معزز قارئین!۔ 18 مارچ کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ملاقات کامیاب رہی لیکن ذرائع کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نشر اور شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ’’ جنابِ وزیراعظم کی طرف سے ، ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر ، پنجاب اسمبلی کی جانب سے ۔ وزیراعلیٰ (سردار عثمان بزدار) سپیکر ( چودھری پرویز الٰہی ) اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے پر ناراضی کا اظہار کِیا گیا ‘‘ ۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سے دریافت کِیا کہ ’’ آپ نے تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کی تجویز سے اِتفاق کیسے کرلِیا؟‘‘۔ 

خبروں کے مطابق ’’ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ کی تاحیات مراعات کے فیصلے پر حیرت اور مایوسی کا اظہار کِیا اور اُنہوں نے وزیراعلیٰ کو ،پنجاب میں کفایت شعاری اپنانے اور "Goverance" ( حکومت، طرزِ حکمرانی، منصبِ حکومت، حاکمیت) کو بہتر بنانے کی بھی ہدایت کی ‘‘لیکن، وزیراعلیٰ نے انتظامیؔ معاملات میں پارٹی (پاکستان تحریکِ اِنصاف) کے رہنمائوں کی مداخلت کی کا شکوہؔ کِیا اور کہا کہ ’’اُن کی مداخلت سے (حکومتی ) فیصلوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘‘۔ خبروں کے مطابق ’’جنابِ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ ’’ اپنی "Goverance" بہتر بنانے کے لئے آپ ’’ پاکستان تحریک ِ اِنصاف‘‘ کے منشور پر عملدرآمد کریں ۔ 

معزز قارئین!۔ صورت حال یہ ہے کہ طاقتور وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پاکستان تحریکِ انصاف کے نسبتاً کمزور رُکن پنجاب اسمبلی کو ، پاکستان کے سب بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب کرانے میں صِرف اُن کی مرضی کا دخل تھا؟ ۔ اِس سے پہلے اگر عثمان بزدار صاحب کو کسی دَور میں وزیر / مشیر کے طور پر کام کرنے کا تجربہ ہوتا تو، شاید اُن کا تجربہ اپنی وزارت عُلّیہ کے دَور میں ضرور کام آتا۔ پنجابی میں تجربے کو ’’ جاچ ‘‘ کہتے ہیں ۔ اِس موقع پر مجھے قیام پاکستان سے قبل (متحدہ ) پنجاب کی ایک بولی یاد آ رہی ہے ۔ ایک بزرگ پنجابی نے ایک پنجابی الہڑ مٹیار سے اپنے کسی پنجابی نوجوان کا تعارف کراتے ہُوئے کہا تھا کہ …

تیری سنگ لتّھ جائو ، مٹیارے!

تے مُنڈا ساڈا ، جاچ سِکھّ جائو!

…O…

صُورت یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار نے تو ، وزارتِ عُلّیہ کی ’’ جاچ ‘‘ سیکھتے ابھی صرف 7 ماہ ہُوئے ہیں ۔ ممکن ہے اُن کے مخالف اُن کی وزارتِ عُلّیہ کو ’’ستّ ماہی ‘‘ بھی کہتے ہوں ؟ لیکن ، بقول وزیراعظم عمران خان ۔ ’’ ملک کے معاشی حالات کے حوالے سے پنجاب کے مفلوک اُلحال عوام کا کیا بنے گا ؟ ۔ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ’’Cricket By Chance" (یعنی، کرکٹ میں اِتفاق یا خوش قسمتی سے کامیابی ملتی ہے ) ۔ جناب عمران خان کو بطور کرکٹر "By Chance" (خوش قسمتی سے ) کامیابی ملی ‘‘۔ "By Chance" ہی وہ وزیراعظم بھی منتخب ہوگئے ہیں ۔ خُدا کرے کہ وہ کامیاب وزیراعظم بھی ثابت ہوں ؟۔ اپنی ( پاکستان تحریکِ انصاف کی ) ٹیم کے کپتان (چیئرمین) کی حیثیت سے اُنہوں نے پنجاب کا وزیراعلیٰ ایک ایسے کھلاڑی ؔکو نامزد کِیا ہے۔ جِسے ’’ انتظامی معاملات میں ، ٹیم (پارٹی) کی طرف سے مداخلت کا بھی شکوہؔ ہے؟۔ بقول شاعر…

پُر ہُوں ، شکوے سے ، یوں راگ سے ، جیسے باجا !

اِک ذرا چھیڑئیے ، پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے؟

…O…

معزز قارئین!۔ دراصل ہر حکمران کا ایک "Blue-eyed Boy" ( منظورِ نظریہ چہیتا شخص) ہوتا ہے اور مملکت کے زیادہ تر اختیارات اُسی کے پاس ہوتے ہیں ۔ فاتح سومنات سُلطان محمود غزنوی کے چہیتے غلاموں کی تعداد آٹھ تھی اور ، ملک ایازؔ اُن میں سے ایک تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ محمود غزنوی ، ملک ایاز کی خوبصورت زُلفوں پر بہت فریفتہ تھا۔ پاکستان کے پہلے منتخب صدر سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کِیا تو ، اُنہوں نے اپنی مارشلائی کابینہ میں لاڑکانہ کے نوجوان زمیندار وکیل ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شامل کرلِیا اور اپنا "Blue-eyed Boy" بنالِیا۔

