پلستر میں جکڑی ٹانگ کے ساتھ وہ ہشاش بشاش بھی دکھائی دے رہے ہیں اور پرجوش بھی۔ایسے ہی جیسے وہ ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں جب انہیں معلوم تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے والی ہے۔وہ پریشان ضرور تھے۔ لیکن چہرے پر تفکرات کی پرچھائیں نہیں آنے دے رہے تھے۔لوگ جب یہ پوچھتے ہیں کہ عمران کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے کیوں ہٹا دیا گیا۔ تو سمجھنے کے لئے صرف مختصر ترین یہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان پاکستان کے ریاستی اصول اور قواعد و ضوابط دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ انقلاب تو نہ لا سکے اور نہ ہی لاسکیں گے۔میں تو سمجھتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے معروضی حالات کا جائزہ نہ اقتدار میں آنے سے پہلے لیا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد ۔وہ اس بات کا بھی اندازہ نہیں کر سکے کہ ان کے پاس اس کام کو کرنے کے لئے ایک موثر اور اہل ٹیم ہے بھی یا نہیں جو ان کے خواب کو تعبیر میں بدل سکے۔ہاں عمران کی ایک خوبی یہ ہے کہ عمران جو چاہتے ہیں جو سوچتے ہیں کھل کر بتاتے ہیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں وہ دلیل اور منطق سے خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے بہتی سی ریڈ لائن کراس کر جاتے ہیں۔ عمران خان کو یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ وہ ایک ساتھ کتنے محاذوں پر الجھتے جا رہے ہیں۔ شاید عمران کا یہ اندازہ بھی درست نہیں کہ تبدیلی کا پھل پک چکا ہے بس اب اسے توڑنا ہی ہے۔کیونکہ عمران کرکٹ کے میدان کے اس فارمولے پر کاربند ہیں کہ بیسٹمین خوفزدہ ہے اس لئے بائونسرز مارتے جائو دیکھیں وقت کیسے بدلتا ہے کراچی کی سیاست میں کچھ کر گزرنے کی خواہش نے انگڑائی لی۔ تو کامران ٹیسوری کو کراچی کی سب سے بڑی سرکاری رہائش گاہ میں لا بٹھایا گیا ۔ظاہر تھا اس کا کچھ نہ کچھ مطلب تو تھا۔ پھر سب نے دیکھا ایک ایسی پارٹی کو یکجا کرنے کا مشن سرانجام دیا گیا۔ جو اپنے عروج کے دورمیں طاقت کے تمام ریکارڈ توڑ چکی تھی۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ کسی راستے پر ایم کیو ایم کا ایک ساتھی بھی کھڑا ہو جائے تو پولیس بھی راستہ بدل لیتی تھی۔جس کے لیڈر کی ایک آواز پر لاکھوں کا مجمع ہو یا ملک کا وزیر اعظم۔ سب خاموش ہو جاتے تھے پھر اس کی بنائی ہوئی پارٹی اپنی فیس سیونگ کے لئے انتخابی میدان کے راستے پر جانے سے کترا رہی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نئے ترتیب والے منظر کا مقصد شاید یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو لگام دی جائے۔ یہ کھیل ہر دور میں کھیلا جاتا رہا ہے اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کس کس طرح کس کس کا راستہ مسدود کیا گیا اور دوسرے فریق کے لئے کشادگی کے کیا کیا راستے بنائے گئے۔کہیں آپریشن ہوئے اور کہاں کہاں قوم کو حیران کردینے والے واقعات رونما ہوئے یہ سب ہماری یادداشت کا حصہ بنتے رہے ہیں ۔ہماری تاریخ میں کسی ایک شخص کے کردار کو لے کر اس کے پورے کیریئر پر پردہ ڈالا جاتا رہا ہے بعض لوگ ضیاء الحق کی انکساری کو بیان کر کے ان کے مارشل لاء کی خونخواری کو جائز قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔بدلی ہوئی دنیا میں جنرل (ر)باجوہ سے بہت سے مشکل اور نازک سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس فکر میں ہے کہ کس طرح کوئی ڈیٹرجنٹ استعمال کر کے دامن پر لگے دھبے اور داغوں کو دھو سکے۔