ایک بات ہمارے نئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بڑے پتے کی کہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی آپش نہیں ہے کہ ہم اپنی سالانہ ترقی کی رفتار کم از کم چھ سات فیصد تک لے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے حاصل ہو گی۔ پرانی حکومت نے قرضے لئے‘ سی پیک کے منصوبے کا آغاز کیا۔ کچھ بھی کیا ترقی کی رفتار کو کھینچ تان کر ساڑھے پانچ فیصد سے اوپر تک لے آئے اور ان کی منصوبہ بندی کے تحت پچھلے سال چھ سے اوپر اور اس برس اس شرح نمو کو سات فیصد تک ہونا تھا ہم نے قرضوں کے خلاف ایسا ذہن بنایا اور سی پیک کے خلاف آئی ایم ایف کے کہنے پر یوں نبرد آزما ہو گئے کہ شرح نمو منفی تک چلی گئی۔ میرے جیسے سماجی انسان بار بار کہتے تھے کہ حکومتی قرضے میرے آپ کے ذاتی قرضے نہیں ہوا کرتے۔ ترقی پذیر ممالک انہی قرضوں کی مدد سے آگے بڑھا کر تے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک ہی نہیں امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اگر ان معنوں میں دیکھا جائے تو قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ یاد رکھیے قرضے انہیں ملا کرتے ہیں جو خود کو اس کا اہل ثابت کریں۔ اگر ہمیں قرضے ملے تھے تو اس بات کی علامت تھی کہ ہم پر اعتبار کیا جا رہا تھا۔ ہم نے چین کے منصوبے میں اس کا ساتھ دے کر اس پر احسان نہیں کیا۔ اپنی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا ہے۔ یہ قرضے ان شعبوں میں خرچ ہوئے جن کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی انرجی اور نقل و حمل۔ پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ سڑکیں‘ پل اور اوورہیڈ بنانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ ہم افرادی قوت پر صرف کریں گے۔ اس کا کیا مطلب ہے اس کی آج تک خبر نہ ہوئی۔ مگر وزیر اعظم کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ انہیں اب احساس ہو گیا ہے کہ سڑکیں بننے سے انقلاب آ سکتا ہے۔ صرف سیاحت کا انقلاب نہیں بلکہ سکھر‘ حیدر آباد موٹر وے بننے سے مواصلات کا انقلاب بھی۔شکر ہے آپ کو یہ بات سمجھ تو آئی۔ مواصلات کی کسی ملک کی معاشی ترقی میں کتنی اہمیت ہے۔ گزشتہ حکومت یہی کر رہی تھی۔ انرجی اور مواصلات کے مسائل حل کر رہی تھی۔ اس حوالے سے ایک مبسوط منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ اس بات کی توقع تھی کہ یہ منصوبے اپنی تکمیل کے بعد نہ صرف سرمایہ کاری لائیں گے بلکہ ہر میدان میں ترقی کی راہیں ہموار کریں گے۔ یہ فالتو بحث ہے کہ انرجی کے منصوبے مہنگے ہیں۔ ایک تو ایسا تھا نہیں‘ دوسرا اس کا متبادل بنا دیجیے متبادل صرف ایک تھا ۔وہ تھا ہائیڈرو پاور کے منصوبے۔ان میں وقت لگتا ہے۔ اس ملک سے سب سے بڑی دشمنی کالا باغ ڈیم کو مسترد کر کے کی گئی۔ رہ گیا بھاشا ڈیم تو وہ جانے کب مکمل ہو گا۔ تو قوم اس عرصے میں کیا اندھیروں میں ڈوبی رہتی ایک حکومت نے رینٹل پاور کا تجربہ کیا۔ ناکام رہا جانے نااہلی تھی‘ بدنیتی تھی یا کیا تھا۔ بہرحال ناکام ہوا۔ دوسری حکومت نے جواب میں سستی انرجی پر چلنے والے منصوبے اس تیز رفتاری سے مکمل کئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سستی انرجی کے لئے ٹرمینل لگانے کی ضرورت تھی‘وہ بھی لگا دیے۔کوئلہ لے جانے کے لئے ترسیل کا نظام بنانے کی ضرورت تھی وہ بھی کر دیا۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے لگے کہ پاکستان کو ایک بحران میں مبتلا کر دیا گیا۔ ہم چلتے ہوئے منصوبوںکو بریک لگا بیٹھے۔ آتے ہی اعلان کیا کہ سی پیک ایک سال کے لئے ملتوی کر دینا چاہیے۔ ہم نے وہ کچھ کیا جو اس ملک سے دشمنی کے مترادف تھا۔ تین سال سے ہماری شرح نمو منفی تک جا پہنچی ہے۔حکومت پاکستان کے تخمینے بتاتے ہیں کہ ہم آسانی کے ساتھ وہ ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے جو نئے وزیر خزانہ نے ملک کے لئے ناگزیر سمجھا ہے۔بہرحال یہ ان کے لئے چیلنج ہے۔ ہم جو اپنی بیلنس شیٹ درست کرنے میں لگے ہیں۔ بالآخر یہ جان گئے ہیں کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کو اس قیمت پر بیلنس کرنا کہ آپ کا خسارہ کم دکھائی دے کوئی کارنامہ نہیں ہے۔آپ کے ملک میں انرجی استعمال نہ ہو اور آپ تیل کم منگوائیں یا آپ کے ہاں مشنری اور خام مال کی ضرورت نہ ہو اور آپ اس پر زرمبادلہ بچا رہے ہوں تو یہ کوئی مثبت نشانیاں نہیں ہیں۔ بھلے سے آپ ان مدوں میں سرمایہ خرچ کریں‘ ملک کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے تو ایسا ہونا چاہیے۔ مطلب یہ کہ آپ کو ہر صورت وہ پالیسی اپنانا ہے جو آپ کی ترقی کی ضمانت بنے پراڈکشن کے شعبے میں ایسا ہو سکتا‘ اس لئے کہ بنیادی ضروریات اب دستیاب ہیں۔ ایک اور شعبہ جس میں بڑا کام کرنے کی ضرورت ہے وہ زرعی شعبے ہے۔ہم آج تک قائم و دائم ہیں تو اسی شعبے کے طفیل ہیں۔ اس برس ہم گندم‘ چینی ‘ کپاس تینوں باہر سے منگوا رہے ہیں۔ہے نا غضب خدا کا۔ ہم گندم ایکسپورٹ کرتے تھے۔ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ اس بار ہم نے کپاس بھی نصف سے کم پیدا کی ہے۔ رہا گنا تو ہم نے اس کے بڑے ناز اٹھائے ہیں مگر چینی کو ایک سیاسی الجھائو بنا کر رکھ دیا ہے۔ زراعت میں بڑی اختراعات کی ضرورت ہے۔ کوئی ہے جو اس پر غور کرے۔ ہم اس سیکٹر میں بھی مار کھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے۔ اب وزیر خزانہ شوکت ترین کو یہ خیال آیا ہے تو اصل امتحان یہی ہے کہ وہ کیسے اتنی شرح نمو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔شوکت ترین یوں تو ایک بنکار ہیں۔ شوکت عزیز کی طرح۔ میں نے شوکت عزیز سے کہا تھا کہ ہم نے ملکی معیشت چارٹرڈ اکائونٹنٹس اور فنڈ مینجرز (بنکاروں) کے سپرد کر رکھی ہے۔ اس وقت سوچتا ہوں تو یہ لوگ بہت غنیمت دکھائی دیتے ہیں۔ اگر شوکت ترین کسی بنکر کی طرح بیلنس شیٹ ٹھیک کرنے پر نہیں لگ جاتے اور ایک اچھے معیشت دان کی طرح معیشت کے پھیلائو پر زور دینے کی حکمت عملی اپناتے ہیں تو یہ یقینا مثبت بات ہو گی۔ شوکت ترین پر پھبتی کسی جا رہی۔ میں ماہر معاشیات نہیں تاہم ایک صحافی کے طور پر اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان کی معاشی بقا ملک کی ترقی کی رفتار میں تیزی لانے میں ہے۔ باقی سب فلسفہ ہے۔ اللہ ہمیں ان فلسفہ دانوں سے بچائے۔