گزشتہ کالم میں سندھ میں گھوسٹ سکولوں کا تذکرہ ہوا تھا بلوچستان کے شہر پشین سے ایک میل آئی لکھا تھا کہ بلوچستان کی صورتحال پر بھی لکھیں جہاں ہر شعبے میں گھوسٹ ایمپلائز کام کر رہے ہیں۔بلوچستان پاکستان کے صوبوں میں ترقیاتی پیرا میٹرز کے حساب باقی تمام صوبوں میں سب سے پیچھے ہے۔ یہاںصورتحال یہ ہے کہ 2022 میں نادارہ نے دولاکھ انچاس ہزار سات سو انچاس سرکاری ملازمین کی ویر فیکیشن چیک کرنے کی مہم چلائی جس میں سے مختلف محکموں کے اٹھائیس ہزار تین سو ستاسٹھ ایسے سرکاری ملازمین پائے گئے جو گھوسٹ ورکرز کی کٹیگری میں آتے ہیں۔جب ان اٹھائیس ہزار سرکاری ملازمین کو کہا گیا کہ اپنی موجودگی کو ثابت کریں تو اٹھائیس ہزار ملازمین ایسے تھے جو اپنی موجودگی کو ثابت نہیں کرسکے مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان گھوسٹ ورکرز۔ کے نام پر تنخواہیں جاری ہوتی ہیں لیکن درحقیقت ان کا کوئی وجود ہے۔اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اس میں دو ہزار ایک سو اکیاسیگھوسٹ ملازمین پولیس میں کام کرتے ہیں۔دوہزار دو سو اکسٹھ محکمہ تعلیم میں علم بانٹ رہے ہیں۔ ایک ہزار پانچ سو اڑسٹھ صحت کے محکمے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ایک ہزار تین سو اکہتر گھوسٹ ملازمین ورکس اینڈ کیمیونیکشن میں موجود ہیں۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں میں سے لوگ نظام میں نقب لگاتے ہیں۔اس ملک کے وسائل کو چوری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں پھر یہی لوگاس ملک کے مسائل اورچانتظامی ابتری پر تقریریں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر اخلاقیات کے لیکچر دیتے ہیں اور سماج سدھار کا جھنڈا اٹھائے رکھتے ہیں ۔ بدقسمتی سے فیک تقرریوں کے نام پر تنخواہیں لینے اور ملک کے خزانے کو لوٹنے کا رجحان پاکستان کے ہر صوبے میں موجود ہے۔پنجاب جیسے صوبے میں ایک زمانے میں گھوسٹ اسکولوں کا بہت چرچا تھا اور شہباز شریف نے بطورِ وزیر اعلی اس پر اچھا خاصا کریک ڈاؤن کیا تھا جسے کچھ صورتحال کنٹرول میں آئی۔2020میں کچھ تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آیا کہ پنجاب میں 200 گھوسٹ ورکر پنجاب کے مختلف شہروں میں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ بھوت ملازم ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں مگر ان کے ناموں پر تنخواہیں جاری ہوتی ہیں۔تحقیق میں 300 ایسے ملازمین بھی سامنے آئے جن کا وجود مشکوک ہے مگر ان کے نام پر تنخواہیں جاری ہو رہی ہیں۔پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کے گھوسٹ ملازمین میں ، 33 گھوسٹ ورکرز کے ساتھ سرگودھا پہلے نمبر پر ہے۔اٹک میں 26 گھوسٹ ورکر ہیں شیخوپورہ میں سولہ ساہیوال میں 14 جھنگ اور بہاولپور میں 12میانوالی میں 10 گھوسٹ ورکرز کام کر رہے ہیں۔ یہ صرف محکمہ صحت کی بابت معلوم ہوا ہے ، تحقیق کریں تو ایسے فیک ورکرز کی کچھ نہ کچھ تعداد ہر محکمے میں ضرور نکل آئے گی۔ویسے یہ لفظ گھوسٹ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ گھوسٹ رائٹر کا تذکرہ تو آپ نے سنا ہوگا۔