حالات اور وقت انداز اور تیور بدلتا رہتا ہے کہیں کوئی سینہ تان کر دھڑلے سے اپنی آواز بلند کرتا ہے کہیں کوئی دبک جاتا ہے، سہم جاتا ہے کہیں کوئی چھوٹی سی بات ہضم نہیں ہوتی اور کہیں بڑی بڑی باتیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں۔ہر ایک کو اقتدار سے بہت پیار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہر قسم کے کمپرومائز پر تیار ہے۔کئی ریڈ لائن کراس کر کے پی ٹی آئی یہ تاثر دینے کوشش کر رہی ہے کہ وہ بڑی بہادری سے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہی ہے۔لیکن شاید کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اسے یہ کہانی ضرور سنا رہے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر شاید اب ان کی سیاسی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہی، یہ درست ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا میکنزم بلدیاتی انتخابات سے مختلف ہو تا ہے لیکن اپنے چار سالہ دور حکومت میں پی ٹی آئی نے کراچی کو جس طرح نظرانداز کیا اور صرف دعووں اور وعدوں پر اکتفا کرتے رہے۔ سیاسی جماعتوں کی شہرت اور مقبولیت اسی طرح کریش ہو جاتی ہے جس طرح اسٹاک ایکسچینج کریش ہوتی ہے کراچی کی سیاست کے حوالے سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ایم کیو ایم کا ٹائیٹنک ڈوب رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ کراچی سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں ایک نیا موڑ اپنی تماتر حقیقتوں کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ جس بنیاد پر ایم کیو ایم نے حیرت انگیز عروج کا دور دیکھ تھا اس رومانس کا دیا اب ٹمٹانے لگا ہے۔اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے کسی بڑی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہیں اس کا جواب بہت سیدھا سادا ہے وہ کچھ نہیں ہوا جس کا وعدہ کیا گیا تھا وہ توقعات وہ امیدیں جو کراچی میں رہنے والی اکثریتی آبادی اردو سپیکنگ نے ایم کیو ایم سے وابستہ کی تھیں پوری نہیں ہوئیں۔ایم کیو ایم نے طرز انداز اور طرز فکر نے وہ روشن راستے متعین نہیں کئے جن کی ان سے توقع کی گئی تھی یہ سوچنا تو ایم کیو ایم کی قیادت کا کام ہے کہ اتنی منظم جماعت کا شیرازہ بکھرا مجھے ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی سیاست بدل رہی ہے۔لوگوں کے عمومی مسائلبڑھتے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ تعلیم صحت اور امن و امان کی مسائل ہر شہری کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں مہنگائی نے ہر کسی کے کس بل نکال دیے ہیں کراچی کا پورا انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں ڈرینج اور نکاسی آب کا پورا ڈھانچہ خستہ حال ہے۔صفائی کا کوئی مربوط اور منظم نظام نہیں ہے جس نے شہر کے ہر کونے کو کچرا کنڈی بنا کر رکھ دیا ہے بجلی کے لمبے چوڑے بل اور لوڈشیڈنگ کا عذاب آدھے سے زیادہ کراچی میں گیس پریشر کم ہونے کی شکایت عام ہیں۔پیپلز پارٹی گزشتہ 14سال سے سندھ کی حکمران ہے لیکن ابھی تک کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ساتھ ساتھ سیاسی اور معاشی بحران کا حل غیر مقبول وفاقی حکومت کے پاس بھی نہیں ہے اس صورتحال سے نکلنے کے لئے راست اقدامات کی ضرورت ہے۔معیشت اندرونی انتشار سے آزادی چاہتی ہے۔فوج پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہے۔سیاسی اور معاشی دلدل سے نکلنے کے لئے حل طلب سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈ نا ضروری ہے۔کوئی مطلوبہ تبدیلیوں کا فارمولا بن جائے، آئیے مہلت ختم ہونے سے پہلے سوچیں۔ ٭٭٭٭٭
آئیے مہلت ختم ہونے سے پہلے سوچیں!
جمعه 20 جنوری 2023ء
پلستر میں جکڑی ٹانگ کے ساتھ وہ ہشاش بشاش بھی دکھائی دے رہے ہیں اور پرجوش بھی۔ایسے ہی جیسے وہ ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں جب انہیں معلوم تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے والی ہے۔وہ پریشان ضرور تھے۔ لیکن چہرے پر تفکرات کی پرچھائیں نہیں آنے دے رہے تھے۔لوگ جب یہ پوچھتے ہیں کہ عمران کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے کیوں ہٹا دیا گیا۔ تو سمجھنے کے لئے صرف مختصر ترین یہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان پاکستان کے ریاستی اصول اور قواعد و ضوابط دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ انقلاب تو نہ لا سکے اور نہ ہی لاسکیں گے۔میں تو سمجھتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے معروضی حالات کا جائزہ نہ اقتدار میں آنے سے پہلے لیا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد ۔وہ اس بات کا بھی اندازہ نہیں کر سکے کہ ان کے پاس اس کام کو کرنے کے لئے ایک موثر اور اہل ٹیم ہے بھی یا نہیں جو ان کے خواب کو تعبیر میں بدل سکے۔ہاں عمران کی ایک خوبی یہ ہے کہ عمران جو چاہتے ہیں جو سوچتے ہیں کھل کر بتاتے ہیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں وہ دلیل اور منطق سے خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے بہتی سی ریڈ لائن کراس کر جاتے ہیں۔ عمران خان کو یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ وہ ایک ساتھ کتنے محاذوں پر الجھتے جا رہے ہیں۔ شاید عمران کا یہ اندازہ بھی درست نہیں کہ تبدیلی کا پھل پک چکا ہے بس اب اسے توڑنا ہی ہے۔کیونکہ عمران کرکٹ کے میدان کے اس فارمولے پر کاربند ہیں کہ بیسٹمین خوفزدہ ہے اس لئے بائونسرز مارتے جائو دیکھیں وقت کیسے بدلتا ہے کراچی کی سیاست میں کچھ کر گزرنے کی خواہش نے انگڑائی لی۔ تو کامران ٹیسوری کو کراچی کی سب سے بڑی سرکاری رہائش گاہ میں لا بٹھایا گیا ۔ظاہر تھا اس کا کچھ نہ کچھ مطلب تو تھا۔ پھر سب نے دیکھا ایک ایسی پارٹی کو یکجا کرنے کا مشن سرانجام دیا گیا۔ جو اپنے عروج کے دورمیں طاقت کے تمام ریکارڈ توڑ چکی تھی۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ کسی راستے پر ایم کیو ایم کا ایک ساتھی بھی کھڑا ہو جائے تو پولیس بھی راستہ بدل لیتی تھی۔جس کے لیڈر کی ایک آواز پر لاکھوں کا مجمع ہو یا ملک کا وزیر اعظم۔ سب خاموش ہو جاتے تھے پھر اس کی بنائی ہوئی پارٹی اپنی فیس سیونگ کے لئے انتخابی میدان کے راستے پر جانے سے کترا رہی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نئے ترتیب والے منظر کا مقصد شاید یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو لگام دی جائے۔ یہ کھیل ہر دور میں کھیلا جاتا رہا ہے اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کس کس طرح کس کس کا راستہ مسدود کیا گیا اور دوسرے فریق کے لئے کشادگی کے کیا کیا راستے بنائے گئے۔کہیں آپریشن ہوئے اور کہاں کہاں قوم کو حیران کردینے والے واقعات رونما ہوئے یہ سب ہماری یادداشت کا حصہ بنتے رہے ہیں ۔ہماری تاریخ میں کسی ایک شخص کے کردار کو لے کر اس کے پورے کیریئر پر پردہ ڈالا جاتا رہا ہے بعض لوگ ضیاء الحق کی انکساری کو بیان کر کے ان کے مارشل لاء کی خونخواری کو جائز قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔بدلی ہوئی دنیا میں جنرل (ر)باجوہ سے بہت سے مشکل اور نازک سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس فکر میں ہے کہ کس طرح کوئی ڈیٹرجنٹ استعمال کر کے دامن پر لگے دھبے اور داغوں کو دھو سکے۔