ میں لاہور میں رہتا ہوں۔ دو ماہ پہلے نومبر میں میرے گھر کا بجلی کا بل پانچ ہزار بتیس روپے آیا۔ ہم نے کُل دو سو تیرہ یونٹ بجلی استعمال کی تھی۔ اگر بل کو یونٹس پر تقسیم کریں تو ایک یونٹ تقریباًساڑھے تئیس روپے سے کچھ زیاد ہ میں پڑتا ہے۔ اس میں پانچ مختلف ٹیکس بھی شامل ہیں۔ جیسے ایکسائز ڈیوٹی۔ سرکاری ٹیلی ویژن کی فیس ۔ جنرل سیلز ٹیکس۔ نیلم جہلم منصوبہ بنانے کا ٹیکس اور ایک سرچارج۔اگر یہ ٹیکس نکال دیے جائیں تو بجلی کی قیمت تقریباً پونے سولہ روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔جن گھروں میںتین سو یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے انکا کہنا ہے کہ انکو بجلی کا ایک یونٹ اٹھائیس روپے میں پڑتا ہے۔ تو حکومت کا یہ دعویٰ توسراسر غلط ہے کہ بجلی اسے مہنگی پڑتی ہے لیکن وہ سستی بیچتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بجلی کے ایک یونٹ کی اوسط قیمت سترہ روپے ہے لیکن حکومت اسے اوسطاًچودہ روپے میں بیچتی ہے۔ ایک عام آدمی کو اس سے کیا غرض ہے کہ حکومت بجلی کے بل میں صرف بجلی کی قیمت وصول کررہی ہے یااسکے ساتھ پانچ مختلف قسم کے ٹیکس بھی اکٹھے کررہی ہے۔ بہرحال اسکے باوجود حکومت کو بجلی کے شعبہ میں خسارہ کا سامنا ہے۔ اسکا گردشی قرض سوا دوہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ کیوں؟ حکومت بجلی کے بلوں کے ذریعے سے جو سینکڑوں ارب روپے ٹیکس میں جمع کرتی ہے ان سے گردشی قرض کیوں نہیں اُتارتی؟شائد اس لیے کہ یہ رقم بھی سرکاری بجٹ کا مجموعی خسارہ پورا کرنے میں استعمال ہوجاتی ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت کے اخراجات آمدن سے زیادہ ہیں۔دوسرے‘ حکومت دیگر طریقوں سے ٹیکس جمع کرنے کی اہل نہیں اس لیے بہت سا بوجھ بجلی کے صارفین پر ڈال دیتی ہے۔ بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت جتنی بجلی تقسیم کرتی ہے اسکے ایک چوتھائی حصّہ کی قیمت وصول نہیں کرپاتی۔دس فیصدنادہندگی اورپندرہ فیصد چوری کی بنا پر۔ بجلی استعمال کرنے والے کئی سرکاری اور غیر سرکاری صارفین بجلی کی قیمت ادا نہیں کرتے۔ نادہندہ ہوتے ہیں۔ مثلاً بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کی مد میںکوئٹہ کی کمپنی تین سو ارب روپے سے زیادہ رقم کی نادہندہ ہے۔ بلوچستان کی کمپنی سے رقم وصول کرناایک بڑا سیاسی ایشو بھی ہے۔ وہاں کے سیاستدان تو پہلے ہی محرومیوں کا شور مچاتے رہتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے بھی تقریباًڈیڑھ سو ارب روپے ادا کرنے ہیں۔کراچی کی کے الیکٹرک تقریباً سوا دو سو ارب روپے کی نادہندہ ہے۔سب سے زیادہ وصولیاں وسطی اور شمالی پنجاب سے ہوتی ہیں۔یہاں کے صارفین دیگر علاقوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس پر مستزاد پندرہ فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے جسے لائن لاسز کہہ کر چھپا دیا جاتا ہے۔ اس مالی سال ((2020-21 میں لائن لاسز کی مد میں پینتیس ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ ہے جبکہ 117 ارب روپے کا خسارہ عدم وصولی کے باعث ہوگا۔ یہ جو پچیس فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے اسکا ڈنڈ بھی ان صارفین سے وصول کرلیا جاتا ہے جو باقاعدگی سے اپنے بل ادا کرتے ہیں۔ پاور ڈویژن کی ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق حکومت کو جس گردشی قرض کا سامنا ہے اس میں پونے آٹھ سو ارب روپے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی کے باعث ہیں۔ بجلی کی چوری تقسیم کار کمپنیوں کے بدعنوان افسروں‘ اہلکاروں کے تعاون سے ہوتی ہے۔ کرپٹ افسراور چوری کرنے والے عیش کررہے ہیں جبکہ ایمانداری سے بل دینے والے خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کے بعض علاقے ایسے ہیں جیسے حیدرآباد ڈویژن یا خیبر پختونخواہ کے بعض علاقے جہاں چالیس سے پچاس فیصد تک بجلی چوری کی جاتی ہے۔ حکومت کی عملداری اتنی کمزور ہے کہ وہاں سے چوری چکاری ختم نہیں کراسکتی۔ اگر حکومتی ادارے خود بجلی کی تقسیم ‘ چوری روکنے اور بل وصول کرنے کا نظام نہیں چلاسکتے تو ان نام نہاد ڈسکوز(بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں)کی نجکاری کردی جائے۔ جیسے ٹیلی فون کا نظام پرائیویٹ ہونے سے اسکی سروس بہتر اور عام ہوگئی اورنجی کمپنیوں میں مقابلہ کی فضا پیدا ہونے سے ٹیلی فون چارجز بھی کم ہوتے گئے ایسا ہی بجلی کی نجکاری سے ہوگا۔ہر بڑے شہر میں تین چار کمپنیوں کوکام کرنے کی اجازت دی جائے عوام کو جہاں سے اچھی سروس ملے گی وہ اس سے بجلی خرید لیں گے۔ سرکاری اہلکار تو وقت گزرنے کے ساتھ اتنے نااہل ہوچکے ہیں کہ اس نظام کی مناسب دیکھ بھال بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ اسکا مظاہرہ ابھی حالیہ ملک گیر بجلی کے بریک ڈاون میں دیکھا گیا۔ بجلی کی گورننس کا نظام ایسے سی ایس پی سرکاری افسروں کے سپرد ہے جو بجلی کے سسٹم کی الف بے سے واقف نہیں۔ حکومت جتنے چاہے بجلی کے نرخ بڑھا لے یہ سرکاری بابواس نظام کو ٹھیک نہیںکریں گے۔ عوام پستے رہیں گے۔