ہفتے کی صبح زمان پارک میں جو کچھ ہوا‘وہ انتہائی افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی۔اگر حکومت یہ سوچتی ہے کہ ایسے منفی ہتھکنڈوں سے عمران خان کو شکست دے گی یا اگلے انتخابات میں کلین سویپ کر ے گی تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے‘عمران خان مقبولیت اور کامیابی کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے انہیں شکست دینا ناممکن ہو چکا۔ عمران خان کی حب الوطنی اگر مشکوک ہے تو یاد رکھیں اس ملک میں کوئی بھی محب ِ وطن نہیں‘دشمن بھی جانتے ہیں کہ عمران خان نے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور دنیا میں پاکستان و اسلام کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے جو کوششیں کیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ پندرہ مارچ کو جب پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کا دن منایا جا رہا تھا‘ہمارا وزیر خارجہ جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا پر لیکچر دے رہا تھاعین اسی لمحے اس شخص پر گولیاں برسائی جا رہی تھیں جس نے اسلامو فوبیا کا مسئلہ سب سے پہلے جنرل اسمبلی میں اٹھایا اور پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا کا دن مقرر کروایا تھا۔اس سے بڑے دکھ کی بات یہ کہ گولیاں برسانے والے انڈین یا اسرائیلی نہیں تھے بلکہ اس کی اپنے ملک کی پولیس تھی جس کا اپنا پچھتہر سالہ ریکارڈ افسوس کی حد تک ناقابلِ بیان ہے۔ گولیاں برسانے اور شیلنگ کروانے والے وہ لوگ ہیں جو گزشتہ تین سے چار دہائیوں سے اس ملک پر مسلط ہیں‘جنھوں نے اس ملک کو لوٹا‘جن لوگوں نے توشہ خانے میں صابن تک نہ چھوڑے‘ جنھوں نے ملک کی اکانومی کواس مقام پر لا کھڑا کیا کہ کوئی دوست ملک سلام لینے کو بھی تیار نہیں‘سب جانتے ہیں کہ ان سے سلام لیں گے تو یہ پیسے مانگ لیں گے اور پھر واپسی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ عمران خان کو توشہ خانہ میں فردِ جرم عائد کروانے کی خاطر امپورٹڈ حکومت نے کیا کچھ نہیں کیا‘ایس پی نے چار بار بیان بدلا اور پوری پلاننگ کی کہ کسی طرح سے عمران خان پر فردِ جرم عائد ہو‘اسے جیل بھیجا جائے یا نااہل قرار دیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔زمان پارک آپریشن کے بعد وزیر داخلہ اور آئی جی پنجاب جس ڈھٹائی سے قوم کو یقین دلانے کی ناکام کوشش کرتے رہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف دہشت گرد ہیں اور خدانخواستہ یہ ملک کے لیے خطرہ ہیں۔زمان پارک آپریشن کو جس نے بھی پلان کیا یااس سانحے کا جو بھی اسکرپٹ رائٹ تھا‘اس کی ناکامی اور نااہلی بالکل واضح ہے ۔حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ ان کا سکرپٹ رائٹر بہت کمزور ہے یا پھر وہ حکومت کا ہی دشمن ہے۔اسکرپٹ رائٹر نے عمران خان کو گرانے کے جتنے بھی حربے آزمائے‘وہ عمران خان کے خلاف جانے کی بجائے نون لیگ اور پی ڈی ایم کے خلاف جاتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ اب عوام کے دلوں میں عمران خان کی محبت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اس کے لیے جان قربان کرنے کو بھی تیار ہیں۔دوسری جانب آپ شہباز شریف اور مریم نواز کے من پسند صحافیوں کو دیے گئے پلانٹڈانٹرویوز ملاحظہ فرمائیں اور ان سے اندازہ لگا ئیں کہ وہ کس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ عمران خان پر جس لمحے شیلنگ ہو رہی تھی اور حکومت اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھی‘عین اسی لمحے عمران خان عالمی میڈیا پر انٹرویوز دے رہے تھے اور حکومت کے اوچھے اور منفی ہتھکنڈوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہے تھے۔زمان پارک میں جیسے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘عورتوں پر ہاتھ اٹھایا گیا اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا‘یہ سب واپس بھی آ سکتا ہے‘دنیا مکافاتِ عمل ہے لہٰذا آئی جی پنجاب‘نگران وزیر اعلیٰ‘حکومت اور آپ سب نے جو کچھ زمان پارک میں کیا‘بس یہ سوچیں کہ یہی سب کچھ اگر آپ کے ساتھ ہوا تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟حکومتی اسکرپٹ رائٹر کی نااہلی کا اندازہ لگائیں‘ کبھی کہتا ہے کہ زمان پارک سے اسلحہ برآمد ہوا‘کبھی کہتا ہے منشیات بھی تھیں اور کبھی پٹرول بموں کی کہانی بھی سنائی جا رہی ہے‘کیا یہ سب قابلِ یقین ہے؟جب آئی جی پنجاب اور وزیر داخلہ میڈیا بریفنگ میں زمان پارک آپریشن کی کہانی سنا رہے تھے تو یہ خطرہ بھی لاحق ہو گیا کہیں وزیر داخلہ یہ نہ فرما دیں کہ زمان پارک سے ایک سرنگ بھی برآمد ہوئی ہے جو انڈیا اور اسرائیلی تک جاتی ہے‘حیرت تو یہ ہے کہ زمان پارک سے اتنا کچھ برآمد ہوا مگر دوائی لینے کے بہانے ملک سے جانے والے نواز شریف برآمد نہ ہو سکے۔ موجودہ سیاسی جنگ و جدل میں اگر حکومت اپنی نااہلی چھپانا چاہتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ اپنی رہی سہی عزت بچ جائے تو الیکشن عدالت کے دیے گئے وقت پرکروائے تاکہ سچ سب کے سامنے آ سکے‘اگر حکومت کو لگتا ہے کہ وہ کلین سویپ کرے گی تو الیکشن میں دیر کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی‘ عمران خان کو راستے سے ہٹانے کا واحد طریقہ انتخابات ہیں‘اس کے علاوہ جتنے بھی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں‘وہ سب عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔حکومت کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ عمران خان کے کارکنان بھی ہمارے کارکنان جیسے ہیں جو وقت پڑنے پر بھاگ جاتے ہیں‘موجودہ سیاسی انتشار میں عوام جیسے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے‘تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا دیکھا گیا‘سو سے زائد مقدمات میں گھسیٹا گیا شخص اتنا مقبول اور ناگزیر ہو جائے گا‘شاید حکومت اور اس کے سہولت کاروں نے سوچا بھی نہ تھا۔حکومت اور اس کے حامیوں کی نااہلی سے عمران خان اس قدر طاقت ور ہو چکے ہیں کہ ان کی شکست ناممکن ہو چکی‘اب کوئی بھی منفی بیانیہ انہیں سے عوام کو دور نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر مجھے نکالو گے تو میں زیادہ خطرناک ہو جائوں گا ‘ایسا ہی ہوا‘اب بھگتو عمران خان کو ۔ ٭٭٭٭