اروندھتی رائے کے ناول بے پناہ شادمانی کی مملکت (The Ministry of Utmost Happiness)نے مجھے بہت متاثر کیا تھا، ان کا پہلا ناول گاڈ آف سمال تھنگز بھی خوب ہے، جس کا ترجمہ پروین ملک نے سسکتے لوگ کے نام سے کیا۔ بے پناہ شادمانی کی مملکت مگر غیر معمولی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے دکھ ، ان کے رگ وپا میں سمایا کرب اور ان میں بھڑکتے بغاوت کے بھانبھڑاس ناول میں نظر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان اور کچھ نہیں کر سکتی تو اس ناول ہی کو ملکی اور عالمی سطح پر پھیلا دے۔ مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کرائے ۔ اروندھتی رائے کی پچھلے سال ایک اور کتاب شائع ہوئی، یہ نان فکشن ہے، ان کے مضامین کا مجموعہ:Azadi: Freedom. Fascism. Fiction۔اروندھتی رائے نے نریندر مودی کے بھارت کی کمال منظر کشی کی۔ اس میں مگر صرف یہی کچھ نہیں، دیگر ذائقے بھی موجود ہیں۔ شنید ہے کہ معروف مترجم ، فکشن نگار سید کاشف رضا نے اس کا ترجمہ کر لیا ہے اور جلد شائع ہونے والی ہے۔ برسبیل تذکرہ سید کاشف رضا کوبھی پچھلے سال اپنے ناول چار درویش اور ایک کچھوا پر یوبی ایل ادبی ایوارڈ بھی ملا ہے۔ سال کے آخری چند ماہ میں بعض انگریزی کتابیں ہاتھ آ گئیں۔ہمارے ایک نوجوان دوست اور ہونہار ، صاحب مطالعہ نوجوان صحافی عماد احمد انگریزی نان فکشن اور فکشن کا دلدادہ ہے،ان کے پاس بہت سی کتابیں ہارڈ اور ای بک میں موجود ہیں، ہمیں بھی استفادے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ القاعدہ، طالبان اور عسکریت پسندی کے موضوع پر بعض اہم کتابیں انہوں نے دی۔ کچھ پڑھیں، باقی پڑھنے کاارادہ ہے۔نیویارک ٹائمز کے معروف صحافی ڈیکلن والش کی کتاب نائن لائیوز آف پاکستان(Nine Lives Of Pakistan)کے دو تین ابواب پڑھے ہیں۔ ڈیکلن والش باخبر صحافی تھا، اس نے اپنے مخصوص زاویے سے پاکستانی سماج کی مختلف پرتوں کا جائزہ لیا۔ اس کتاب پر بات ہونی چاہیے، مکمل کرنے کے بعد ان شااللہ لکھوں گا۔ معروف امریکی نیو کنزرویٹو لیڈرجان بولٹن کی کتاب بھی کسی نے بھیجی۔ بولٹن کو ٹرمپ نے ذمہ داری دی اور پھر حسب عادت فارغ کر دیا۔ بولٹن نے اپنی کتاب میں ٹرمپ پر سخت تنقید کی ہے۔ امریکی سیاست ، خارجہ پالیسی اور سی آئی اے کی اندرونی فضا سمجھنے کے لئے ایسی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ویسے امریکی سیاست اور اِن سائیڈ کو سمجھنے کے لئے ایک بہت مشہور ڈرامہ سیزن ’’ہائوس آف کارڈز‘‘ ضرور دیکھنا چاہیے، نیٹ فلیکس پر دستیاب ہے۔ سعودی ایرانی مخاصمت پر ایک اہم کتاب بلیک ویوBlack Waveپڑھنا شروع کی ہے۔ خاصا حساس موضوع ہے، ہمارے ہاں سعودی عرب اور ایران دونوں کے حامیوں کی مضبوط لابیاں ہیں، خاص کر سوشل میڈیا پر تو دونوں کیمپوں کے جنگجو تلواریں سونتے دشمن ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کسی روز بچ بچا کر احتیاط کے ساتھ کچھ اس پر لکھوں گا۔ ایک شوریدہ سر ترک مصنفہ نے کتاب لکھی ہے، ریاست کیسی ڈوبتی ہے (How to lose a Country)۔ انہوں نے وہ سات مرحلے بتائے جن میں جمہوریت آمریت میں بدل جاتی ہے۔ بی بی نے ترک مرد آہن طیب اردوان کو ہدف بنایا ہے۔ ترک مصنفہ کا نام خاصا مشکل ہےEce Temelkuran۔ فرخ سہیل گوئندی صاحب کی معاونت سے اردو تلفظ لکھ رہا ہوں،ایجے تامیل قرآن۔ جنرل ریٹائر اسد درانی نے ناول نما کتاب لکھ کر اپنا کتھارسس کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی پچھلی کتاب جس کی بنا پر وہ معتوب ٹھیرے ، وہ پڑھی اور پسند نہیں آئی۔یہ فکشن نما کتاب اِدھر اُدھر سے جھانک کر دیکھی اور پھر چھوڑ دی، جنرل صاحب سے بات بنی نہیں، فکشن کی چڑیا ہر ایک کے آنگن پر نہیں اترتی ۔ پچھلے سال کتاب میلہ میں فکشن کے ساتھ کئی نان فکشن کتابیں خریدی تھیں۔ ان میں بعض کتب تاریخ پر بھی تھیں۔عرب سکالر احمد امین مصری کی تاریخ اسلام کے دو حصے ملے، ایک فجر اسلام جبکہ دوسرا اسلام پر کیا گزری کے نام سے شائع ہوا۔ دلچسپ ہیں۔ ڈاکٹر گستائو لی بان کا فلسفہ عروج وزوال اقوام کا ترجمہ عبدالسلام ندوی صاب نے کیا تھا،اسے اب بک کارنر جہلم نے پھر سے شائع کیا ہے۔ فلسفہ اور اہل فلسفہ کے احوال وافکار کے حوالے سے محترم ظفر سپل نے تین کتابیں لکھی ہیں، پچھلے دنوںفیس بک پر تینوں کا سیٹ رعایتی طور پر دستیاب تھا۔ کتاب میلہ میں موٹیویشنل لٹریچر بھی دیکھا۔ رابن شرما معروف بھارتی موٹیویشنل سپیکر ہیں، ان کی کتاب Club 5AM کا ترجمہ ابھرتا سورج کے نام سے نئی سوچ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ یہ سید قاسم علی شاہ فائونڈیشن کا پارٹنر ادارہ ہے، میری دوسری کتاب زنگارنامہ پچھلے سال انہوں نے شائع کی ہے۔پچھلے سال ہمارے بڑے ٹیلنٹڈ ٹرینراور استاد ہمایوں مجاہد تارڑ کی کتاب نئے امکان، نئے روز وشب پڑھنے کو ملی۔ کتاب اپنی پریزینٹیشن کے اعتبار سے خاص نہیں، مگر متن کمال کا ہے۔ ہمایوں تارڑ بڑی تخلیقی سوچ رکھنے والے، آئوٹ آف باکس خیالات والے آدمی ہیں۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم، تربیت کے حوالے سے بڑے عمدہ آئیڈیاز شیئر کئے ہیں۔ کاش کوئی بڑا پبلشر ان کی طرف متوجہ ہوا اور ہمایوں تارڑ کے آئیڈیاز اوران کے ترتیب کردہ کورسز حسین شکل میں شائع کرے۔ ان کی سوچ میں بڑا دم ہے۔غزالی ٹرسٹ سکولز یا آفاق والوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ مولانا وحید الدین خان بھارت کے معروف سکالر اور دانشور ہیں۔ ان کی بعض آرا متنازع بلکہ چند ایک بھارت میں سخت متنازع ہیں، دراصل وہ ہندومسلم فسادات کے تناظر میں بہت سی چیزیں دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ مولانا وحیدالدین خان کا مگر توحید اور مذہبی کی سائنسی انداز میں تعبیر وتشریح کا کام عمدہ ہے۔ وہ روایت کے آدمی ہیں، تجدد دین کے چکرمیں جو ’’اصلاحات‘‘کی جا رہی ہیں، مولانا وحید الدین اس سے گریز کرتے ہیں۔ مولانا وحید الدین کی کتاب معرفت گزشتہ سال پڑھی۔مولانا وحید الدین کی تاریخ کے اسباق کے نام سے تین چار جلدوں میں کتاب دلچسپ لگی، ان کی راز حیات، تعبیر حیات، کتاب زندگی وغیرہ کی سیریز بہت مفید ، معلومات افزااور دلچسپ ہے۔ کورونا کے دنوں میں دو ہفتے گھر پر رہا تو سوچا کہ دینی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سیرت، تاریخ انبیااور بعض دیگر کتب کے ساتھ ان میں مولانا مودودی کی مشہور کتاب رسائل ومسائل بھی شامل تھی۔ جماعت کے معروف جریدے ترجمان القرآن میں مولانا مودودی جن سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے، وہ تمام نکال کر اکٹھے کر دئیے گئے ہیں۔ مولانا مودودی کی فکر جاننے سمجھنے کے لئے لوگ اکثر ان کی کتاب تفہیمات یا خطبات کا حوالہ دیتے ہیں۔ خلافت وملوکیت بھی ان کی ایک قدرے متنازع مگر بہت مشہور کتاب ہے۔ مولانا کی فکر ، ان پر ہونے والے سوالات اور ان کے مدلل جوابات جاننے ہوں تو رسائل ومسائل پڑھیں۔ ہر موضوع پر مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا ہے۔ اپنے عہد کے نامی گرامی لوگ یہ سوالات اٹھاتے رہے۔ ایک اور بڑے دماغ نے ان کے مدلل جواب دئیے۔ یہ سب پڑھنے، سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مولانا مودودی کی سیاسی فکر سے اتفاق اختلاف اپنی جگہ، مگر مولانا ایک عبقری تھے، اس میں کوئی شک نہیں۔ اس عبقری کی فکر ، تحریکی سوچ کو جاننے کے لئے ہی یہ کتاب پڑھ ڈالیں۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی حیثیت میرے لئے ایک مرشد، مینٹور، استاد ، مشفق بزرگ کی سی ہے۔ وہ صاحب عرفان بزرگ ہیں۔ اللہ والوں کا ظرف،کشادہ دلی ایسی کہ ہر شخص کو یہی گمان ہوتا ہے کہ شاہ صاحب اس پر زیادہ مہربان ہیں۔ ہم بھی شاہ صاحب کی محبتوں کے سائے میں ہیں، ان کی دعائیں سمیٹتے اورخوش نصیب سمجھتے ہیں۔ سرفراز شاہ صاحب مگر صرف اللہ کے ولی نہیں، وہ اعلیٰ پائے کے روحانی سکالرہیں، علم لدّنی میں انہیںکمال حاصل ہے۔ روحانیت سے خاکسار کا عملی تعلق نہیں، مگر تصوف کی کتب پڑھنے میں دلچسپی رہی ہے۔ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق تصوف کی جدید تاریخ میں سرفراز شاہ صاحب سے زیادہ آسان اور عام فہم انداز میں کسی نے روحانیت کی گرہیں نہیں کھولیں۔ تصوف کی اکثر کتب میں دانستہ مبہم، دقیق اسلوب اپنایا جاتا ہے۔سرفراز شاہ صاحب نے ہر نکتہ کھول کر بیان کیا۔ جو بات نہیں کہی جا سکتی، اس کے بارے میں صاف بتا دیا اورجس حد تک ممکن تھا اشارہ کر دیا۔ان کی تصوف پر سات کتابیں آ چکی ہیں، آٹھویں جلد شائع ہونے والی ہے۔ پہلی کتاب ’’کہے فقیر ‘‘ہے، اسے بے پناہ پزیرائی ملی، پچاس کے لگ بھگ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، دیگر کتابوں کے بھی کئی ایڈیشن فروخت ہوئے۔ میں نے کورونا قرنطینہ میں شاہ صاحب کی تین کتاب فقیر رنگ، لوح فقیر اور ارژنگ فقیر پڑھی۔ سچ تو یہ ہے کہ دنگ رہ گیا۔ اتنے عمدہ انداز میں شائد ہی کسی نے تصوف کو بیان کیا ہو۔ جو لوگ اپنی نادانی میں تصوف کو متوازی دین سمجھتے ہیں، اس پر اعتراضات کرتے ہیں، انہیں پہلے ایک بار سرفراز شاہ صاحب کی کتابیں بھی پڑھ لینی چاہئیں۔ شاہ صاحب کی ساتویں کتاب’’ عرض فقیر‘‘ کورونا قرنطینہ کے بعد پڑھی اورمجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس میں شاہ صاحب نے بہت زیادہ کھل کر باتیں کی ہیں۔ اپنی ابتدائی کتابوںمیں وہ زیادہ تفصیل نہیں بتاتے تھے، عرض فقیر میں بہت کچھ سے پردہ اٹھا دیا۔ اللہ نے چاہا تو ارادہ ہے کہ شاہ صاحب کی کتابوں پر باقاعدہ کمنٹری لکھی جائے۔شاہ صاحب کی فکر پر کتاب لکھنے کی میری اہلیت نہیں اور نہ ہی اس کی ہمت ہے، بس یوں سمجھ لیجئے کہ اپنے جیسے عام قارئین کے لئے اپنے اخذ کردہ نوٹس شیئر کروں گا۔