قیام پاکستان کے بعد 1950ئ‘ 1956‘ 1957‘ 1973‘ 1976ء ‘ 1978ء ‘ 1988‘ 1992 اور 2010ء میں خطرناک سیلاب آئے‘برصغیر کے اس خطے میں 1922ء سے اب تک تباہ کن سیلاب آتے رہے ہیں‘یہ سیلاب، پنجاب اور سندھ کے دریاؤں میں طغیانی پیدا ہونے اور اس سے متعلقہ ندی نالوں اور دیگر گزرگاہوں کو نقصانات سے دو چار کرتے آرہے ہیں۔کے پی کے‘بلوچستان‘ فاٹا‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ان دریاؤں کے علاوہ پہاڑوں کی برفوں سے پگل کر آنے والا پانی تباہی کا اصل موجب ٹھہرتا ہے۔انڈس کی پٹی جیسے جہلم اور چناب سیلاب کی وجہ بنتے چلے آرہے ہیں‘دریائے راوی‘پنجاب اور سندھ جبکہ پہاڑوں سے آنیوالا پانی کے پی کے‘بلوچستان‘ گلگت بلتستان‘ فاٹا‘ آزاد کشمیر اورجنوبی پنجاب کے اضلاع کو متاثر کرتے ہیں۔چارسدہ‘مردان‘نوشہرہ‘پشاوراور سوات سمیت کے پی کے میں بیشتر علاقے دریائے کابل‘ پنجگورہ اور سوات سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں کئی بڑے شہروں کے سیلاب سے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔ وطن عزیز کے بڑے شہروں میں کراچی‘ راولپنڈی اور لاہور ناقص سیوریج کے نظام کے باعث تیز بارشوں کے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔پاکستان اور برصغیر خطے میں انڈس ریور سسٹم سے براہ راست منسلک ہے‘جس میں پانچ بڑے دریا انڈس‘ جہلم‘ چناب‘ راوی اور ستلج بہتے ہیں‘ انڈس ریور سسٹم میں کابل‘ سوات اور پنجگورہ کے سلسلے بھی شامل ہیں جبکہ جہلم اور چناب کو مغربی دریاؤں‘راوی‘ بیاس اور ستلج کو مشرقی دریاؤں کے طور پر پہنچانا جاتا ہے‘ اس کے علاوہ چند دریاؤں‘پہاڑوں اور دیگر ذرائع سے ان دریاؤں میں شامل ہونیوالے پانی اور اس کے نقاص کو انڈس ایریگیشن سسٹم کہا جاتا ہے‘یہ سلسلہ مون سون کی تیز اور متواتر بارشوں جبکہ برف کے غیر روائتی طور پر تیزی سے پگلنے کے بعد بپھر جاتا ہے اور سیلاب کی تباہ کاریاں سامنے آجاتی ہے۔ انڈس پٹی کی بڑی خوبی ہے کہ یہ دنیا کے سات بڑے پہاڑی سلسلوں کی برفوں اور چشموں کے پانی کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد سات بڑے پہاڑی سلسلے کے ٹو‘ناگہ پروت‘ راکا پوشی وغیرہ کا پانی انڈس اپنے دامن میں سمیٹتا ہے‘ اسی طرح سات گلیشیر سیاہ چین‘ہسپار وغیرہ جو دنیا کے بڑے گلیشیر ہیں، اس میں شامل ہوتے ہیں‘ پاکستان کا آبپاشی نظام دنیا میں اپنے نیٹ ورک کے اعتبار سے بڑا ہے‘یہ 42 ملین ایکڑ زرعی زمین کو پانی فراہم کرتا ہے‘ اس آبپاشی نظام کا انڈس ریور سب سے بڑا معاون ہے‘پاکستان میں سیلاب کی وجوہات میں بارشوں کا مون سون کے موسم میں زیادہ ہونا‘موسمیاتی تبدیلیوں اور ہیٹ ویوکے باعث پہاڑوں سے پگلنے والے گلیشیر‘سیلاب اور تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین موسمیات کے مطابق بحر بنگال میں مون سون سے طغیانی پیدا ہوتی ہے‘جس کے نتیجہ میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں مون سون کے موسم میں شدید تیز بارشیں ہونا قدرتی عمل ہے‘ اس میں بحر ہند کے پانی کی سطح بڑھنے کا عمل دخل بھی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا موجب بن جاتا ہے۔گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا میں تباہی برپا کررہی ہے‘ جن میں سیلاب اور طوفان شامل ہیں‘دنیا کا ماحولیاتی بحران پاکستان میں سیلاب کی ایک بڑی وجہ ہے‘آپ دنیا کے ماحولیاتی بحران کا اندازہ روس کے جنگلات میں لگنے والی پے در پے آگ اور چین میں لینڈ سلائڈنگ کے واقعات سے لگا سکتے ہیں‘پاکستان میں بھی سیلاب سے چند ہفتوں پہلے یکے بعد دیگرے کئی جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی اور کئی کئی دن تباہی برپا کرتی رہی‘اس آگ میں ہمارا نایاب چلغوزوں کا بڑا جنگل بھیراکھ کا ڈھیڑ بن کر رہ گیا‘لہذا سابق وزیر اعظم عمران خان جب دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی یعنی گلوبل وارمنگ کا ذکر کرتے تھے‘ پاکستان میں اس کے خدشات کے بارے میں بتاتے تھے تو ہم انکا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ آج یہ بات سب کے سامنے ہے‘ 2010ء میں پاکستان کو سیلاب سے جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ اس خطہ جہاں وطن عزیز پاکستان واقع ہے‘80سالوں میں بدترین اور شدید طوفان تھا۔جولائی 2010ء میں موسم برسات کے دوران شدید بارشوں کا سلسلہ کے پی کے‘سندھ‘پنجاب کے نشیبی علاقوں اور بلوچستان میں شروع ہوگیا‘ 2010ء کے سیلاب کی ہولناک تباہی کے بہت سارے متعلقہ محکمے اور افسران ذمہ دار تھے‘جس پر ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا‘اس کمیشن نے انتہائی موثر تجاویز اور قابل عمل سفارشات پیش کی تھیں تاکہ آئندہ وطن عزیز کو سیلاب کی زیادہ سے زیادہ تباہ کاریوں سے بچایا جاسکے۔ویسے تو کالا باغ ڈیم سمیت زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کرکے سیلاب کی تباہ کاریوں کو مکمل طور پر روکا جاسکتا ہے، اگر 2010ء کے سیلاب کمیشن کی تجاویز پر عمل کیا جائے لیکن افسوس اس کمیشن کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔جوڈیشل کمیشن نے جن افسران کو سزا دینے کی تجویز دی تھی‘انہیں سزا کی بجائے ترقیاں دیدی گئی‘2010ء کے سیلاب کی نشاندہی گزشتہ روز گروپ ایڈیٹر 92نیوز ارشاد احمد عارف نے 92نیوز کے پروگرام ’’ہو کیا رہا ہے‘‘ میں کی تو ذہن میں آیا کہ اس وقت وطن عزیز میں جہاں سیلاب کی تباہ کاریاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں‘ اربوں‘ کھربوں روپے کا انفراسٹکچر ملیامیٹ ہوچکا‘ 3کروڑ 30لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے‘ 22کروڑ کی آبادی کے ملک میں متاثرین کی یہ شرح پندرہ فیصد سے زائد بنتی ہے‘صرف رپورٹ ہونیوالی اموات 1200سے زائد ہیں‘ہزاروں افراد زخمی ہیں‘ اربوں روپے کے مویشی‘کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں‘2010ء کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی عمل میں لا کر سفارشات و تجاویز پر عمل کرلیا جاتا تو شاید آج ملک اتنے نقصانات سے دوچار نہ ہوتا لیکن اس مرتبہ میٹ‘این ڈی ایم اے کے انکشافات کیا ہیں؟ ذمہ دار کون ہیں؟ آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کی تجاویز پر عمل کون کریگا؟ یا اسی طری ہم ملک اور غریب عوام کے "قتل عام" کا باعث بنتے رہیں گے !!!