یہ اصطلاح مغرب سے آئی جہاں پر بہت سے لکھنے والوں نے بطور گھوسٹ رائٹر اپنا کیریئر بنایا اور ایسے لوگوں کے لیے کتابیں لکھیں جو خود لکھاری نہیں تھے مگر معاشرے میں لکھاری کی پہچان بنانا چاہتے تھے۔لکھاری بننے کے شوقین بیشتر دولت مند افراد مشہور اداکار، کھلاڑی، سیاست دان ہوتے ہیں جنہیں اپنی خود نوشت لکھوانے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کے پاس شہرت دولت اور گلیمر تو ہوتا ہے لیکن لکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ اپنی دولت کے ذریعے گھوسٹ لکھاری خرید لیتے ہیں۔گھوسٹ لکھاریوں کا کاروبار پاکستان میں بھی خوب چمک رہا ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ عموما خواتین شاعرات کے پیچھے لوگ کسی نہ کسی بھوت شاعر کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید اسے کوئی دوسرا لکھ کر دیتا ہے۔بہت سے مرد شاعر بھی ایسے ہیں جو دوسروں کے لکھے پر واہ واہ سمیٹتے ہیں۔ دولت مند شاعر بننے کے شوقین لوگ ایسے غریب شاعروں کی معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی لکھی ہوئی غزلوں کو مشاعروں میں جا کر پڑھتے ہیں اور خوب واہ واہ سمیٹتے ہی۔ پھر ان کی غزلوں کے بل بوتے پر وہ بیرون ملک کے مشاعروں میں بھی مواقع حاصل کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔گھوسٹ لکھاری جو دوسروں کے لیے اپنا خون جگر جلاتے ہیں اس کے پیچھے معاشی مسائل ہوتے ہیں قدرت نے ان کو لکھنے کی صلاحیت تو دی ہوتی ہے لیکن لکھنے سے معاشرے میں کوئی روزگار آسانی سے نہیں ملتا تو وہ اس صلاحیت کا استعمال دوسروں کے لئے گھوسٹ لکھاری بن کر کچھ کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ایک سرکاری افسر ہیں جن کے بارے میں سنا کہ انہوں نے یورپ کا دورہ کیا اور پھر اس سفر کی روداد کسی بھوت لکھاری کو اچھا معاوضہ دے کر لکھوائی اور اب وہ محکمے کے جس بڑے افسر سے ملتے ہیں سب سے پہلے میزپر جا کر اپنی کتاب رکھتے ہیں اور بڑے افسر کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغرب میں گھوسٹ رائٹر سے اپنے نام پر کتابیں لکھوانے کا چلن قابل قبول سمجھا جاتا ہے ۔امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ جو اپنے ہی مزاج کے شخصیت تھے اور اکثر اپنے بڑبولے پن کی وجہ سے خبروں میں رہتے تھے ان کے بارے میں جب یہ خبر آئی کہ وہ بزنس کے حوالے سے سیلف ہیلپ کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں تو دنیا حیران رہ گئی بعد میں پتا چلا کہ یہ کتابیں ڈونلڈ ٹرمپ کے نام سے کسی بھوت لکھاری نے لکھی ہیں۔ہمارے ملک کے ایک نامور کالم نگار جو اب ایک موٹیویشنل سپیکر کے روپ میں بھی نظر آتے ہیں وہ بھی ایک ارب پتی بزنس ٹائیکون کے گھوسٹ رائیٹر رہے ہیں۔ بزنس ٹائیکون کے اب کالموں کے مجموعے کے ساتھ صاحب کتاب بے شمار ہوتے ہیں۔ یہ گھوسٹ لفظ بھی بڑا دلچسپ ہے ہیں جس کے ساتھ لگ جائے اسے پراسرا اور فیک بنا دیتا ہے۔کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پر گھوسٹ حکمرانوں کی حکومت رہی ہے۔سامنے چہرے کسی کے اورحکمرانی کسی اور کی۔۔ایسے بھوت بنگلے میں مجھے تو سب کچھ آسیب زدہ لگ رہا ہے۔ منیر نیازی کا شعر یاد آتا ہے مینر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔!