تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تونے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا یہ تو ہم بعد میں بات کریں گے کہ ہمارے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ کبھی ہماری چیخیں نکلوائی جا رہی ہیں اور کبھی سخت موسموں کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہنے کا کہا جا رہا ہے۔ پہلے ذرا فیصل واوڈا کا بیان پڑھ لیں کہ قوم 200روپے لیٹر پٹرول بھی برداشت کرے گی۔ ایک تو یہ واڈا کس قدر غیر شاعرانہ نام ہے اور پھر ان کے بیانات عجیب و غریب بلکہ غریب و عجیب ہوتے ہیں۔ بعض اوقات سمجھ میں نہیں آتا کہ بندہ ہنسے یا روئے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ کوئی بات سوچ سمجھ کر بھی کرتے ہوں۔ وہ بقول منیر نیازی بعض لوگ صرف منہ کھولنے کا تکلف کرتے ہیں۔ بھائی جان فیصل صاحب! آپ کا یہ بیان اطلاع ہے یا خواہش یا پھر کچھ اور! کچھ کھل نہیں پایا۔ کہیں آپ عوام کا مذاق تو نہیں اڑا رہے۔ آپ نے یہ کہاں سے اندازہ لگا لیا کہ 200روپے لٹر پٹرول برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بہتر ہے آپ بے چاروں پر سچ مچ پٹرول چھڑک دیں۔ ابھی میں کالم شروع کرنے والا تھا کہ معروف شاعر اقتدار جاوید کی پوسٹ پر نظر پڑ گئی وہ بلا ناغہ ایک عدد فارسی کا شعر لگا دیتے ہیں جو اکثر لطف دے جاتا ہے بیدل کہتے ہیں: بے حیارانیست در چنتہ بغیر از ناسزا سگ اگر عف عف کند من بے تکلم می شود چنتہ کا معنی کیسہ یا کشکول ہے۔ بیدل کہتے ہیں بے حیا کے لئے یہی سزا کافی ہے اس کے کشکول میں ملامت کا سکہ بھی نہ ڈالا جائے(مفہوم یہی بنتا ہے) یہاں سعدی بھی یاد آتے’’غوغائے رقیباں کم نہ کند رزق گدارا‘‘ مقصد کہنے کا یہ ہے بعض لوگوں کی باتوں پر دھیان انتہائی غیر ضروری ہوتا ہے۔فیصل عجمی نے کیا خوب کہا تھا: پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا لیکن کیا کریں کہ کشکول تو نواز شریف نے بھی توڑا تھا اور پھر کشکول سے بڑ کی کوئی شے رکھ لی۔ خزانے کو جی بھرکر اڑایا۔ عمران خان آیا تو اسے بھی کشکول ہی اٹھانا پڑا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس نے کشکول عوام کے لئے اٹھایا ہے۔ آپ اس سے اختلاف کریں مگر یہ میرا احساس ہے۔ دلیل اس کی یہ کہ اس کی ہزار غلطیوں کے باوجود اکثریت اسے ایماندار اور دیانتدار سمجھتی ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی اس کی کامیابی کی دعا کرتی ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں واوڈا جیسے اسے 200روپے فی لیٹر پٹرول سے ڈراتے رہیں۔ باقی سب کچھ ٹھیک ہے مگر ان بڑھکیں مارنے والوں میں دانائی اور متانت کا فقدان ہے۔ اب تو پچاس لاکھ مکان اور ایک کروڑ نوکریاں مذاق سا بن کر رہ گئے ہیں۔ واوڈا صاحب نے ایک ڈیڈ لائن بھی دی تھی کہ اس کے بعد اچھے دنوں کی گنتی شروع ہونا تھی۔ لوگ یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں۔ وہ بھی ڈسے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی امیدوں اور وعدوں کا جال بچھاتا ہے اور عوام مچھلیوں کی طرح اس میں آن پھنستے ہیں۔ پھر جب وقت آتا ہے تو کون کس کے کام آتا ہے۔ جانے والا انہیں آنے والوں کے حوالے کرجاتا ہے۔ ویسے تو کوئی اپنی مرضی سے آتا جاتا نہیں۔ دارو مدار اس پر ہے کہ کون کتنا ہرجانہ دیتا ہے۔ ہر جانے سے مراد عوام کے پیسوں سے حصہ‘ جو حصہ بقدر جثہ ہے کیا کریں ہمیں بھی یہیں رہنا ہے’’جنگل سے کب نکلتے ہیں آہو ڈرے ہوئے‘‘ ایک خوبصورت شعر عدیم ہاشمی کا ستا رہا ہے: تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آوے لوگ ریلیف چاہتے ہیں‘ سچ مچ کا ریلیف۔ وہ نہیں جس سے لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ اب عمران خان نے پیٹرول کی قیمتوں کے اضافے کو موخر کروایا تو لوگوں کو ایک گونہ آسودگی کا احساس ہوا۔ مگر اب عوام ایک با پھر پریشان ہو گئے ہیں واوڈا کے بیان سے تو ہم ہل سے گئے ہیں کہ شاید یہی اصل اور پالیسی بیانیے کہ کوئی لمبی چھوڑ کر لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ ایسی باتیں تو محاورتاً بھی اچھی نہیں لگتیں۔ یہ درست کہ لوگ عمران کی محبت میں گرفتار ہیں مگر اس محبت کا فائدہ زیادہ تر طفیلی اٹھا رہے ہیں یا اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال ایسی یک طرفہ محبت میں کیا ہو گا۔ چلیے آپ یک طرفہ نہ کہیں تو یہ اس شعر سے عیاں ہو سکتی ہے: میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں حفیظ شیخ کا بیان بھی سکرین پر چل رہا تھا کہ ان کے بقول پٹرول کی قیمتیں حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔ ایک پٹرول ہی کیا حکومت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ میں جو کچھ لکھتا چلا جا رہا ہوں یہ حکومت کے لئے کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ ان کا ایشو یہ ہے کہ نواز شریف اگر بیمار ہیں تو چل پھر کیسے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی ڈیل بھی نہیں ہو رہی پھر وہ باہر کیسے چلے جائیں گے۔ دوسرا ایشو یہ کہ شہباز شریف آج کل کیا کر رہے ہیں۔ اس تاثر کو اجاگر کرنا کہ شریف فیملی کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ بلاول کو ہم میں لایا جا رہا۔ باری بھی انہی کی تھی۔ ایک پرندا اڑ گیا اور ایک پر تول رہا ہے۔ کتنی پرانی بات ہے کہ جب نواز شریف نے جدہ کے لئے اڑان بھری تو میں نے فی البدیہہ گرہ لگائی تھی: یک بیک قید سے یہ تیرا رہا ہو جانا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا پھر سپورٹرز کے لئے تو بہانوں کی کو کونسی کمی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کی سنی گئی وہ مقدس مکان پر پہنچ گئے۔ دوبارہ پھر ان کی سنی گئی اور وہ واپس آ گئے مگر معاہدہ پورا ہونے کے بعد‘ وہی معاہدہ جس سے یکسر انکار کیا گیا جو پانچ سال اور بعدازاں دس سال کا مان لیا گیا معاہدہ یا این آر او تو بے نظیر نے بھی کیا تھا اور پھر ایک معاہدہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی کیا۔ جس کے تحت 18ویں ترمیم آئی اور اپنے اپنے قلعے مضبوط کر لئے گئے۔ بڑے اچھے انداز سے وفاق کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ صوبوں کے وسائل برباد ہونے لگے کنویں کی مٹی کنویں کو لگنے لگی۔ جب خزانہ ہو تو پھر سانپ بھی آ جاتا ہے۔ ’’بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ‘‘ قارئین کے لئے دو اشعار: اس سے ٹوٹا جو تعلق تو کہاں ہوش رہا گھنٹیاں بجتی رہیں اور میں خاموش رہا وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک آیا اور میں تھا کہ برابر ہمہ تن گوش رہا