زمین کے گرد سورج کا ایک اور چکر،جو کہ 365دن ، 5گھنٹے،48منٹ اور46سیکنڈ میں مکمل ہوتا ہے،گذشتہ شب پایۂ تکمیل کو پہنچا،یوں سالِ نو 2021ء کی،دُھند میں لپٹی اور سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی نئی صبح۔۔۔نئی امیدوں، آرزوؤں،ولولوں اور امنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہے،جس کی تمام قارئین کو مبارکباد۔ویسے نئے سال کی ابتدا پر "Happy New Year"کی رسم نجانے کتنی قدیم ہے،لیکن اب تو دنیا کی ہر سوسائٹی ہی تقریباً اس کو اپنا چکی ہے،کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے،پتہ نہیں کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں ، سوشل میڈیا کے سَیل رواں کے آگے،ہماری روایت شاید بند نہ باندھ سکے،اس لیے کہ آپ کا موبائل آپ کے لیے،حسبِ موقع ڈھیروں پیغامات لئے،آپ کی بیداری سے بھی پہلے، بیتاب ہوتا ہے،اگرچہ ہمارے سماجی مفکرین اس کی بہت سی توجیہات کرچکے ہیں کہ نیا سال چونکہ ہمارے پرانے غموں،دکھوں اور مسائل ہی کی کوکھ سے جنم لے رہا ہوتا ہے،ایسے میں بہتری اور خیر کی توقع کرتے ہوئے،نئے سال کی آمد پر خوشی اور اچھی توقعات وجذبات کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں،بعض کے خیال میں یہ ایک قدیم روایت بھی ہے ۔کچھ مصلحین کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ مغربی روایت سے پہلے یہ رسم یونانیوں اور رومیوں کے ہاں بھی رائج تھی،ایرانیوں کے ہاں نوروز کے جشن سے بھی اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔بہرحال،ہماری اسلامی اور دینی روایت میں قمری سال کو تفوق حاصل ہے ۔اس لیے اسکے آغاز پر نبی اکرم ﷺ نے جس مسنون دعا کی تلقین فرمائی،اس کا،اس موقع پر اہتمام بھی یقینا اس موقع پرخیروبرکت کا باعث ہے،بہرحال زندگی چونکہ طلوع و غروب کے انہی سلسلوں کا نام ہے،دن اور رات کی اسی تقسیم میں زمانے کا لامتناہی سفر جاری ہے اور اسی میں بود اور نابود کی عظیم کارفرمائیاں جلوہ گر ہیں، وقت کا سلسلہ مستقبل اور ماضی سے بندھا ہوا ہے،مستقبل کوماضی بنانے والا لمحہ’’حال‘‘ہے۔’’لمحۂ موجود‘‘،جو نجانے کتنی صدیاں نگل گیا ہے اور کتنی اور نگلے گا،مجید امجد نے اپنی نظم’’وقت‘‘میںبھی یہی کہا تھا : وقت ہے اِک حریم بے دیوار جس کے دوار آنگنوں میں سدا رقص کرتے ہوئے گذرتے ہیں دائروں میں ہزارہا ادوار اسی سلسلۂ روز و شب کو ہم فلسفے کی زبان میں ابدیت کی متحرک پرچھائیاں (Moving image of Eternity) کہتے ہیں۔اسی سے وقت کے دھارے میں بہتی ہوئی چیزوں اور رونما ہونے والی تبدیلیوں کا حسی ادراک ممکن ہے۔بقول اقبال : سلسلۂ روز و شب،نقش گر حادثات سلسلۂ روز و شب،اصلِ حیات و ممات گویا رات اور دن کا سلسلہ یعنی زمانہ،پیدا ہونے اور مرنے والی چیزوں کے نقش تیار کرتا ہے۔دن اور رات کا یہی سلسلہ، زندگی اور موت کی اصل ہے،مراد یہ ہے کہ زمان و مکان کے بغیر تغیرات کا تصوّر نہیں ہو سکتا،اور تغیر کا مطلب ہے چیزوں کا پیدا ہونا اور ختم ہونا۔حضرت اقبالؒ نے’’بال جبرئیل‘‘کی اس معروف نظم’’دُعا‘‘کے دوسرے بند میں،اس حقیقت کو یوںبیان کیا: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام مرد خدا کا عمل،عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات،موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو عشق خود ایک سیل ہے،سَیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام! کہ بے شک دنیا کی ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے،مگر اُس نقش میں پائیداری کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے،جو کسی مردِ حق کے ہاتھ میں مکمل ہو ۔۔۔یعنی وہ مرد خدا جس کی زندگی رضائے الہٰی کی اتباع کا نمونہ ہو۔ایسے نقش کو کیوں کر دائمی پائیداری میسرآتی ہے؟تو اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مردِ حق کا ہر کام چونکہ عشقِ حق کی بدولت ہی فروغ پاتا ہے،اور’’عشقِ حق‘‘ہی زندگی کا جوہر اور روح ہے۔ صدشکر کہ 2020ئ،کو گذشتہ سال میں ڈھلنے،اور آئندہ سال کے اُ بھرنے کی ساعتیں،داتاؒ دربار میں میسر آئیں،حضرت اقبال نے بھی قَر نوں پہلے اس آستانِ کرم کے لیے یہی فرما یا تھا : صبحِ مَا اَز مھر اُو تابندہ گشت یعنی ہماری صبحیں تو آپؒ کے آفتابِ وجود کی ضیاء ہی سے منور ہوتی ہیں۔ ویسے یہ بھی انسان کی بڑی خوش قسمتی اور بلند بختی ہے کہ اُ سے کسی کامل کا دَر میسر آجائے،اور پھر اُ س کی وابستگی،اُسے بہت سے دنیاوی علائق سے بے نیاز کر دے۔از خود حضرت داتا صاحبؒ فرماتے ہیں کہ طریقت میں میرے مقتدأ و پیشوأ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی ؒ ،جو ساٹھ سال تک عزلت نشیں اور مخلوق سے کنارہ کش رہے،اس مردِ خدا سے زیادہ بارُعب شخصیت میں نے نہ دیکھی، اور آپ ؒ ہی کی زبانِ فیض ترجمان سے میں نے سُنا کہ:اَلدُّنْیا یَومٌ وَلَنَا فِیْہِ صَومٌ ’’یعنی دنیا ایک دن کی مثل ہے اور ہم اُس دن روزے سے ہیں‘‘، یعنی اس دنیا سے ہم نے کچھ حصّہ نہیں پایا،اور نہ ہی ہم اس کی قید یا فریب میں آئے،داتا صاحبؒ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن،میں اپنے شیخ کی بارگاہ میں حاضر اور وضو کے لیے، آپ ؒ کے ہاتھ پر پانی ڈال رہا تھا،کہ معاً میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ جب تمام نظامِ عالم اور کاروبارِ حیات قسمت پر ہی موقوف ہے،تو پھر ہم جیسے اچھے خاصے آزادمنش لوگ، محض امیدِ کرامت و فیوضات پر،اپنے آپ کو پیروں،صوفیوں اور درویشوں کا غلام اور اُن کے حکم کا پابند کیوں بنائے رکھتے ہیں؟،آپؒ فرماتے ہیں میرے دل میں یہ خطرہ گذرا ہی تھا کہ میرے شیخ ؒ فرمانے لگے،صاحب زادے!جو وسوسہ تمہارے دل میں پیدا ہوا،وہ میں نے بر بناء کرامت جان لیا ہے، یاد رکھو اور اچھی طرح سمجھ لو کہ قضا و قدر کے ہر حکم کے لیے،اللہ تعالیٰ نے سبب رکھے ہیں،جب اللہ تعالیٰ کسی عام آدمی کو عرفان کا تاج اور فقر کی نعمت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے،تو وہ اسے توبہ کی توفیق دے کر،اپنے کسی مقرب دوست کی خدمت میں مشغول فرما دیتا ہے،تاکہ وہ خدمت گذاری،اس کے لیے عزت و عظمت کے سامان اور پیغام لے کر آئے،کشف المحجوب میں اسی مقام پر حضرت شیخِ ہجویر ؒ ایک اور دلچسپ بات فرماتے ہیں کہ جب میرے شیخ کی وفات کا وقت آیا،تو آپؒ دمشق کے نواح میں’’بیت الجن‘‘کے مقام پر تھے،آپ کا سرِ مبارک میری گود میں تھا،میرے ایک پیر بھائی کے بارے میں،میرے دل میں رنج تھا،میرے شیخ نے اپنی بزرگی کی بناء پر میرے اس خیال کو جانا،اور فرمانے لگے:بیٹا! تمہیں ایک عقیدے کی بات بتاتا ہوں،اگرتم اس پر قائم ہوگئے، تو پھر تمام جہان کے غموں سے آزاد ہو جاؤگے،یاد رکھو:ہر جگہ،ہر حال اورہر معاملہ،خواہ نیک ہو،یا بد، اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کسی چیز کو بُرا نہ جانیں،اور کسی کی طرف سے دل میں رنج نہ رکھیں۔