کشمیر سے علامہ اقبال کے تعلق کے کئی پہلو ہیں: اول:اقبال اور ان کے آبائو اجداد کشمیری تھے۔ دوم:ان کے آباء واجداد کشمیر سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ اقبال کو شدید احساس تھا کہ کشمیری ایک غلام اور مظلوم قو م ہے اور وہ ڈوگرہ ہندوئوں اور انگریزوں کی دہری غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ ابتدا ہی سے وہ کشمیریوںکے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے،اور چاہتے تھے کہ وہ آزاد ہوں،ترقی کریں اور دنیا میں سر بلند ہوں، مگر یہ تبھی ممکن ہوگا جب وہ اپنا رول ادا کرنے کے لیے اٹھیں، آگے بڑھیں اور غلامی سے نجات کے لیے جدوجہد کریں۔ لاہور میں انجمن کشمیری مسلمانان کے نام سے کشمیریوں کی ایک انجمن قائم تھی۔ اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئے اور بی اے کی جماعت میں داخل ہوئے تو اسی وقت انھوں نے انجمن سے تعلق قائم کر لیا،اورانجمن کے جلسوں میں نظمیں اور قطعات پیش کرنے لگے۔ اخبار’’کشمیری گزٹ‘‘میں کشمیر سے متعلق ان کی متعدد منظومات ملتی ہیں۔ علامہ اقبال کشمیریوں کی ذہانت(قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ) اور ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے: زیرک و درّاک و خوش گل ملّتے در جہاں تر دستی ِ او آیتے است (جاوید نامہ، ص ۱۶۰/۷۴۸) (یہ قوم ذہین ،تیز بین اور خوش شکل ہے۔ اس کی ہنر مندی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔) مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ کشمیری اپنی ان خوبیوں کے بر عکس ’’خودی‘‘اور ’’خود شناسی‘‘ سے غافل ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ غلامی تھی جس نے ان کے سارے جذبوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا: از غلامی جذبہ ہائے او بمرد آتشے اندر رگ ِتاکش فسرد جون 1921 میںعلامہ اقبال زندگی میںپہلی بار کشمیرگئے۔ ایک مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں انھیں سری نگر بلایا گیاتھا۔منشی احمد الدین اور منشی طاہر الدین ان کے شریک سفر تھے۔مقدمے سے فراغت کے بعد وہ چند روز کے لیے سری نگر میں مقیم رہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال بتاتے ہیں کہ اقبال شکارے میں بیٹھ کر ڈل کی سیر کو جاتے اور احباب کے ہمراہ نشاط باغ اور شالا مار باغ میں دن گزارتے۔ (زندہ رود،ص۳۱۵) وہ کشمیر کے قدرتی مناظر اور وہاں کے حسن کی دل کشی سے اتنے متاثر ہوئے کہ شاعرانہ وجد کے نتیجے میں کئی نظمیں لکھ ڈالیں۔ نشاط باغ میں تحریر کردہ’’ساقی نامہ‘‘اسی سلسلے کی ایک بے حد خوبصورت نظم ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: خوشا روزگارے، خوشا نوبہارے نجومِ پرن ْرست از مرغزارے زمیں از بہاراں چوبالِ تدروے ز فوارہ الماس بار آبشارے نہ پیچیدنگہ جز کہ درلالہ و گل نہ غلطد ہوا جز کہ بر سبزہ زارے لبِ جو خود آرائی ِغنچہ دیدی؟ چہ زیبا نگارے، چہ آئینہ دارے چہ شیریں نواے، چہ دل کش صداے کہ می آیداز خلوتِ شاخسارے بہ تن جاں، بہ جاں آرزو زندہ گردد ز آوازے سارے ، ز بانگِ ہزارے نواہائے مرغ بلند آشیانے در آمیخت با نغمہ جویبارے تو گوئی کہ یزداں بہشت ِبریں را نہاد است در دامنِ کوہسارے کہ تار حمتش آدمی زادگاں را رہا ساز داز محنتِ انتظارے چہ خواہم دریں گلستاں گر نہ خواہم شرابے، کتابے، ربابے، نگارے سرت گردم اے ساقی ماہ سیما بیار از نیاگانِ مایا دگارے بہ ساغر فرو ریز آبے کہ جاں را فروز دچو نورے، بسوزد چونارے (پیامِ ِ مشرق، ۱۱۵/۲۸۵) شاعرانہ اور رومانوی اندازِ نظر پر ،کشمیریوں کی مظلومیت اور غلامی کا احساس غالب آجاتا ہے: بریشم قبا خواجہ از محنتِ او نصیب تنش جامہء تارتارے (اس کی محنت کے نتیجے میں سرمایہ دار ریشمی قبا پہنے ہوئے ہے،مگر کشمیری کے تن پر لباس تارتار ہے۔) یعنی پہلے ذات کا عرفان حاصل کرنے کی تلقین کی۔ یہاںاقبال خود ،کشمیریوں کی حالتِ زار پر آنسو بہاتے ہیں۔کہتے ہیں میں اہل خطہ کے غم میںبے قرارہوں اور میرے دل سے درد ناک آہیں نکل رہی ہیں۔ کشمیریوں کا پیالہ اپنے ہی لہو سے بھرا ہوا ہے۔ خودی سے محروم ہو کر اپنے ہی وطن بے نصیب ہیں۔اس کی محنت سے دوسرے فائدہ اٹھاتے ہیں۔غلامی سے اس کے جذبات سرد ہو گئے ہیں،مگر یہ قوم ہمیشہ سے ایسی نہ تھی بلکہ: در زمانے صف شکن ہم بودہ است چیرہ و جانباز و پْروم بودہ است (جاوید نامہ،ص ۱۶۱/۷۴۹) (کسی زمانے میں یہ صف شکن اور فاتح بھی تھی۔غالب، جانباز اور بہادر و دلیر بھی تھی۔)آگے چل کر وہ کشمیر کے حسین مناظر کا ذکر کر تے ہیں اور بتاتے ہیں کہ نشاط باغ (سری نگر کا خوبصورت باغ)میں درخت پر بیٹھا،چھوٹا سا ایک پرندہ کہہ رہا تھا کہ یہ بہار تو کوڑی قیمت کی بھی نہیںہے عمرہا گل رخت بربست و کشاد خاکِ ما دیگر شہاب الدین نزاد (جاوید نامہ ،ص ۱۶۲/۷۵۰) (دو صدیوںسے پھول کھلتے ہیںاور مرجھا جاتے ہیں،لیکن ہماری خاک سے کوئی دوسرا سلطان شہاب الدین نہ اٹھا)خیال رہے کہ کشمیری حکمران شہاب الدین شاہ میر کے دور(۵۶ ۱۳تا ۱۳۷۴) میںکشمیر کو سیاسی استحکام ملا اور اس کی سلطنت کی حدیں لداخ ،گلگت ،کاشغر،کابل ،پشاور تک وسیع ہو گئیں۔علامہ کہتے ہیں کہ پرندے کے نالہء پر سوز نے میرے دل میں عجیب اضطراب پیدا کر دیا مگر دراصل یہ تو غنی کاشمیری کی روح ہے ،جو مرگِ آرزو پر ماتم کر رہی ہے۔یہاںاقبال کہتے ہیں: بادِ صبا اگر بہ جنیواگزر کنی حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوئے دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند قومے فردختند و چہ ارزاں فروختند (جاوید نامہ،ص۱۲۲،۷۵۰) (بادِ صبا،اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو تو مجلس اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔دہقان ،اس کی کھیتی،ندیاں،پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا ساری قوم کو فروخت کر دیااور کس قدر ارزاں فروخت کیا۔) یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ بھارت نے تو مسئلہ کشمیر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ میںپیش کیا۔(خیال رہے کہ حریت پسندوں کے ہاتھوں اپنی شکست دیکھتے ہوئے،بھارت نے عالمی ادارے میں دہائی دی تھی،لیکن آج وہ اقوامِ متحدہ کی کوئی بات،تجویز سننے کے لیے آمادہ نہیں)مگر علامہ نے کشمیریوں سے بے انصافی اور ان کے خلاف مظالم کا مقدمہ ۱۹۳۵ء ہی میں اقوام عالم کے سامنے دائر کر دیا تھا۔لارڈ ہارڈنگ کے زمانے میں انگریزوں نے کشمیر کو ۷۵ لاکھ کے روپے کے عوض مہاراجا گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔۱۶ مارچ،۱۸۴۶ئ’’جاوید نامہ‘‘ میں شاہِ ہمدان کی زبانی، علامہ اقبال نے جسم و جان کی حقیقت اور قربانی ،جہاد اور شہادت کی اہمیت واضح کی ہے: چیست جاں دادن؟ بحق پرداختن کوہ را باسوز ِجاں بگدا ختن تازِ جاں بگذشت ،جانشں جانِ اوست ورنہ جانش یک دودم مہمانِ اوست (جاویدنامہ،ص ۱۶۳۔۱۶۴/ ۷۵۱۔۷۵۲ ) (جان دینے کا عمل کیسا ہے؟یہ حق کی پرکھ ہے،یہ عمل جان دینے کے سوز سے پہاڑ کو پگھلانے کے مترادف ہے۔ جب وہ جان سے گزر جاتا ہے تو جان ہمیشہ کے لیے اس کی جان بن جاتی ہے ورنہ یہ جان تو ایک دو دم کی مہمان ہے۔ ) ابدی زندگی تو اپنے آپ سے گزر جانے(شہادت)ہی پر نصیب ہوتی ہے۔غنی کاشمیری علامہ اقبال کی شاعری کی تاثیر کا ذکر کرتے ہیں۔ نشترِ تو گرچہ در دلہا خلید مر ترا چونا نکہ ہستی کس ندید (جاوید نامہ،ص۱۶۷،/۷۵۵) (اگر تیرا نشر[شعر]سیکڑوں دلوں میں اتر چکا ہے، لیکن افسوس کہ تجھے جس طرح کہ تو واقعی ہے،کسی نے نہیں پہچانا۔) علامہ اقبا ل کی ان باتوں ،اشعار اور ظہار خیال کو نصف صدی سے بھی زائد عرصہ بیت گیا۔کشمیریوں کو ان کی باتیںبرابر hauntکرتی رہیں،جگاتی رہیں۔کشمیریوںکی موجودہ تحریکِ آزادی کیا اقبال کے فرمودات تلقین کی مرہون منت نہیں ہے؟لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمر قند،اقبال جس کی جذبے ، اور ولولے کو تازہ کرنے کے لیے عمر بھر کوشاں رہے،اس کے اثرات کشمیریوں کی جدوجہد میںبھی نمایاں ہیں۔کشمیریوں کا جذبہء خودی،خود شناسی، عرفانِ ذات ،ظلم کے خلاف بغاوت، بے انصافی کے خلاف رد عمل، جذبہ ء شجاعت،قربانی و شہادت کے حیرت انگیز واقعات کشمیری،’’چیست جاں دادن‘‘کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں۔اقبال نے کشمیریوں کو احساس دلایا تھاکہ ایک زمانے میں تم ’’صف شکن،جانباز اور پرْ دم‘‘تھے۔یہ بھولا ہواسبق،کشمیری آج دہرارہے ہیں۔ان کے اندر انقلاب کی سلگتی ہوئی چنگاری بھڑک اٹھی ہے۔بھارت کے ہزار مظالم اور سختیوں کے باوجود یہ چنگاریاں بجھنے کے بجائے شعلہ جوالہ میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس وقت بھی،جب کشمیری قوم خوابیدہ تھی اور آزادی کا تصور محض خیال خام تھا، علامہ اقبال کے دل میں کشمیر کا درد موجود تھا۔ انھوں نے کشمیریوں کو ہمیشہ اجتماعی جدوجہد کی تلقین کی اور کہا کہ مل جل کر مسائل پر غور کرکے اپنے اندر ہم آہنگی پیدا کریں۔۱۱ مئی ۱۹۰۹ء کو منشی محمد دین فوق کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اپنے اپنے شہر میں کشمیری مجالس ضرو ر قائم کریں‘‘۔۱۲ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو شیخ عبداللہ کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ باہمی اختلاف ختم کریں۔مختلف جماعتوںکی بجائے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۷ جون ۱۹۳۳ء کوبیان میں کہا:اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پید اکریں۔وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی صرف ایک جماعت ہو ۔ شیخ عبداللہ کہتے ہیں: ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے۱۹۳۱ء میں تحریک ِ حریت کے آغاز میں کلام اقبال سے بھرپور استفادہ کرکے ایک غلام قوم کا لہو گرمایا تھا۔ میں اپنی تقریروں میں اقبال کے حیات آفریں اور روح پرور اشعار کا بکثرت استعمال کرتا تھا اور غلامی کے اس حوصلہ شکن اور مایوس کن دور میں سننے والوں کے دلوں میں آزادی اور انقلاب کی لہریں اٹھتی تھیں۔‘‘ اقبال نے صرف قلمی جہاد ہی نہیںکیا ،عملاََ بھی کشمیریوں کی جدوجہد میں اور ’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی‘‘ (۱۹۳۱تا ۱۹۳۲ء ) کے جلسوں میں شریک رہے۔ ابتدا میں قادیانی کمیٹی میں پیش پیش تھے اور بہت فعال مگر ان کے اپنے تبلیغی مقاصد تھے۔چنانچہ علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سنبھالی اور اس حیثیت میں اسیرانِ حریت کی مالی امداد کا انتظام کیا اور ان کے مقدمات کی پیروی کی۔ اقبال خود بھی کشمیر جانا چاہتے تھے،مگر کشمیر میں ان کے داخلے پر پا بندی تھی،اس لیے نہ جا سکے۔(زندہ رود،ص۵۰۱)پٹنہ کے نعیم الحق صاحب محبوس کشمیریوں کے مقدموں کی پیروی کررہے تھے۔علامہ نے انھیں لکھا:’’میں اس تمام زحمت کے لیے ،جو آپ برداشت کر رہیں ہیں اور اس تمام ایثار کے لیے،جو آپ گوارا فرمارہے ہیں،بے حدممنون ہوں۔‘‘ اس طرح وہ گویا مسئلہ کشمیر کو اپنا ذاتی اورانسانی مسئلہ سمجھتے تھے۔ کشمیریوں کی آزادی کے لیے اقبال کے خواب کو افغان جہاد،وسطِ ایشیا کی بدلتی ہوئی صورتِ حال اور کشمیری مسلمانوں کے جہاد کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی تعبیر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔جبرواستبداد کی قوتیں،ہر جگہ پسپا ہو رہی ہیں۔عالمی تاریخ کے سب سے بڑے جابرانہ نظام(اشتراکیت)کا عبرت ناک انجام ہم دیکھ چکے ہیں۔ مارکس ولینن کے مجسمے زمین بوس ہوئے۔ کمیونزم کو ماسکو میں بھی پناہ نہیں مل رہی۔بھارت کا جبر کب تک چلے گا۔بقول اقبال: گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو تھرتھراتا ہے جہانِ چار سو و رنگ و بو