دو دِن بعد وفاقی وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے صدرِ مملکت کو خط لکھا کہ ’’ جنابِ صدر! آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ 20 دِن بعد جب آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف جلا وطن کر کے خود اقتدار  سنبھال لِیا تو ، جنابِ بھٹو فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو بھی اپنا "Papa" بنا لِیا۔ پھر چل سو چل ۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالا تو اُنہوں نے اپنے کئی "Blue-eyed Boys" میں سے ملک غلام مصطفیٰ کھر کو پنجاب کا گورنر بنا دِیا اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب ۔ جناب ِ بھٹو ، پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک اہم شخصیت عبداُلحفیظ پیر زادہ کو تو ، عوامی جلسوں میں بھی ’’ سوہنا مُنڈا ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ میاں نواز شریف کو ، صدر جنرل ضیاء اُلحق نے اپنا "Blue-eyed Boy" بنا لیا تو، اُن کا سارا خاندان ہی سیاست میں آگیا۔ ابھی تک ہے ۔ اب رُل گیا تو، کوئی کیا کرے ؟ ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھی کئی "Blue-eyed Boys" تھے لیکن، وہ اب اپنی آب و تاب کھو بیٹھے ہیں۔ جنابِ آصف زرداری کے بھی کئی "Blue-eyed Boys" کا یہی حال ہے ۔ اگرچہ علاّمہ اقبالؒ  نہیں جانتے تھے کہ اُن کے پاکستان میں کتنے محمودؔ ہوں گے اور کتنے ایاز ؔ لیکن ، اُنہوں نے بہت پہلے کہہ دِیا تھا کہ …

 نہ وہ عِشق میں ، رہیں گرمیاں!

 نہ وہ حْسن میں ، رہیں شوخیاں!

 نہ وہ غزنوی میں ، تڑپ رہی! 

نہ وہ خم ہے ، زُلفِ ایاز میں!

…O…

اگر وزیراعظم عمران خان کو دورِ حاضر کا محمود غزنوی فرض کرلِیا جائے تو ، اُن کے پاس بھی کئی ایازؔ ہیں ۔ سردار عثمان بزدار اُن میں سے ایک ہیں ۔ 25 اگست 2018ء کو میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’ پنجاب کے تین بڑے ، کہاں کہاں کھڑے؟‘‘۔ وہ تین بڑے ہیں ۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان بزدار بظاہر زیادہ اختیارات سردار صاحب کے پاس ہیں لیکن کتنے اختیارات ؟۔ 

وزیراعظم عمران خان نے سردار عثمان بزدار کے دائیں ہاتھ پر وزارتِ عُلّیہ پنجاب کی لکیر کھینچ دِی ۔ اِسے "Lady Luck" کہتے ہیں ۔ جب ایران کے آخری شہنشاہ محمد رضا پہلوی نے ایران کی ایک عام عورت فرح دیباؔ سے شادی کرلی تھی تو، وہ "Farah Diba`s Luck" تھی ۔ تو "Sardar Buzdar`s Luck" کیوں نہیں ہوسکتی ؟ لیکن، پنجابی اکھان کے مطابق ’’ اگے تیرے بھاگ لچھی اے ؟ ‘‘۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے آخری دَور میں احتجاجی تحریک چلانے والوں کی طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ …

’’گلے سڑے نظام کو،ایک دھکّا اور، دو!‘‘

…O…

لیکن، 18 مارچ کو اسلام آباد وزیراعظم عمران خان کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ملاقات کے بعد اگرچہ وزیراعظم کی طرف سے وزیراعلیٰ کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہُوئی لیکن جناب بزدار کو ایک موقع (Chance) اور مل گیا ہے ۔ ہندی زبان کا ایک اکھان ہے …

’’جاکو راکھے ، سائیاں ، مار سکے ، نہ کو!‘‘

…O…

معزز قارئین!۔ ’’موقع ‘‘ کو انگریزی میں کہتے ہیں "Opportunity" ۔ جسے اردو میں ’’ خُوش نصیبی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ ’’ موقع پرست ‘‘ کو انگریزی میں ’’ "Opportunist" کہا جاتا ہے لیکن ، مجھے نہیں معلوم کہ کیا عثمان بزدار میں بھی اِس طرح کی صلاحیت موجود ہے ؟ بہرحال ’’ جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں اُن کے پیر ’’ نواب جہانگیر ابراہیم ‘‘ المعروف اِبراؔ اور صدر زرداری کے دَور میں اُن کے پیر اعجاز شاہ مشہور ہُوئے ، اِسی طرح چند دِن پہلے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے لاہور میں شراب خانہ کا لائسنس پانے والے پیر بھگت ؔ شاہ بھی بہت "Rush"لے رہے ہیں؟ ۔ مَیں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن، ممکن ہے کہ پیر صاحب کچھ مُریدوں نے یا ڈیرہ غازیخان میں سردار عثمان بزدار کے عقیدت مندوں نے وزیراعظم عمران خان کے تصّور میں جا کر یہ نعرے لگائے ہوں کہ …

 ’’ ہمارے بزدار کو ، ایک موقع اور ، دو !‘‘