وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سیاست میں تبدیلیاں آتی ہیں کیونکہ ریاستوں کے جغرافیئے، ریاستوں کی طاقت اور ان کے باہمی تعلقات عالمی سیاست میں ان کے کردار کو متعین کرتے ہیں جبکہ بین الاقوامی سیاست اور عالمی نظام کے خدوخال کی بھی ترتیبِ نَو ہوتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی سیاست میں ہلچل کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے جہاں اِیک طرف ترقی یافتہ اور طاقتور ملک نئی صف بندی کررہے ہیں وہیں دوسری طرف پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی الگ تھلگ رہنا مشکل ہے۔ ایک طرف کرونا وبا نے دنیا کو متاثر کیا ہے جبکہ دوسری طرف اَمریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت سے عالمی سیاست میں ایک نئی سرد جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اِس پس منظر میں 2022 کا سال بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے جس کے دوران اَمریکہ اور چین کے مابین اَثر ورسوخ کی جنگ اور یوکرائن کا تنازعہ عالمی سیاست کے افق پر چھایا رہا ۔ اِس سال کا سب سے اَہم واقعہ روس کا یوکرائن پر حملہ ہے جس نے اَمریکہ اور یورپی ممالک کی توجہ حاصل کی ہے جبکہ تمام دنیا یوکرائن جنگ سے بِالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئی ہے۔ روس اور یوکرائن کے مابین فروری میں شروع ہونے والی جنگ کو اَب تقریباً گیارہ مہینے ہوگئے ہیں اور یوکرائن کی طرف سے روس کے حملے کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور تا حال روس کو فتح حاصل نہیں ہوسکی ۔ رواں برس 24 فروری کو روسی افواج کی طرف سے یوکرائن کے شھر خیرسون پر قابض ہونے کے باوجود روسی افواج کو نومبر میں جنوبی بندرگاہی شہر خیرسون سے انخلاء کرنا پڑا اور یوکرائن جنگ کے دوران روس کے لیے اَب تک کا یہ سب سے بڑا دھچکا ہے کیونکہ یہ یوکرائن کا واحد علاقائی دارالحکومت تھا جو جنگ کے آغاز کے بعد سے روس کے قبضہ میں چلا گیا تھا۔ یہ خطہ کریمیا کے لیے سٹریٹجک لحاظ سے اہمیت کا حامل ایک داخلی دروازہ بھی ہے جسے روس نے 2014 میں غیر قانونی طور پر ضم کرلیا تھا۔بظاہر یوکرائن اکیلا لڑرہا ہے لیکن مالی طور پر اَمریکہ سمیت مغربی دنیا کی اسے بھرپور حمایت حاصل ہے۔ روس کے خلاف برسرِپیکار یوکرائن کی مدد کے لیے اَمریکی سینیٹ نے دو طرفہ تعاون کے تحت 40 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا ہے، جس میں سے کم از کم 15 بلین ڈالر یوکرائنی مسلح افواج کو فراہم کیے گئے جبکہ بقیہ رقم کا زیادہ حصہ روس کے ساتھ تنازع میں دوسرے محاذ کے لیے مختص کیا گیا جسے "جیو۔اِقتصادی جنگ" کا نام دیا گیا۔ یوکرائن اور روس پر مشتمل علاقہ دنیا کے لیے ایک Bread Basket (یعنی گندم اور مکئی سمیت کھانے پینے کی چیزیں پیدا کرنے والا علاقہ) کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ یوکرائن اور روس مل کر گندم اور مکئی کی اجناس کے سب سے بڑے برآمدکنندگان ہیں۔ اِن اَشیاء کی کم سپلائی نے اِن کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس کا سامنا پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام کررہے ہیں۔ عالمی سیاست کا دوسرا اہم ایشو اَمریکہ اور چین کے مابین تجارتی مسابقت اور سیاسی مخاصمت ہے جو دنیا کو دوسری سرد جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ چین کے عروج کی روک تھام کے لیے امریکہ کی چین کے گھیراؤ کی پالیسی میں تیزی آگئی ہے جس کا بنیادی ستون اَمریکہ کا تائیوان کے ساتھ خصوصی تعلقات کا نہ صرف جاری رہنا بلکہ اِس میں زیادہ گرم جوشی کا اِظہار ہے جس کی مثال رواں سال اَمریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کا چین کی دھمکیوں کے باوجود 3 اگست کو تائیوان کا دورہ ہے۔ اس کے ردِعمل میں چین نے آبنائے تائیوان میں اب تک کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کیں جسے "لائیو فائر ڈرلز" کہا گیا۔ اِن مشقوں میں بیلسٹک میزائل داغنا اور لڑاکا طیاروں کی تعیناتی شامل تھی۔ سپیکر پیلوسی کا تائیوان کا یہ متنازعہ دورہ 1997 کے بعد سے کسی بھی اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار کا پہلا دورہ تھا۔ اِس دورے نے چین اور امریکہ کے تعلقات کو ایک نئی نچلی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ گزشتہ 40 سالوں میں دونوں فریقوں کے درمیان جو اِعتماد پیدا ہوا ہے، اَمریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی موجودگی میں وہ اِعتماد تقریباً بکھر چکا ہے۔ رواں سال کا تیسرا اَہم ایشو افغانستان میں امن و اِستحکام کا قیام ہے۔ اِس سال اکتیس اگست کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے تاہم نہ ہی افغانستان میں معاملات مکمل طور پر حل ہوئے ہیں اور نہ ہی افغان عوام کو بہتر سہولتیں میسر ہوسکی ہیں۔ افغانستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ گذشتہ ایک صدی سے وہ عالمی طاقتوں کے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے میدانِ جنگ بنا رہا ہے۔ کبھی برطانیہ اور روس کی باہمی کشمکش اور کبھی امریکہ اور سوویت یونین کے مابین اثرورسوخ اور مفادات کے ٹکراؤ کے لیے میدانِ کارزار بنا رہا ہے۔ اَب جبکہ افغانستان میں طالبان کواپنا اِقتدار قائم کیے ڈیڑھ سال مکمل ہوچکا ہے اور انہوں نے عالمی برادری کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ بنیادی اِنسانی حقوق سمیت بین الاقوامی قانون کے عالمی طور پر قبول شدہ اصول و ضوابط کو اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے طور پر پورا کریں گے تو طالبان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی کمٹمنٹس پوری کریں خاص طور پر بچیوں اور خواتین کو تعلیم کے حصول کے لیے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور حال ہی میں خواتین کی تعلیم پر عائد کی گئی پابندیوں کو ختم کیا جائے جبکہ عالمی برادری، اِنسانی بحران اور خصوصی طور پر غذائی اجناس کے بحران سے نمٹنے کے لیے افغان عوام کی اِمداد کرے۔ رواں سال کے دوران عالمی سیاست میں ہونے والی پیش رفت کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ ایک ایسے جامع بین الاقوامی نظام کے احیاء کے لیے کوششیں شروع کر رہا ہے جو عالمی طاقت کی تبدیلی اور اِرتقا کے باوجود اَمریکی مفادات اور اَقدار کے تحفظ کو یقینی بنائے جبکہ چین اور روس، اَمریکہ کی اِکلوتی بالادستی پر مشتمل عالمی نظام کے قیام کی مخالفت پر کاربند نظر آتے ہیں اور ایک کثیرالقطبی دنیا کے حمایتی ہیں، جس کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فی الحال ایک طرف اَمریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت جبکہ دوسری طرف اَمریکہ اور اس کے یورپی اِتحادیوں اور روس کے درمیان کشمکش عالمی سیاست میں نمایاں رہے گی۔