آرٹیکل چھ کے تحت آئین کی پامالی کے حوالے سے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف کا ٹرائیل خصوصی عدالت میںمکمل ہوا اور اسکا فیصلہ بھی سنا دیا گیا اس حوالے سے بہت سے تبصرے اور رد عمل آ رہے ہیں جس میں سب سے سخت بیان انکے اپنے ادارے کی طرف سے آیا۔ اسکی شدت اور غصے کو مجھے سمجھنے میں اس لئے دقت نہیں ہو رہی کہ جب جنرل مشرف نے ملک میں مارشل لاء لگایا تھا اور چیف ایگزیٹو کا عہدہ سنبھالا مجھے سرکاری نیوز ایجنسی (اے پی پی) کے فارن ایڈیٹر ہونے کے ناطے انکے ساتھ قریباً پانچ سال کام کرنے کا موقع ملا۔ زندگی میں پہلی بار فوج کو ایک entity کے طور پر بہت قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک خاندان ہے اور ایکدوسرے سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ کسی معمولی سے معمولی معاملے پر بھلے جوان کے متعلق ہو یا جنرل کے بارے میں وہ ایک طرح سے ہی رد عمل دیتا ہے۔ لیکن آج میں فوج کے بارے میں نہیں بلکہ اپنی ان یادوں کو آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں جو ان پانچ سالوں کے چند واقعات پر مشتمل ہے۔ ٹیک اوور تو جنرل مشرف نے کر لیا لیکن آہستہ آہستہ وہ انہی لوگوں میں گھرتے چلے گئے جو ہمیشہ حکومت کا حصہ رہنے کا گر جانتے ہیں۔فوجی حکمران کوماہر قانون کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اسکے غیر آئینی اقدام کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے عدلیہ سے تائید دلوا سکے۔ جس رات جنرل مشرف نے ٹیک اوور کیا اسی رات صبح کے پہر پہلا رابطہ حفیظ پیرزادہ مرحوم سے کیا گیا۔ وہ اس وقت اسلام آباد میں تھے انکا گھر تلاش کر کے کچھ لوگ انکے ہاں پہنچے اور انہیں کچی نیند سے اٹھا کر آفر کی لیکن حفیظ پیرزادہ نہ مانے۔ بعد میں بھی انہیں کافی قائل کرنے کی کوششیں ہوئیں لیکن انکا ایک ہی موقف رہا کہ جس آئین کو پامال کرنے پر آرٹیکل چھ لگتا ہے وہ انکی کاوشوں کے نتیجے میں تشکیل پایا تھا وہ کیسے خود اسکی پامالی میں حصہ دار بنیں۔بادل ناخواستہ جنرل مشرف کو شریف الدین پیرزادہ ہی ملے جو ہر ڈکٹیٹر کے قانونی مشیررہے اور نظریہ ضرورت کے فروغ میں انکا کلیدی کردار رہا۔انہوں نے جنرل مشرف کا کیس خوب لڑا اور جسٹس ارشاد حسن خان جو کہ چیف جسٹس تھے، نے انکے ٹیک اوور کوخوب تحفظ فراہم کیا۔ جس روز سید ظفر علی شاہ کے مشرف کے ٹیک اوور کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا تھا میں اور ہمارے ساتھی رفاقت حسین جو کہ اس وقت ڈان کے ساتھ منسلک تھے(آجکل بی بی سی لندن میں کام کر رہے ہیں) سپریم کورٹ کے کاریڈور میں کورٹ نمبر ون کی طرف جا رہے تھے کہ شریف الدین پیرزادہ سے ملاقات ہو گئی۔ ان سے جب امکانی فیصلے کا بارے میں پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئے کہ، فیصلہ ہماری توقعات سے بہتر ہو گا۔ ایسا ہی ہوا،’’ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا‘‘ وہ بھی عدالت نے کر دی۔سارے مقدمے کو دوران کسی فریق نے جنرل مشرف کے لئے آئین میں تبدیلی کے اختیارات کی استدعاکی تھی نہ اس بارے میں کوئی ذکر تک تھا۔ جب فیصلہ سنایا گیا تو عدالت نے کمال فراخدلی کو مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو آئین تبدیل کرنے کا اختیار بھی دیدیا جو بذات خود آئین کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن جسٹس ارشاد حسن خان ایسے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ نہ صرف اپنی چیف جسٹس کے طور پر مدت پوری کی بلکہ ریٹائر ہوتے ہی چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ اس خدمت کے صلے میں پایا۔ اس عہدے پر براجمان ہونے کے لئے انہوں نے جنرل مشرف کے چیف آف سٹاف جنرل حامد جاوید (مرحوم) کوکتنا زچ کیا اسکی کہانی پھر کبھی سہی۔ جسٹس ارشاد حسن خان نے2002 ء کا بدنام زمانہ ریفرنڈم بھی کرایا اور ایک بار پھر اپنی بھرپور صلاحیتوں کامظاہرہ کیا۔ جب ریفرنڈم کا رزلٹ آیا تو پتہ چلا کہ کل ووٹوں سے بھی زیادہ تناسب سے رزلٹ تیار ہوا ہے۔ فوری طور پر اس غلطی کے ازالے کے لئے کام شروع ہوا اور فی صد تناسب 97 پر لایا گیا جو جانے انجانے میں103فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ریفرنڈم کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر بہت ضروری ہے۔ جنرل مشرف نے ریفرنڈم سے پہلے بہت مشاورت کی۔ ایک دن کابینہ کا اجلاس کابینہ ڈویژن کی عمارت میں جاری تھا ہم سرکاری میڈیا کے نمائندے باہر صوفوں پر براجمان تھے کہ اندر سے بہت زور زور سے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ دیر بعد معلوم پڑا کہ کابینہ کے کچھ ارکان ریفرنڈم کے حق میں نہیں تھے، انکا خیال تھا کہ جس دن جنرل مشرف ریفرنڈم کا اعلان کرینگے ان کا موازنہ جنرل ضیاء سے شروع ہو جائے جو کہ انکے لئے کسی Disasterسے کم نہیں ہو گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت کابینہ میں بھر پور اختلاف رائے ایک عام سی بات تھی اور اس وجہ سے کسی وزیر کی نوکری نہیں گئی۔اور یہ کہ اہم معاملات پر سیر حاصل بحث ہوتی تھی۔جب جنرل مشرف نے انتخابات کا فیصلہ کیا اور ملک کی باگ ڈور سیاستدانوں کے ہاتھ میں آئی تو مرضی کے نتائج کے باوجود سیاسی قیادت نے اسی طرح کاروبار حکومت چلانے کی کوشش کی جس طرح گزشتہ جمہوری ادوار میںہوتا آ رہا تھا۔ من پسند لوگوں کی حکومتی عہدوں پر بھرمار کر دی بھلے کوئی اسکے قابل تھا یا نہیں۔ ذاتی دوستوں کو اپنے مشیر مقرر کر لیا۔ جسکے بعد معاملات حکومت دگر گوں ہونے شروع ہو گئے۔ اسکی بہتری کے لئے جو کاوش کی گئی وہ بھی کوئی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ظفر اللہ جمالی کی جگہ شوکت عزیز کے انتخاب کے بارے میں ایک سیانے نے کہا کہ ایک اچھا وزیر خزانہ کھو کر جنرل مشرف نے ایک برا وزیر اعظم پا لیا ہے۔وزیر اعظم ہونے کے ناطے ارکان پارلیمنٹ انکے سامنے بچھے جاتے تھے لیکن انکی کوئی سیاسی ساکھ نہیں تھی جس کی وجہ سے اقتدار سے فارغ ہوتے ہی وہ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ حالانکہ وہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے وزیر اعظم تھے۔اگلے کسی کالم میں افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کی سازش،جو بالآخر مشرف کی فراغت کا باعث بنی ، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور کچھ دوسری شخصیات کے کردار کے بارے میں ضرور ذکر ہو گا۔