یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خارجہ پالیسی ہمیشہ مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کو بھی کوئی اِستثناء حاصل نہیں ہے۔ افغانستان کی غیر یقینی صورتحال، ہندوستان کا پاکستان کی طرف متعصبانہ اور مسلسل ہٹ دھرمی کا رویہ، یوکرائن کی جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والی ہلچل اور مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش، اور سب سے بڑھ کر اَمریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت سے عالمی سیاست میں ایک نئی سرد جنگ کے منڈلاتے خطرات کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے 2023 کا سال خاصا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اِس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کوبنیادی طور پر جن اَہم چیلینجز کا سامنا ہے، ان میں چین اور امریکہ کی باہمی محاذ آرائی کے دوران چین اور اَمریکہ کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ہندوستان کے ساتھ مخالفانہ تعلقات کو سنبھالنے، اسٹریٹجک اتحادی سعودی عرب اور پڑوسی ایران کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام جبکہ مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش سے بچاؤ شامل ہیں مگر اَفغانستان میں وقوع پزیر ہونے والے کچھ تازہ واقعات کی بدولت یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں مغربی سرحد سے ملحقہ ہمسایہ ملک افغانستان میں موجود داعش جیسے دہشت گرد عناصر سے ٹف ٹائم مل سکتا ہے جبکہ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان اور پاکستان جیسے برادر ملکوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہوئے باہمی تعلقات میں کشیدگی لاسکتی ہیں۔ اَفغانستان سے امریکی افواج کے اِنخلا کے بعد افغانستان میں وسیع البنیاداور پاکستان دوست حکومت کی موجودگی میں افغانستان کے ساتھ دیرپا اور خوشگوار تعلقات کا قیام ایک اہم چیلنج ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین پائیدار تعلقات اسی صورت میں استوار ہوسکتے ہیں جب دونوں ملکوں کے عوام بھی ایک دوسرے کے بارے میں مثبت تاثرات رکھیں۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر لگائی گئی باڑ کو اکھاڑنے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حالیہ واقعات spoilers کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد کے لیے بہتر ہے۔ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام شروع دِن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اَمریکہ کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے۔ اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے جس کا برملا اِظھار پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی کرچکے ہیں کیونکہ ماضی میں امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سردجنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ اِنتہائی گہرے تعلقات ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ پختگی آئی ہے۔ چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے کے آغاز کے بعد چین اور پاکستان کے باہمی سٹریٹجک تعلقات میں ایک ٹھوس اِقتصادی جہت بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں دیرینہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں، تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں دراڑ ڈالنے اور بالخصوص چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) کو ناکام بنانے کے لیے کئی بیرونی عناصر spoilers کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں، جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان کے لیے اِنتہائی اَہم ہے۔ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کے لیے بیوروکریسی کے گنجلک طریقہ کار کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ CPEC عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شی ایٹوو (Belt and Road Initiative) کا اہم جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے شراکت داری والی ترقی کے نعرہ کا عملی نمونہ ہوگی۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین اہم امور پر ہمہ وقت ادارہ جاتی مشاورت جاری رہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی رواں سال کا ایک مشکل چیلنج ہو گا کیونکہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر سمیت ھندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے متعلق جارحانہ اور متعصبانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ کشمیریوں اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی پالیسی کو آگے بڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہاں پر کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ جبکہ دونوں پڑوسیوں کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی بحالی کے دوبارہ عزم کے علاوہ کسی محاذ پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اِن حالات میں ھندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ عالمی سیاست میں جاری موجودہ سیاسی کشمکش اور اثرورسوخ کی دوڑ میں پاکستان کے لیے غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے ایک متوازن اپروچ اِختیار کرنا ایک اہم اور مشکل چیلنج ہے جس سے عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق نمٹا جائے اور کسی بھی قسم کی مثالیت پرستی کی بجائے حقیقت پسندی پر مبنی پالیسی اختیار کرنا چاہئے کیونکہ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کسی سیاسی یا اخلاقی مہم جوئی کا شکار ہوئے بغیر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