یہ سطریں لکھتے وقت سال کا آخری سورج غروب ہونے ہی والا ہے۔ جب آپ یہ کالم پڑھیں گے تب گزرا سال اپنی تمام تر تباہ کاری، پریشانیوں اور خوف وہراس کے ساتھ بیت چکا ہوگا۔یہ سال بہت کچھ لے گیا، خاصا کچھ نیاسکھا گیا۔ بعض چیزیں ہماری زندگیوںمیں شامل ہوئیں تو کئی نکل بھی گئیں۔ دنیا بھر میں یہ سال کورونا کی خوفناک وبا اور اس سے ہونے والے قیمتی نقصانات کی وجہ سے جانا جائے گا ۔ پاکستان میں الحمد للہ دنیا کے بیشتر ممالک سے بہتر معاملہ رہا، مگر جانی نقصان یہاں بھی ہوا۔ سات ہزار سے زیادہ لوگ چلے گئے، کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کی موت تو کورونا کی وجہ سے ہوئی، مگر ٹیسٹ نہ کرانے کے باعث وہ ڈیٹا میں شامل نہیں ہوسکے۔ جن کے پیارے اس وبا نے چھین لئے، ان پر گزرے والی قیامت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے، آمین۔ کورونا کا معاملہ میرے لئے ذاتی طور پر بڑا سنگین اور پریشان کن رہا۔ مارچ میں یہ وبا پاکستان میں آئی اور صورتحال سنگین ہونے لگی۔ ابتدائی دنوںہی سے کورونا وائرس کے بارے میں پڑھنے، اسے جاننے کی کوشش کرتا رہا۔جو احتیاطی تدابیر ماہرین نے تجویز کیں، ان سب پر عمل کیا۔ قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کے لئے تمام تر طبی مشوروں پر عمل کیا۔ وٹامن سی، ڈی اور زنک سے لے کر اپنی غذا میں پروٹین شامل کرنے تک تمام کام کئے۔ان کا فائدہ بعد میں بیماری کے دوران یقیناً پہنچا ہوگا۔موسم گرما میں ہماری فیملی کیلئے زیادہ پریشان کن خبر قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی بیماری تھی۔ شاہ صاحب بڑی عید کے دنوں میں شدید بیمار ہوئے اور کئی ہفتوں بعد ریکوری ممکن ہوپائی۔ سرفراز شاہ صاحب میرے روحانی استاد، مینٹور اور فادرفگر ہیں۔ ہمارے اہل خانہ کے لئے وہ گھنے سایہ دار درخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر مشکل ، پریشانی میں ان کی دعائیں ، توجہ اور شفقت ساتھ شامل رہتی ہے۔ الحمدا للہ شاہ صاحب کی صحت اب بہت بہتر ہے، اگرچہ کورونا کی وجہ سے وہ دعا کے لئے لاہور اور اسلام آباد میں نہیں بیٹھ پا رہے۔ ستمبر کے آخری عشرے میں اپنی تمام تر احتیاط اور سماجی فاصلہ رکھنے کے باوجود مجھے بھی کورونا کا مرض لاحق ہوا۔ کورونا پازیٹو ہونے کے بعد کا پہلا ہفتہ بڑا پریشان کن تھا۔ الحمد للہ اس مشکل سے نکل گئے۔ تجزیہ نگار اور دانشور برادرم ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے طبی مشورے اور مومنانہ فراست میرے لئے ہمیشہ معاون ثابت ہوتے ہیں ، اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے کہنے پر ساہیوال کے نامور ہومیو پیتھ ڈاکٹر نیاز سے رجوع کیا ، ان کی بتائی دوائیوں نے بہت فائدہ پہنچایا ۔ رب کی مہربانی سے میرے اوپر کورونا کا اٹیک ہلکا رہا اور زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ کورونا انسانی وجود کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ بیماری کے دو تین ہفتوں میں تو تکلیف سہنا ہی پڑتی ہے، اس کے بعد میں بھی اثرات کئی ماہ تک چلتے رہتے ہیں، جسم میں کئی چیزیںڈسٹرب رہتی ہیں ۔ بہت سے کیسز میں یاداشت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے، لوگ بھولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میرے منجھلے بیٹے کا بھی کورونا پازیٹو آیا۔ الحمد للہ وہ بھی جلدی ریکور کر گیا۔ دسمبر کے آخری عشرے میں ایک بہت پریشان کن خبر ملی کہ میرے بڑے بھائی طاہر ہاشم خاکوانی پر بھی کورونا کا اٹیک ہوا۔ ان کا معاملہ عجیب رہا کہ دو سے تین کورونا ٹیسٹ ہوئے، سب نیگیٹو آئے ،مگر جسم پر کورونا کی علامات ہی ظاہر ہوئیں۔ وہ ابھی تک ہسپتال میں ہیں، مگر اللہ نے کرم کیا اور مصیبت سے نکل آئے ہیں۔ ان کے اس بھیانک تجربے کے حوالے سے انشااللہ کسی اور نشست میں لکھوں گا۔اللہ کرے نئے سال میں کورونا کی وبا کا خاتمہ ہو اور انسانیت اس بڑے خطرے سے محفوظ ہوسکے، آمین۔سال بھر کوروناکے مختلف پہلوئوں پر کالم لکھتا رہا۔ اگر اکٹھا کروں تو الگ سے کتاب بن جائے گی، ممکن ہے ہارڈ کاپی نہ سہی، اس کی ای بک ہی بنا کر سوشل میڈیا پر مشتہر کر دوں۔ کورونا کی پریشانی کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر چند ایک اچھی چیزیں بھی ہوئیں۔ سال کے آغاز میں میری دوسری کتاب زنگار نامہ شائع ہوئی۔ یہ میری منتخب تحریروں کا دوسرا مجموعہ تھا۔سید قاسم علی شاہ فائونڈیشن اور نئی سوچ پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا۔ فروری کے کتاب میلہ میں کتاب کی بہت اچھی پزیرائی ہوئی ، ماشااللہ خاصی کتابیں نکل گئیں۔ اس پر ریویوز بھی مثبت آئے۔ جناب ہارون الرشید ، سجاد میر،امجد اسلام امجد، اوریا مقبول جان، وجاہت مسعود،سعدیہ قریشی ، آصف محمود،سعداللہ شاہ، احسان کوہاٹی سمیت بہت سے دوست احباب نے بڑی محبت سے کتاب پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں لکھا، اس پر بات کی۔اس کی ایک خوبصورت تقریب برادرم ضیا الحق نقشبندی (پیر جی)نے منعقد کی ۔ایک تقریب اسلام آباد میں برادرم عامر محمود کے تعاون سے ہمارے دوست جناب جاویداقبال نے منعقد کی۔ وفاقی وزیرعلی محمد خان اس کے مہمان خصوصی تھے۔ مجھے اچھا لگا جب علی محمد خان کتاب پڑھ کر آئے تھے، انہوں نے اس کے بعض اقتباسات پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ وہ اپنے چودہ پندرہ سال کے صاحبزادے کو اس کتاب کی وجہ سے تقریب میں خاص طور سے لائے ہیں۔ قاسم علی شاہ فائونڈیشن اور بعض دوسرے دوستوں نے کتاب کی تقریبات پزیرائی کا اہتمام کیا، مگر پھر کورونا کے اچانک لاک ڈائو ن نے آ لیا اور سب ملتوی ہوگیا۔ سال کے آخر میں میری پہلی کتاب ’’زنگار ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن معروف اشاعتی ادارے بک کارنر جہلم سے شائع ہوا۔اس ادارے کے گگن شاہد اور امر شاہد نے کمال خوبصورت کتاب چھاپی۔ اپنی کتاب اولاد کی طرح اچھی لگتی ہے، خواہ طباعت کیسی ہی ہو، مگر’’ زنگار ‘‘کے نئے حسین ایڈیشن کو دیکھ کر دل شاد ہوگیا۔ جناب عطاالحق قاسمی نے اس کے لئے خاص طور سے ریویو لکھا۔جناب ہارون الرشید صاحب اور محترم اوریا مقبول جان کی آرا بھی شامل ہیں۔’’زنگار نامہ‘‘ کی طرح ’’ زنگار‘‘ کو بھی اچھی پزیرائی مل رہی ہے۔ کورونا کے باعث کتاب کی تقریب رونمائی تو نہیں ہوسکی، آن لائن ہی دیکھی اور خریدی جارہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں کبھی صاحب کتاب ہونے کا سوچا ہی نہیں تھا۔ رب نے دو کتابیں شائع کرا دیں۔نئے سال کے لئے بعض اہداف مقرر کئے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو اگلے سال پہلے سے زیادہ کتابیں شائع ہوں گی۔ کتابیں پڑھنے کے حوالے سے یہ سال بہت اچھا رہا۔ ہرایک کی طرح میرے بھی کئی گھنٹے روزانہ سوشل میڈیا چاٹ جاتا ہے۔ اس سال البتہ کوشش کی جیسے تیسے کتابوں کی طرف واپسی اختیار کی جائے۔اس سال بعض نہایت عمدہ کتابیں شائع ہوئیں، ان کی وجہ سے یہ ٹاسک آسان ہوگیا۔چند ایک شاہکار کتابیں دوبارہ جبکہ کئی نئی کتابیں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس سال بیک وقت دو تین کتابیں پڑھنے کا تجربہ بھی کیا۔ ایک کتاب صبح پڑھتا، دوسری رات کو جبکہ تیسری جب بھی وقت مل جائے۔ دفتر میں فراغت کے لمحوں کے دوران ای بکس پڑھنے کی عادت ڈالی۔ نتائج بہت اچھے آئے اور کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لیا۔ ان تمام تجربات پر بھی ان شااللہ الگ سے لکھوں گا، مقصد یہی ہے کہ کسی اور دوست کو انسپائریشن مل سکے اور وہ بھی اپنے حالات اور ماحول کے مطابق حکمت عملی وضع کر سکے۔ صحت کے حوالے سے مسائل بھی پیدا ہوئے، ان کے سدباب کے لئے نئے فیصلے بھی کئے۔ عمل درآمد میں البتہ کامیابی اور ناکامی کا ملا جلا رجحان رہا۔ مجموعی طور پر اپنی صحت کے حوالے سے کچھ سیکھنے کو ہی ملا۔ اللہ خیر فرمائے، ارادہ تو یہی ہے کہ اگلے سال اپنا طرز زندگی مکمل طور پر تبدیل کرنا ہے۔ نیو ائیر ریزولوشن بنا رہا ہوں،اس پر بھی لکھوں گا۔ دو ہزار بیس بہرحال بیت گیا۔ دھڑکتے دل، سوچتے دماغ اور نئی امیدوں ، حوصلے کے ساتھ اگلے سال کا سواگت ہے۔ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ہم سب پر اپنی بہترین رحمتیں، بہترین نعمتیں اور بہترین برکتیں نازل فرمائے، آمین۔