یو اے ای کے ولی عہد ہزہائی نس شیخ ہمدان بن محمد بن راشد اور یو اے ای کے ڈپٹی پرائم منسٹر ہزہائی نس شیخ منصور بن راشد بن زید ایک ہفتے کے نجی دورے پر گزشتہ روز رحیم یار خان پہنچ گئے ہیں اپنے قیام کے دوران دونوں شخصیات تلور کا شکار کھیلیں گے۔ کوئی بھی غیر ملکی مہمان پاکستان آئے تو یہ باعث رحمت ہوتا ہے ۔ غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر سخت ترین حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں، یہی بات قابل توجہ ہے کہ چولستان میں انسانوں اور حیوانوں کیلئے آزاد زندگی کا تصور ہے مگر شکاری جب بھی آتے ہیں تو چولستان کے بہت سے علاقے نو گو ایریاز بن جاتے ہیں ۔ تلور کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی دیکھئے کہ تلور اور دوسرے پرندے سائبریا سے آتے ہیں ، سائبریا کو برف کا علاقہ کہا جاتا ہے، انگریزی دور میں ہندوستان کے مجاہدین آزادی کو سزا کے طور پر یہاں بھیجا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے مہمان پرندوں میں بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان سے ہمارا کوئی خونی رشتہ ہے۔ چولستان میں جہاں شکاری پہنچ رہے ہیں وہاں اگلے ماہ جیپ ریلی بھی ہونے والی ہے، کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور نے شیڈول جاری کر دیا ہے، میں نے راجہ جہانگیر انور صاحب کو بتایا تھا کہ آپ وسیب سے محبت کرتے ہیں ، انسان دوست ہیں ، آپ میں ہمدردی اور غمگساری کے جذبات ہیں ، چولستان بہاولپور ڈویژن میں آتا ہے ، آپ چولستان کی ایک ایک چیز کی حفاظت کریں۔ چولستان میں شکار اور جیپ ریلی کا مقامی آدمی کو آج تک کوئی فائدہ نہیں ملا۔ جیپ ریلی کے عیاش رئیس زادوں کی چھوڑی ہوئی خرافات کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ جس طرح شکاریوں اور جیپ ریلی میں حصہ لینے والے رئیس زادوں کو مہمان سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح سائبریا سے آنے والے پرندوں کو بھی مہمان تصور کیا جائے اور مہمانوں کو مارنا ہماری روایات کے برعکس ہے۔ احمد فراز نے سچ کہا :۔ پیڑ اسی احساس سے مر جاتے ہیں سارے پرندے ہجرت کر جاتے ہیں راہ گیروں کی آوازوں کو غور سے سن یوں ہے جیسے ماتم کر جاتے ہیں سردی کے موسم میں وسیب آنے والے پرندوں تلور، باز، کونج اور مرغابی وغیرہ کو انگریزی میں Migrated Birds جبکہ اردو میں مسافر یا مہاجر پرندے ، سرائیکی میں ان پرندوں کو ’’ پناہ گیر پکھی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو مشکل ہے کہ پناہ کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً چولستان میں آنے و الے پرندوں سے وسیب کی روایات کے بر عکس سلوک ہو رہا ہے، یہ مہمان پرندے معصوم ہی نہیں دلنواز بھی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ان مہمان پرندوں کو وسیب میں موت نہیں حیات ملتی تھی، پیار، محبت اور انس ملتا تھا ۔ سائبریا سے تھوڑا آگے جائیں تو دنیا کا معروف خطہ قطب شمالی آتا ہے جہاں چھ مہینے دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے یوں سائبریا اور قطب شمالی سے آنے والے تمام پرندوں کی اہمیت مسلمہ ہے مگر تلور اور باز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تلور کا گوشت عرب شیوخ کی مرغوب غذا ہے، تلور جونہی سائبریا سے چولستان کا رخ کرتے ہیں تو متحدہ عرب امارات کے شیوخ پاکستان آ جاتے ہیں ، ان شیوخ کے ساتھ ایک فوج ظفر موج گاڑیوں کے کانوائے کے ساتھ موجود ہوتی ہے ۔ عرب شیوخ کے آمد کے ساتھ ہی وسیب کے چولستان میں چرند پرند کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے، اس پر وسیب اس قدر صدمے کا شکار ہے کہ وہ رونا بھی چاہتا ہے تو رو نہیں سکتا ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا شکاریوں نے چولستان کے قدرتی حسن کو برباد کر دیا ہے، چولستان میں پہلے بھی بہت سے مسائل ہیں ، موسمی تبدیلیوں ، ایٹمی تباہ کاریوں ، کیمیائی اسلحے کے استعمال ، زرعی ادویات کی وباء ، کارخانوں کے زہریلے دھویں سے خصوصاً جنگلوں اور درختوں کے کٹائو کے نتیجے میں صرف جنگلی حیات ہی نہیں موسم بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔ موسموں کی تبدیلی سے صرف زمین ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ زیر زمین دنیا بھی تغیرات کا شکار ہے ، زیر زمین پانی آلودہ ، کڑوا اور خراب ہو رہا ہے اور پانی کا لیول گرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی پلیٹیں ہلنے سے زلزلے بھی آ رہے ہیں ۔ یہ تمام صورتحال آنے والے وقتوں کیلئے نہایت ہی تباہ کن خطرات کی نشاندہی کر رہی ہے ، آج یورپ ، امریکا کو جنگوں اور انسانی تباہ کاریوں کی بجائے انسانیت اور کائنات کی بقاء کیلئے دولت خرچ کرنے کی ضرورت اور اس طرح عرب کے مسلم دولت مند حکمرانوں کو پرندوں کے شکار کرنے کی بجائے ان چرند پرند اور زمین کے جمادات و نباتات کی افزائش پر دولت خرچ کرنی چاہئے بصورت دیگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زمین ہی نہ رہی تو پھر شکار کہاں سے آئے گا ؟۔ یہ حقیقت ہے کہ پرندے اس کائنات کا حسن ہیں ، ان کی چہچہاہٹ ہماری سانسوں اور ہمارے اپنے دل و دماغ کی تازگی ہے اور ان کی بقاء دراصل ہماری اپنی ہی زندگی ہے ۔ ان پرندوں کو خدارا کہیں جانے نہ دیں۔ محکمہ وائلڈ لائف کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ چولستان کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کمشنر بہاولپور مسائل کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور انہوں نے سرائیکی ادبی مجلس (رجسٹرڈ) بہاولپور جو کہ بیس سال سے بند تھی اُسے کھولنے کا اعلان کیا ہے، تاہم چولستان کے مسائل خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی چولستان میں لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں، دوسری طرف بڑے شہریوں میں رنگین میوزیکل فوارے بنائے جاتے ہیں جس پر چولستان کے شاعر نے کہا تھا تیکوں گاوے کھیر پلایم پیتم پانی کھارے لوک گواہ ہن سارے میڈی روہی تَسی مر گئی تیڈے شہر فوارے واہ تیڈے بھائی چارے