پاکستانی رائے دہندگان ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد اگلی حکومت کا انتخاب کررہے ہوں گے ۔ اگرچہ فعال سیاسی انجینئرنگ اور انتخابات کو کنٹرول کرنے کے حربوں پر بات ہورہی ہے لیکن کل کہانی یہی نہیں ہے۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں خود بھی افراتفری کا شکار ہیں۔ امیدواروں کے انتخاب میں اُن کی چوائس اور پارٹی منشور پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر مجموعی طور پر تمام سیاسی اشرافیہ جمہوری عمل کی جزوی گراوٹ کی ذمہ دار ٹھہرے گی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، پی ایم ایل (ن) کئی ایک سنگین مسائل کی زد میں ہے ۔ ان مسائل کا بظاہر کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے قائدنواز شریف انتخابی سیاست کے لیے نااہل ہوچکے ہیں۔ اُن کا احتساب عدالت میں کیس آخری مراحل میں ہے۔ وہاں سے آنے والی خبریں اُن کے حق میں اچھی نہیں۔ اُن کے بھائی اور سیاسی وارث شہباز شریف کو بھی کئی ایک انکوائریز کا سامنا ہے ۔ اس کی وجہ سے وہ ایسی ملک گیر مہم شروع نہیں کرپائے ہیں جس کی اس مرحلے پر ضرورت تھی ۔ ان کی جماعت پر بعض ادارے اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف اسے چوبیس گھنٹے چلنے والے نیوز چینلز کی یلغار کا سامنا ہے ۔ پی ایم ایل (ن)کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے بے دھڑک ترجمان دانیال عزیز کو پانچ سال کے لیے انتخابی سیاست سے نااہل کردیا گیا ہے ۔کچھ دیگر کے سرپر بھی یہی تلوار لٹک رہی ہے ۔ سابق وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی کو ایک حلقے سے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا، گو اُنہیں بعد میں ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا۔ پی ایم ایل (ن) کے امیدوار شکایت کررہے ہیں کہ اُنہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ یہ شکایات درست ہیں یا غلط ، ایک بات طے ہے کہ ملنے والا پیغام بہت واضح ہے ۔ پی ایم ایل (ن) کی واپسی کی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ یہ بات ملک، جو تیسرے جمہوری انتقال ِ اقتدار کی طرف بڑھ رہا ہے، میں چلنے والے جمہوری عمل کے لیے خطرناک ہے ۔ دوسری طرف اہم سیاسی جماعتیں، پی پی پی اور پی ٹی آئی جمہوری عمل کی معکوسی پیش رفت سے لاپروا دکھائی دیتی ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کے قائد کے لیے وہ لمحہ آیا چاہتا ہے جس کا اُنہیں طویل عرصے سے انتظار تھا۔ چنانچہ اُنہیں مزید کسی ردوکدکی ضرورت نہیں۔ نادیدہ ہاتھ کی تھپکی، الیکٹ ایبلز کی جوق در جوق آمد، میڈیا کا بھرپور تعاون اور اہم ترین حریف دیوار کے ساتھ ۔ عمران خان خود کو اقتدار سے ہاتھ بھر کی دوری پر دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو توقع ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کو سویپ کرجائے گی۔ وسطی اور بالائی پنجاب میں بھی انہیں کافی حمایت ملنے کا امکان ہے ۔ خیبر پختونخواہ میں اس کے امکانات خاصے روشن ہیں ۔ چنانچہ وہ 2013 ء کی نسبت بہت بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے بے تاب ہے ۔ تاہم حقیقت پسندنظروں سے کیے گئے غیر جانبدار تجزیے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی امید میں خو ش فہمی کا عنصر زیادہ ہے ۔ عین ممکن ہے کہ وہ حکومت سازی کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل نہ کرسکے ۔ اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود پی ایم ایل (ن) اس کی پنجاب میں بہت طاقتور حریف ہے ۔ جہاں تک خیبر پختونخواہ کا تعلق ہے تو وہاں ماضی کا انتخابی رویہ پی ٹی آئی کی کامیابی غیر یقینی بنادیتا ہے ۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کی بحالی بھی صوبے کے کچھ حصوں میں پی ٹی آئی کے لیے سخت چیلنج بن سکتی ہے ۔ اگرچہ تحریک لبیک کو پی ایم ایل (ن) کا بریلوی ووٹ بنک کاٹنے کے لیے میدان میں اتارا گیا تھا لیکن یہ بعض حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروںکو بھی زک پہنچائے گی ۔ چنانچہ الیکٹ ایبلز کی بہم کردہ طاقت کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لیے کسی کولیشن کی ضرورت پڑے گی ۔ اس صورت میں یہ اپنے تمام تر دعووں کے باوجود پی پی پی کی طرف ہاتھ بڑھاتی دکھائی دے گی۔ پی پی پی اپنی ہوم گرائونڈ(صوبہ سندھ ) پر اچھی کارکردگی دکھائے گی۔ عین ممکن ہے کہ یہ کراچی سے بھی کچھ سیٹیں نکال جائے ۔ دیگر صوبوں سے بھی اسے کچھ سیٹیں مل سکتی ہیں۔ لیکن جب تک کوئی معجزہ پیش نہیں آتا، پی پی پی کے لیے پنجاب میں امکانات تاریک ہیں۔ اس کے باوجود پی پی پی آصف زرداری کی جوڑ توڑکی سیاست کی وجہ سے کوئی کولیشن تشکیل دے سکتی ہے ۔ اس صورت میں پی پی پی کو اقتدار کا بڑا حصہ مل سکتا ہے ۔ موجودہ انتخابات میں پی پی پی کی پوزیشن بہتر ہوسکتی ہے، لیکن اسے پی ایم ایل (ن) کے علاوہ کچھ دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ گزشتہ، اور کچھ حالیہ انتخابی جائزے بتاتے ہیں کہ پی ایم ایل (ن) وسطی اور بالائی پنجاب میں اپنی پوزیشن برقرار رکھے گی۔ صنعت وحرفت کی جملہ مساعی کے باوجود پارٹی میں کوئی واضح دراڑ نہیں پڑی۔ سوشل میڈیا کے ہنکارے اپنی جگہ پر، نواز شریف سے جی ٹی روڈ نہیں چھینی جاسکی ۔ لیکن اگر نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کلثوم صاحبہ کی علالت کی وجہ سے انتخابی مہم نہیں چلاپاتے تو ان کی پارٹی کو مزید زک پہنچ سکتی ہے ۔ نوازشریف کا کچھ طاقتوں کو چیلنج کرنا ممکن ہے کہ فوری نتائج کا حامل نہ ہو، لیکن اس سے پنجاب میں سوچ ضرور پیدا ہورہی ہے ۔ ماضی میں یہ صوبہ غیر جمہوری قوتوں کا تابعدار سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ نواز شریف کی للکار کے دور رس اثرات ضرور ہوںگے ۔ ضروری نہیں کہ یہ اثرات فوری طور پر انتخابی کامیابی میں ڈھلتے دکھائی دیں لیکن یہ فکری تبدیلی مجموعی طور پر سماجی اور جمہوری عوامل کو متاثر کرے گی۔ اس سے آنے والے برسوں میں نوا زشریف اور مریم نواز کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ پارٹی میں مریم نواز کی کیا پوزیشن بن پاتی ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ پچیس جولائی کو سیاسی حریف پی ایم ایل (ن) کو ایک سمٹتی ہوئی جماعت دیکھنا چاہیں گے۔ اگر چہ ممکن ہے یہ کچھ نشستیں حاصل کرلے لیکن اسے حکومت سازی کے لیے کوئی کولیشن نہیں ملے گا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کاووٹر کیا سوچ رہا ہے ؟سوشل میڈیاپر کچھ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب کا ووٹر نعرہ ٔ مستانہ بھی لگاسکتا ہے ۔ اور پھر شہباز شریف کے پاس پنجاب کے شہری علاقوں میں رہنے والے ووٹروں کو بتانے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ عین ممکن ہے کہ پی ایم ایل (ن) پنجاب کی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے ۔ تاہم آنے والے چند ایک ہفتے سب کچھ واضح کردیں گے۔ اس دوران میڈیا پر سنسر شپ کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ دیگر میڈیا ہائوسز نے حالات کو دیکھتے ہوئے خود پر سنسر شپ طاری کرلی ہے۔ چونکہ یہ امور طاقت کے متوازی دھڑوں کے کنٹرول میں ہیں، اس لیے نگران انتظامیہ اس معاملے میں بے بس ہے ۔ چنانچہ جس دوران ملک انتخابات سے دوقدم کے فاصلے پر ہے ، ملکی فضا جمہوریت کے لیے بوجھل ہوتی جارہی ہے ۔ شاید اس تاریکی میں روشنی کی واحد کرن پاکستانی ووٹر کا انتخابی عمل اور جمہوری عوامل سے پہلے سے کہیں زیادہ باخبر ہونا ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی ہم سیاسی استحکام کی حقیقی منزل سے دور ہیں۔ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت یا کولیشن سیٹ اپ سے سیاسی استحکام دیکھنے میں نہیں آئے گا۔ اگر معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو اس سے غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع میسر رہے گا۔ ہماری کوتاہ بین سیاسی اشرافیہ ملکی تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی بیان بازی اور سیاسی عمل کے لیے درکار قواعد وضوابط کی خلاف ورزی جمہوری استحکام کا سفر مزید مشکل بنا رہی ہے ۔