آج میرے گوالے نے بات کر کے مجھے حیران کر دیا کہ وہ ڈیم بنانے کے لیے چندے میں حصہ ڈال رہا ہے۔ میرے پیارے معززین گوالوں یعنی دودھ دوہنے والوں کے بارے میں میرا بھی وہی نظریہ ہے جو آپ کا ہے کہ خالص دودھ صرف کٹا ہی پیتا ہے۔ لیکن ایسی بھی بات نہیں آپ ذرا کوشش کریں تو خالص دودھ مل جاتا ہے ہاں مہنگا ضرور پڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یعنی گوہر نایاب پانے کے لیے آپ کو بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے‘ کئی دودھی بدلنے پڑیں گے آخر آپ گوہر مراد پا لیں گے ایک دودھی کو میں نے رمضان شریف میں سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا تو سگریٹ پینے سے منع کیا وہ کہنے لگا شاہ جی جانے دیں۔ روزہ رکھیں تو آپ کہیں گے روزہ رکھ کر دودھ میں پانی ڈالتا ہے‘ اچھا گوالا وہ ہے جو صاف پانی دودھ میں ڈالتا ہے یا پھر سوکھے دودھ سے دودھ بناتا ہے تو نئی واشنگ مشین میں۔ میں کیا کروں کہ ہم خالص دودھ کے عادی ہو چکے۔ ہماری بلی بھی بازار کا دودھ نہیں پیتی۔

میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ لوگ جو کسی صورت خالص دودھ نہیں بیچتے۔ بعض تو اتنا پانی ڈالتے ہیں کہ دودھ کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے اگر ڈیم کے لیے چندہ دینے کی بات کریں تو حیرانی تو ہو گی۔ لیجیے مجھے کہاں اپنے دوست ازہر درانی کا شعر یاد آیا جو اس نے جنرل ضیاء الحق کے لیے کہا تھا:

گوالا لاکھ کھائے جائے قسمیں

مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے

لیکن آج مجھے اپنا گوالا منور بہت اچھا لگا کہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کتنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ میں سمجھا کہ وہ قربانی کے حصول کا پوچھ رہا ہے میرے جواب دینے پرکہنے لگا کہ وہ تو ڈیم بنانے والے چندہ کی بات کر رہا ہے۔ وہی ڈیم جس کے لیے چیف جسٹس ثاقب نے بات بڑھائی ہے اور قوم کو انگیخت لگائی ہے۔ ان کی پیاری سی نواسی نے کیسے اپنی عیدی تک جو 7000سے زیادہ تھی ڈیم فنڈ میں دے دی۔ کسی دودھی سے اس معاملے میں چندہ لینا ایسے ہی ہے جیسے چیل کے گھونسلے سے ماس ڈھونڈنا۔

مگر منور نے مجھے بتایا بلکہ مشورہ کیا کہ کیا وہ دس ہزار روپے دے دے۔ سچ مچ میں تو حیران رہ گیا مجھے ایسے لگا جیسے یہ ڈیم بن کر رہے گا۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ثاقب نثار صاحب کی باتیں ہندوستانیوں کو کہاں لڑی ہیں۔ وہ تو بوندل سے گئے ہیں اور ان کا میڈیا اس حوالے سے بہت ہی زہریلا پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ انہوں نے پاکستانیوں کو بھیک منگے اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا ہے کہ وہ جنتا سے بھیک مانگنے پر آ گئے ہیں۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ بھارتیوں کے پیٹ میں ایسے مروڑ اٹھے ہیں جیسے کسی نے ان سے چندہ مانگ لیا انہوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے طرح طرح کی بکواس شروع کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر روزانہ 20لاکھ روپے پاکستانی جمع کریں تو اس کے لیے انہیں ایک سو نوے سال لگ جائیں گے کہ اتنے پیسے جمع ہوں کہ دو ڈیم بن جائیں۔

کچھ ہماری ہی خامیاںہیں کہ جس کے باعث بھارت کی ہم پر طعن و تشنیع کرنے لگے ایک وزیر اعظم نے قرض اتارو‘ ملک سنواروکی تحریک چلائی تھی تو لوگوں نے کیا کچھ نچھاور نہیں کر دیا تھا مگر اس کا بنا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب لوگوں کو الّو بنانے والا معاملہ ہے بھارت نے پہلے ہی ہمارے دریا صحرا بنا دیے ہیں۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ کبھی میں نے ایک گیت لکھا تھا:

