چند ہی دن کی بات ہے توشہ خانہ پہ بڑا شور مچا تھا، کہا جا رہا تھاعمران خان توشہ خانہ سے گھڑی لے اُڑے۔پھر یہ ہوا کہ ایک درخواست گزار لاہور ہائیکورٹ کے پاس گیا اور درخواست کی کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ عام کیا جائے۔ عدالت نے حکم دیا تو حکومت نے معذرت کر لی کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے وجہ پوچھی تو ایک تحریری جواب جمع کرایا گیا۔ اس جواب میں کہا گیا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے سے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوں گے اور ملکی سلامتی کو خطرات درپیش ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے یہ جواب عدالت کو مطمئن نہ کر سکا اور اب لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ توشہ خانہ کے ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک بیان حلفی جمع کرایا جائے جس میں بتایا جائے کہ آخر حکمرانوں کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات کیوں اور کس بنیاد پہ خفیہ ہیں۔ عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف منظر عام پہ لانے سے میڈیا ہائپ بن جاتی ہے لہذا سے منظر عام پہ نہیں لایا جانا چاہیے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس عاصم حفیظ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا صرف یہ وجہ ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف خفیہ رکھے جائیں؟ بتایا گیا نہیں اس کا تعلق ملکی سلامتی کے ساتھ بھی ہے۔جج صاحب نے سوال کیا اگر ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی کا تحفہ آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلے ایل این جی کا ٹھیکہ دیں تو پھر کیا ہوگا۔ لاہور ہائیکورٹ میں سماعت تو ملتوی کر دی گئی لیکن توشہ خانہ کے تحائف کو منظر عام پر لانے کا معاملہ اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ حیرت کی بات ہے ایک گھڑی کے معاملے پر اتنا شور مچانے والی حکومت عمران خان کی مزید کارگزاریاں منظر عام پہ کیوں نہیں لانا چاہتی۔ کیا وہ خوفزدہ ہے کہ اس سے اُس کی اپنی گاڑیوں اور دیگر تحائف کی تفصیل بھی منظر عام پہ آ جائے گی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت کے حکمرانوں نے بھی توشہ خانہ سے درجنوں تحائف حاصل کر رکھے ہیں جنہیں وہ اونے پونے داموں گھر لے جا چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے تحائف کی تفصیلات منظر عام پہ آنے سے یہ بھی پتہ چلے کہ کون کون سی اشیا کو اصل قیمت سے کم تخمینہ لگا کے حاصل کیا گیا ہے اور ان اشیاء کی اصل قیمت کیا تھی۔ حکومت کیوں گھبرا رہی ہے جب وہ عمران خان کو مجرم سمجھتی ہے تو اپنی تفصیلات دینے سے گریزاں کیوں ہے ۔ کیا اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ کیا کوئی یہاں دوسروں پہ لاگو ہونے والے قوانین کا اطلاق خود پہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہی دوہرا رویہ ہمارے ہاں کرپشن کو تحفظ دیتا ہے اور تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ تبھی تو جو آتا ہے دوسروں کا احتساب کرنا چاہتا ہے، مخالفین پر کیسز بناتا ہے ، اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔ ایک اور خبر بھی گذشتہ روز وقوع پزیر ہوئی ہے ۔ اکتوبر 2022 میں عمران خان نے قومی اسمبلی کے جن سات حلقوں میں بیک وقت کامیابی حاصل کی تھی، ان کا نوٹیفکیشن روک لیا گیا تھا۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نا اہل کر دیا گیا تھا ۔ الیکشن سے ایک دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا تھاکہ عمران خان کی نااہلی صرف ایک ٹرم کے لیے تھی اگلا الیکشن وہ لڑ سکتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان کی سات حلقوں میں کامیابی کا نوٹیفیکشن روک لیا گیا تھا۔ اسی دوران ان پر ایک اور کیس چل نکلا تھا کہ نا اہل شخص پارٹی چئیرمین نہیں رہ سکتا۔ بنیاد نواز شریف کے کیس کو بنایا گیا تھا۔ حالانکہ نواز شریف کی نا اہلی 62(1)F میں ہوئی تھی اور سپریم کورٹ سے ہوئی تھی۔ جبکہ عمران خان کی نا اہلی آرٹیکل 63 کے تحت ہوئی تھی اورالیکشن کمیشن سے ہوئی تھی ۔ عمران خان کی سات حلقوں سے کامیابی کا نوٹیفیکشن جاری ہونے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ان کی نااہلی صرف ایک ٹرم کے لیے تھی گویا اب وہ ہر طرح کا الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہو گئے ہیں اور جب وہ اہل ہو گئے ہیں تو ان کی پارٹی چئیرمین شپ بھی خطرے میں نہیں رہی ہے۔ تکنیکی بنیادوں پر سیاست دانوں کو میدان بدر کرے کا چلن پاکستان میں پرانا ہے۔ مقتدر حلقے پاکستان میں فیصلہ کرتے ہیں کسے سیاست میں حصہ لینا ہے ، کسے نہیں لینا ۔ پھر یہ حکم کسی کو نا اہل کرنے کا اختیار رکھنے والے اداروں کو منتقل ہوتا ہے اور وہیں سے اس پہ عملدرآمد کا آغاز ہوتا ہے۔ ان اقدامات سے ایک تو سیاست کا ادارہ کمزور ہوتا ہے دوسرا وہ تمام ادارے جو مقتدر حلقوں کے غیر قانونی احکامات کو ماننے کے لیے جعلی خاکوں میں رنگ بھرتے وہ بھی اپنی آبرو کھو دیتے ہیں ۔ یوں بیک وقت سیاست کا ادارہ اور باقی تمام آئینی و قانونی ادارے اپنی وقعت اور قدر کھو دیتے ہیں ۔ پاکستان کے تمام اداروں کو اس موڑ پہ ٹھہر کے یہ سمجھنا ہو گا کہ پاکستان کی بقا اور مضبوطی اداروں کی مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر تمام ادارے ایک ہی ادارے کے ذیلی ادارے یا محکومین بن کے رہ جائیں گے تو بلیک میلنگ کا کلچر پروان چڑھے گا اور کوئی بھی ادارہ پنپ نہیں سکے گا۔ توشہ خانہ کا معاملہ ہو یا الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار، عدلیہ ہو یا ایف آئی اے ۔ اگر تمام ادارے اپنے اپنے اختیارت کو دوسرے کی منشا کے سامنے گروی رکھ دینے کی روش ترک نہیں کریں گے تو پاکستان کی مضبوطی کا خوب دیکھامحال ہو گا۔