تابع مہمل اسم ِ نکرہ ہے۔ اس کے بنانے کا طریقہ تو ہم نے کتابوں میں پڑھا مگر اس کا عملی شکار ہم خود ہم کئی برسوں تک ہوتے رہے۔تابع مہمل وہ لفظ ہے جو ایک بامعنی لفظ کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔اردو میں اسے اور طریقے سے اور ہم پنجابی میں اسے اور طرح ساخت کرتے ہیں۔پانی وانی، میز ویز، شہر وہر، یعنی اصل لفظ کے پہلے حرف کو واؤ سے تبدیل کر دیتے ہیں۔مگر ہم ٹھہرے پنجابی اور وہ بھی بار کی سر سبز اور دیہاتی حسن سے پھٹی پڑی پٹی سے، سو ہم اردو کے طریقے کی بجائے اور واؤ استعمال نہیں کرتے ہم ش سے تابع مہمل بنا لیتے ہیں۔پانی سے پانی شانی روٹی سے روٹی شوٹی اور گڈی شڈی۔خود ہمارا ضلع اور شہر منڈی بہاؤالدین ایک عرصے تک گجرات ضلع کا تابع مہمل بنا رہا۔سیاست ہو یا تعلیم ذرائع رسل و رسائل ہوں یا صنعت نیشنل سنٹر ہوں یا ادب کا شعبہ سارا حصہ گجرات تک محدود رہتا۔جیسے ٹیل تک آتے آتے پانی ختم ہو جاتا ہے ویسے ہی ساری سہولیات ہمارے شہر تک آتے آتے ختم ہو جاتیں۔گجرات شہر ایک صنعتی علاقہ ہو گیا اور ہمارے ہاں ایسی کسی نعمت یا ترقی کا خیال بھی خیال ِ محض ہی تھا۔کچھ مہمل الفاظ ایسے ہیں جن کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا جیسے جھوٹ کے ساتھ موٹ اور سچ کے ساتھ مچ۔ ہم جس ادارے میں اپنے ضلع میں کام کرتے رہے اس کا انتظامی یونٹ کبھی گجرات کبھی جہلم اور کبھی سرگودھا ہوتا۔ہم تمام کولیگ اسے مفتوحہ علاقہ کہتے۔ہمارا شہر ضلع کیا بنا ترقی کی راہیں اور موٹر وے سے رابطہ ہوا ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنے لگے۔اب یونیورسٹی آف منڈی بہاؤادین کا خواب بھی پایہ ِ تکمیل تک پہنچنے والا ہے۔ان یونیورسٹی کے کیمپس سے فارغ التحصیل لڑکے لڑکیوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع کیا ملے اب وہ ضلع خواندگی کے لحاظ سے پنجاب کے پہلے ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔طلبا کی صلاحیتوں کو جلا ملی تو انہوں نے مقابلے کے امتحانات، عدلیہ اور ادب میں الگ پہچان قائم کی۔نوجوان شعرا میں صائمہ آفتاب، حسین محسن، نعیم رضا بھٹی، توقیر احمد، قاسم حیات، عقیل عباس، شعیب عدن اور استاد منظور واصب نے خوبصورت شاعری کر کے میدان شعر بھی کسی کے لیے خالی نہ چھوڑا۔نعیم رضا کے اعزاز میں صائمہ آفتاب نے جہاں ایک خوبصورت نشست کا اہتمام کیا وہیں ایک ادبی تنظیم " منڈی آلے" کے نام سے جیسے از خود وجود میں آ گئی۔جیسے کہا جاتا ہے لاہور لاہور ہے ویسے ہی منڈی آلے منڈی آلے ہی ہوتے ہیں۔بہادر، خوبصورت، توانا اور اپنے زور بازو پر یقین رکھنے والے۔ اس نشست میں شرکت کرنے والوں میں سارے اپنے ضلع کے تھے۔ صائمہ آفتاب، نوید غازی، شعیب عدن، قاسم حیات، نعیم رضا بھٹی، زیب النسا واثق اور سیدہ جنت بخاری شامل تھے۔ان شعرا کا کلام سن کر ہمیں یقین ہو گیا اس نسل نے ادب میں بھی تابع مہمل بننے سے یکسر انکار کر دیا ہے۔ادب کی روایت سے جڑے ہوؤں نے امنگوں بھری شاعری کیا سنائی ہمیں نہال کر دیا۔ پیڑ کی کھردری تہہ بیل سے چھپ جائے گی زخم ہے اور مسیحائی سے بھر جائے گا قاسم حیات ان کو سب کا خیال ہوتا ہے عورتیں پہلے دیویاں ہوں گی زیب النسا واثق ملی ہوئی ہے جہاں میں جو نعمت ِگریہ کسے خبر کہ یہ چشمہ رواں رہے نہ رہے شعیب عدن اس پر کبھی کھلے تو کیا ہے عطا کا بھید اس آئنے پہ عکس کا جوہر کھلے کبھی نعیم رضا بھٹی نکل پڑیں کہیں طے کردہ منزلوں کی طرف قریب جا کے کسی راستے میں گم ہو جائیں نوید غازی یہ آب ِتند رو پر جھولتے پل کی مسافت کنارے پر کھڑے لوگوں کو اندازہ نہیں ہے قرار ِقلب ملے راہ کا سراغ ملے کسی مزار پہ چادر چڑھا چراغ جلا ٭٭٭٭ ہمیشہ خیر رہے ، دن ہرے بھرے جائیں ہمارا کام دعا ہے سو ہم کرے جائیں حضور حجرہ دل ہے یہ کوئی باغ نہیں کہاں ٹہلنے نکل آئے ہیں ارے ! جائیں صائمہ آفتاب صائمہ آفتاب کے والد سید آفتاب احمد شاہ صحیح معنوں ترقی پسند شاعر تھے۔وہ نام نہاد ترقی پسندوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل۔علم، روشنی، فراست اور قناعت کے منبع۔تصوف کے قتیل۔دبنگ اور طاقتور لہجے میں شاعری کرنے والے آفتاب احمد شاہ۔ہمارے مہربان دوست مشفق اور بڑے بھائی۔ دیکھیے کس وقت ہم پر وار کرنے کے ارادے سے اٹھے یوں تو چاروں اور اس کے معرکوں کی دھاک ہے اب کے برس اعلیٰ ادبی مجلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے خوبصورت ہیں ویسے ہی صائمہ آفتاب بھی صوری اور معنوی طور پر بہت خوبصورت ہے وہ آپ بھی اور اس کی شاعری بھی اور سب سے بڑھ کر تنظیم " منڈی آلے" کی شان بھی۔