نہیں ہے امن کی آشا سے زخم سلنے کا

بغیر جنگ کے پانی نہیں ہے ملنے کا

اٹھو اٹھو کے وطن مانگتا ہے قربانی

وگرنہ جاری رہے گی لہو کی ارزانی

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر بھارتی ماہرین کے بقول جنتا سے قرض لے کر ڈیم بنانے ناممکنات میں سے ہیں تو پھر وہ اتنا چیخ کیوں رہے ہیں۔ میں بھی گومگو میں تھا کہ ڈیم اکائونٹ میں کچھ پیسے جمع کروا دوں مگر میرا گوالا تو بازی لے گیا اس نے تو قربان عید سے پہلے ہی ملک کے لیے قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا۔

اب آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف کہ جس پر میں لکھنا چاہتا تھا کہ گوالے نے میری ساری توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی۔ میں تذکرہ کرنا چاہتا تھا ایک شاندار تقریب کا جو اصل میں معروف شاعر عرفان صادق کے ساتھ ایک شام تھی جس کی صدارت جناب عطاء الحق قاسمی نے کی اور مہمان خصوصی کا اعزاز میرے حصے میں آیا۔ دوسرے مہمانان گرامی میں واجد امیر اور ناروے سے آئے ہوئے محمد ادریس تھے۔ پہلے عرفان صادق کے دو تین خوبصورت اشعار دیکھ لیں:

دھواں بارود کا روکو خدارا

ہماری دھوپ کالی ہو رہی ہے

اندھیری رات سے عہد وفا نبھانے پر

تلی ہوئی ہیں ہوائیں دیے بجھانے پر

جسے بھی میں نے محبت کی سلطنت بخشی

اسی نے دھر لیا اک دن مجھے نشانے پر

یہ تقریب بزم عامل کے تحت منعقد ہوئی جس کی نظامت منزہ سحر نے کی ۔ ایسی محفلوں میں فقرے بازی بھی چلتی ہے۔ ایک شخص نے عرفان صادق کے ایک شعر کو اس لیے پسندیدہ بتایا کہ وہ ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا تھا۔ ویسے اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ یہی مقبولیت ہے۔

عطاء الحق قاسمی نے عرفان کو دس اچھے شعرا میں شامل کیا۔ وہ شاعر جو 45اور پچاس کے درمیان ہیں۔ اب پتہ نہیں شعرا اس پر کیا کہیں گے اس رینج سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ یہ قتیل شفائی جہاں خواتین کا معاملہ آتا ہے تو مجھ سے چھوٹا ہو جاتا ہے اور جہاں صدارت کرنا ہوتی ہے مجھ سے بڑا ہو جاتا ہے گفتگو کرنے والوں میں اقبال راہی‘ ڈاکٹر دانش عزیز‘ رابعہ رحمن‘ ثمینہ سید اور سید ادریس لاہوری تھے۔ خالد محمود آشفتہ تقریب کے روح و رواں تھے۔ آخر میں بھی عرفان صادق کے چند اشعار دیکھ لیں:

میں ترے دست سخاوت کو بھلا کیا کرتا

میرے آگے بھی کبھی میری ہتھیلی نہ ہوئی

سلگتے دشت کو حیرت میں ڈال سکتے ہیں

ہماری آنکھ کی پتلی میں اتنا پانی ہے

اس کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے

جو بوڑھا دھوپ میں دن بھرحناتقسیم کرتا ہے

خوشی کی بات یہ ہے کہ عرفان صادق اپنے عہد کا شعور رکھتا ہے۔ اس کے اکثر اشعار امیداور امنگ سے بھرے ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے کا سچ بیان کرتا ہے اس کی تنظیم کا نام ہی سیوا ہے کہ خدمت خلق کی جائے۔ عہد موجود میں انتہائی ضروری ہے کہ تخلیق کار اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی قوم کو ترغیب دیں ۔