سیاسی منظرنامہ متواتر ابرآلود ہے‘حکومت میں شامل ملک کی تمام جماعتیں کوئی متفقہ پالیسی نہیں رکھتیں‘ لہذا وفاقی کابینہ کی 80 کے لگ بھگ تعداد بھی کچھ ڈلیور کرنے سے قاصر ہے۔22وزراء جن کے پاس کسی وزارت کا قلمدان نہیں وہ بھی حکومت کو موثر صلاح مشورہ دینے سے یکسر قاصر ہیں‘یہی وجہ ہے کہ عوام تحریک انصاف کے اس مطالبے کی تکمیل چاہتے ہیں کہ ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کا ڈنکا بجا دیا جائے۔ عمران خان پنجاب کے بعد کے پی کے اسمبلی کو بھی تحلیل کرواچکے ہیں‘ حکمران اس کے باوجود قومی انتخابات کروانے کیلئے تیار نہیں‘ اقتدار کی ایسی ہٹ دھرمی اس سے پہلے شاید کبھی نہیں دیکھی گئی۔موجودہ حکومت جب سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر انہیں اقتدار سے چلتا کرنے پر تلی بیٹھی تھی‘اسی وقت انہیں عمران خان کی طرف سے کہہ دیا گیا تھاکہ کورونا کے بعد موجودہ حالات میں ان سے معیشت نہیں سنبھلے گی‘اس بات کو ازراہ مذاق لیا گیا۔آج موجودہ چوں چوں کے مربہ پی ڈی ایم اتحاد جس میں گھاٹ گھاٹ کی بولیاں بولنے والی جماعتیں یکجا ہیں‘ان کی نو ماہ کی کارکردگی ملاحظہ کرلیجئے‘ معیشت کا اس سے زیادہ بیڑہ غرق آج تک کسی حکمران نے نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ پنجاب‘کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے مزید 35ارکان کے استعفے منظور کرنے کے بعد 60 فیصد ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں‘ جن میں پی ڈی ایم حکمرانوں کی کامیابی کے امکانات بھی 20فیصد سے زائد نہیں تو کیا وجہ ہے کہ حکمران اقتدار کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ آئندہ موجودہ حکمران معیشت کا مزید کتنا ستیاناس کرینگے‘ اس کا اندازہ ملک میں بچے بچے کو ہوچکا ہے۔ حکومت اگر سوچتی ہے کہ وہ معیشت کی ابتری کو جواز بنا کر کوئی ایمرجنسی لے آئیگی اور اس طرح ان انتخابات سے بھی اس کی جان چھوٹ جائیگی‘ایسا ہو نہیں سکتا‘اگر ایسا کیا گیا تو ان کے سہولت کاروں پر مزید انگلیاں اٹھنے لگیں گی۔ایک بات ذہن نشین رہے کہ حکمرانوں نے قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کی دو خواتین ارکان کے علاوہ جن 33ارکان کے استعفے منطور کئے ہیں‘جن میں سے ہر ایک میں اپوزیشن لیڈر بننے کی صلاحیت تھی اور حکمران سمجھتے تھے کہ ان میں سے کوئی اپوزیشن لیڈر بنایا جاسکتا ہے‘ ایسے اقدامات کے باوجود صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی وزیر اعظم کو تاحال اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ان حالات میں وزیر اعظم کی کرسی بدستور خطرے میں ہے۔تحریک انصاف کے مطابق انہوں نے ن لیگ کے وسطی پنجاب سے چار ارکان سے بات چیت کرلی ہے‘جنوبی پنجاب کے ایک رکن سے بھی بات فائنل ہونے کے قریب ہے‘جبکہ مزید دو حکومتی ارکان ان کے رابطے میں ہیں‘ ایسے میں وزیر اعظم کیلئے بغیر کسی سہولت کاری کے اعتماد کا ووٹ لینا آسان کام نہیں‘ موجودہ حالات و واقعات میں تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کی ایک بہت بڑی وجہ قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ اور اس کیلئے پنجاب‘کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل سمیت متعدد اقدامات اٹھانا ہے۔عمران خان نے گزشتہ روز ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ماہ اپریل میں انتخابات کی پیشگوئی کردی ہے‘دوسری طرف ن لیگ کے نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ غیر معمولی حالات میں حکومت کی مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے‘ ان دونوں بیانات سے اندازہ کیجئے کہ کون کیا چاہتا ہے‘ن لیگ انتخابات سے فرار کی چاہ میں حکومت کی مدت میں بار بار توسیع کے اشارے دیتی ہے‘جس پر عوامی جذبات بھڑکتے ہیں اور عمران خان قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے اپنا راستہ بناتے چلے جارہے ہیں۔آئندہ تحریک انصاف کے بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں سے بھی ارکان استعفے پیش کرسکتے ہیں‘ ایسے میں ملک میں عام انتخابات کے علاوہ جمہوری طور پر تو کوئی چارہ کار نہیں‘ نہ ہی اس پر کوئی اخلاقی جواز باقی رہتا ہے۔ یہ بات بھی مکمل طور پر درست ہے کہ موجودہ حکمران ملک کی معیشت کیلئے رسک بن چکے ہیں‘جتنی دیر انتخابات التوا کا شکار ہوئے‘اس کا ملک کو نقصان ہوتا رہے گا‘دراصل اس وقت انتخابات کا مطالبہ ایک جماعت تحریک انصاف کا نہیں بلکہ ملک کی عوام کا ہے اور ملک کی اولین ضرورت ہے‘ تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت البتہ حکمرانوں کو انتخابات سے خوفزدہ کرتی ہے‘حکمرانوں کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کی منظور ی کے بعد ان کے بیشتر ان حلقوں سے امیدوار انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں‘ایسے بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاید حکمران انتخابات نہ ہی کروائیں اور اس کیلئے ایمرجنسی جیسی کسی حماقت کا سہارا لینے کی کوشش کریں‘حکمرانوں کا پی ٹی آئی سے خوفزدہ ہونا بنتا بھی ہے‘ جیسے 17جولائی کو ضمنی انتخابات میں شکست سے دو چار ہونے والے تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین کو آئندہ ن لیگ کا ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کرکے ان کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا‘ اصل میں ن لیگ بھی جان چکی ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف عوامی سطح پر نفرت حد سے زیادہ پائی جاتی ہے‘انہیں پارٹی ٹکٹ دینا شکست پر مہر ثبت کرنے کے مترادف ہوگا‘ان حالات کا علم لندن میں بیٹھے نواز شریف کو بھی ہوچکا ہے‘ن لیگ کے اندرون حلقوں کے مطابق چوہدری پرویز الہی کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد نواز شریف کسی قسم کی مزید خوش فہمی کا شکار نہیں لہذا اب گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ نواز شریف ایک ماہ میں پاکستان آرہے ہیں‘موجودہ حالات میں نواز شریف کی واپسی پر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی واپسی ن لیگ کے پنجاب میں پی ڈی ایم کے ہوتے ہوئے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی‘ البتہ قانونی ریلیف کی صورت میں نواز شریف بھی پی ڈی ایم حکمرانوں کے ترازو میں عوامی نگاہ سے دیکھے جائینگے‘اس لئے قبل از وقت انتخابات ہونگے یا حکمران ان انتخابات سے بھی فرار ہوجائینگے؟ سیاسی منظر نامہ جس حد تک ابرآلو دہے‘سب کچھ دھندلا گیا ہے‘یہی پی ڈی ایم کی ناکامی ہے۔