حالات اور وقت انداز اور تیور بدلتا رہتا ہے کہیں کوئی سینہ تان کر دھڑلے سے اپنی آواز بلند کرتا ہے کہیں کوئی دبک جاتا ہے، سہم جاتا ہے کہیں کوئی چھوٹی سی بات ہضم نہیں ہوتی اور کہیں بڑی بڑی باتیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں۔ہر ایک کو اقتدار سے بہت پیار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہر قسم کے کمپرومائز پر تیار ہے۔کئی ریڈ لائن کراس کر کے پی ٹی آئی یہ تاثر دینے کوشش کر رہی ہے کہ وہ بڑی بہادری سے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہی ہے۔لیکن شاید کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اسے یہ کہانی ضرور سنا رہے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر شاید اب ان کی سیاسی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہی، یہ درست ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا میکنزم بلدیاتی انتخابات سے مختلف ہو تا ہے لیکن اپنے چار سالہ دور حکومت میں پی ٹی آئی نے کراچی کو جس طرح نظرانداز کیا اور صرف دعووں اور وعدوں پر اکتفا کرتے رہے۔ سیاسی جماعتوں کی شہرت اور مقبولیت اسی طرح کریش ہو جاتی ہے جس طرح اسٹاک ایکسچینج کریش ہوتی ہے کراچی کی سیاست کے حوالے سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ایم کیو ایم کا ٹائیٹنک ڈوب رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ کراچی سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں ایک نیا موڑ اپنی تماتر حقیقتوں کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ جس بنیاد پر ایم کیو ایم نے حیرت انگیز عروج کا دور دیکھ تھا اس رومانس کا دیا اب ٹمٹانے لگا ہے۔اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے کسی بڑی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہیں اس کا جواب بہت سیدھا سادا ہے وہ کچھ نہیں ہوا جس کا وعدہ کیا گیا تھا وہ توقعات وہ امیدیں جو کراچی میں رہنے والی اکثریتی آبادی اردو سپیکنگ نے ایم کیو ایم سے وابستہ کی تھیں پوری نہیں ہوئیں۔ایم کیو ایم نے طرز انداز اور طرز فکر نے وہ روشن راستے متعین نہیں کئے جن کی ان سے توقع کی گئی تھی یہ سوچنا تو ایم کیو ایم کی قیادت کا کام ہے کہ اتنی منظم جماعت کا شیرازہ بکھرا مجھے ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی سیاست بدل رہی ہے۔لوگوں کے عمومی مسائلبڑھتے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ تعلیم صحت اور امن و امان کی مسائل ہر شہری کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں مہنگائی نے ہر کسی کے کس بل نکال دیے ہیں کراچی کا پورا انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں ڈرینج اور نکاسی آب کا پورا ڈھانچہ خستہ حال ہے۔صفائی کا کوئی مربوط اور منظم نظام نہیں ہے جس نے شہر کے ہر کونے کو کچرا کنڈی بنا کر رکھ دیا ہے بجلی کے لمبے چوڑے بل اور لوڈشیڈنگ کا عذاب آدھے سے زیادہ کراچی میں گیس پریشر کم ہونے کی شکایت عام ہیں۔پیپلز پارٹی گزشتہ 14سال سے سندھ کی حکمران ہے لیکن ابھی تک کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ساتھ ساتھ سیاسی اور معاشی بحران کا حل غیر مقبول وفاقی حکومت کے پاس بھی نہیں ہے اس صورتحال سے نکلنے کے لئے راست اقدامات کی ضرورت ہے۔معیشت اندرونی انتشار سے آزادی چاہتی ہے۔فوج پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہے۔سیاسی اور معاشی دلدل سے نکلنے کے لئے حل طلب سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈ نا ضروری ہے۔کوئی مطلوبہ تبدیلیوں کا فارمولا بن جائے، آئیے مہلت ختم ہونے سے پہلے سوچیں۔ ٭٭٭٭٭
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں جمعه 20 جنوری 2023ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں