ضرورتوں کے پیچھے سر پٹ بھاگتی دوڑتے‘ زندگی کا بوجھ ڈھونے شب و روز عید کی دو چھٹیاں ایسے ہی ہیں جیسے طویل سفر کی تھکاوٹ کے بعد آپ گھر کے مانوس آنگن میں قدم رکھیں۔ اور عید تو ہے ہی ایسا تہوار کہ گھر کے آنگن کو چھوڑ کر پردیس کے دشت میں آئے ہوئے لوگ غم روزگار کی ساری زنجیریں اتار کر گھر واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ اپنے شہر‘ اپنے گائوں ‘گوٹھ ‘ گراں‘ بستی۔ قصبوں کے مانوس راستوں پر زندگی اپنی تھکن اتارنے لگتی ہے۔ کسی کو آتش شوق کسی خواب کی تعبیر پانے کے لیے گھر سے بے گھر کرتی ہے تو کوئی کاکل روزگار سنوارنے کی سعی میں آنگن سے دور پردیس کے دشت میں پناہ لیتا ہے۔ ؎ ہر ایک شے سے آنکھ چرا کر پھر ایک دن آنگن سے دور دشت میں جانا پڑا مجھے تعلیم‘ روزگار اور اپنی ذات کو دریافت کرنے کے سفر میں نکلے ہوئے لوگوں کی دوستیاں ‘ تعلقات میل میلاپ سب کچھ پردیس میں پنپنے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ پرانے دوستوں کی یادیں دل میں محو ہونے لگتی ہیں لیکن عید تو پھر عید ہے۔ واحد ایسا تہوار جس کے آنے پر پردیسیوں کے دل میں گھر کی یاد اک بھوک کی طرح اٹھتی ہے۔! اپنوں کی دید کے بغیر عید کا تصور نہیں ‘سو پردیسی عید قریب آتے ہی غم روزگار کی زنجیروں سے چھٹکارا پا کر ان آنگنوں کی راہ لیتے ہیں جہاں دہلیز پر اپنے دل چھوڑ آئے تھے: عید کا جو ذائقہ پردیسیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کے سفر اور خوشی میں ملتا ہے اور پھر اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ مل بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے وہ شاید ان لوگوں کے نصیب میں نہیں جو عید کی چھٹیاں قریب آنے پر نہ سامان باندھتے ہیں نہ بسوں‘ لاریوں‘ ٹرینوں کے ہوش رُبا رش میں گھروں کو جانے کا سفر کرتے ہیں اور پھر عید کی صبح جب وہ اپنے آپ کو مانوس چہروں کے ہجوم میں پاتے ہیں تو ان کی عید دوبالا ہو جاتی ہے انہیں اس کلیشے کا مفہوم سمجھ میں آ جاتا ہے کہ عید تو ہے ہی اپنوں کی دید‘‘ سامان باندھ کر بچھڑے ہوئے آنگنوں کی طرف روانگی والی عید کا ذائقہ میں نے چکھا ہے۔ جب امی جان کے عدم کو سدھارنے کے بعد ابو جان کو اپنے گھر کا سیٹ اپ اس لیے رول بیک کرنا پڑا کہ بچوں میں سے گھر پر کوئی بھی موجود نہ تھا شادی‘ نوکری اور پڑھائیوں کے پیچھے سب گھر سے دور تھے ہمارے خاندان میں ٹرانزیشن کا وقت 2002ء سے شروع ہوا میں صحافت میں تازہ تازہ قدم رکھ چکی تھی۔ دو بھائی لاہور ہی میں زیر تعلیم تھے سو عید آئی تو ہم پردیسی اپنا سامان باندھ کر گھر کو جانے والے رستوں پر سفر کرتے۔ بھائی جان کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوتی رہی۔ اس دور کی عیدیں خان پور‘ مظفر گڑھ‘ بھکر اور لیہ میں گزریں ۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ شہر نیا ہے۔ بس جب وہی مانوس چہرے اپنے اردگرد ہوتے تو ان کی چھائوں میں بیٹھ کر زندگی اپنی تھکن اتارنے لگی! بھائی اور بھابھی کی مہمان نوازی والد کا وجود خوشی اور اطمینان کا ایک یک گو نہ احساس اپنے حصار میں لے لیتا۔! یہ سلسلہ 2007ء تک رہا اس کے بعد سے پردیسیوں والی عید کا ذائقہ پھر نہیں چکھا! یہ اور بات ہے کہ ہر عید پر آج بھی دل یادوں کا سامان باندھ کر اس آنگن کی طرف سفر کرتا ہے جہاں میری ماں کا وجود گھر کو مہکاتا تھا۔ زندگی بے فکری کی ہم جولی تھی۔ ماں باپ کی چھتنار چھائوں بہن بھائیوں کے ساتھ زندگی کو حسین بناتے چھوٹے چھوٹے ہنگامے عید آتی تو امی ابو سے فرمائشیں منواتے۔ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق عید کے ڈریس بنواتے اور یہ سوچ بنا کہ ہماری ان بے جا کی فرمائشوں میرے شفیق باپ کی جیب پر کتنا بوجھ پڑتا ہو گا جس کا خود انہوں نے کبھی احساس ہی نہ دلایا۔ باپ کے مضبوط سائے اور ماں کے آنچل سے بندھی وہ عیدیں آج بھی یادوں میں ترو تازہ ہیں۔ الحمد اللہ والد صاحب کی محبت اور بے پایاں شفقت تو آج بھی ہمارے نصیب میں ہے۔ اللہ انہیں صحت اور سلامتی عطا فرمائے: کبھی سوچتی ہوں کہ وہ عیدیں شاید اس لیے آج بھی یادوں میں گدگداتی ہیں تب موبائل فون اور سیلفی جیسی چیزیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں جب گھر کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تو واقعی ایک دوسرے کے ساتھ ہی ہوتے۔ ایسا نہیں کہ جو آج کل ہو رہا ہے ایک ہی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے سمارٹ فون کے ذریعے بیٹھے بیٹھے اس محفل سے آئوٹ ہو جاتے ہیں اس دور کی عیدوں میں لوگ ایک دوسرے کو واقعی ملنے جاتے تھے میل ملاقات کے یہ لمحے سیلفی اور پک سینڈروم(pic syndroom)نے ضائع نہیں کیے تھے۔ اب ہم ملتے ہیں تو موبائل پر سلفیاں کھینچتے۔ تصویر بنانے انہیں ایڈٹ کرنے فوٹو شاپ سے اپنی تصویروں کو اصلی سے نقلی کرنے انہیں اپ لوڈ کرنے اور شیئر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ باقی کا وقت دوستوں کی اپ لوڈ کی ہوئی تصویروں پر کمنٹ کرنے اور لائک کرنے میں بتا دیتے ہیں۔ اپنوں کے ساتھ گزارتے ہوئے عید کے فرصت اور خوشی کے لمحات ہم اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بھی فکر کھائے جاتی ہے کہ ہماری اپ لوڈ کی ہوئی تصویروں پر کتنے لائکس آئے۔ کن دوستوں نے نائس اور سٹے بلیسڈ کے وہی رٹے رٹائے الفاظ لکھے کس نے سراہا کس نے اگنور کیا۔اس ساری نان سینس افراتفری میں ہم عید کے نایاب ‘ خوش رنگ اور فرحت سے مزین لمحوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ قارئین! عید کے یہ لمحے اگر اس بار واقعی یادگار بنانا چاہتے ہیں تو خود کچھ دیر کے لیے سوشل میڈیا کے کھونٹے سے آزاد کر کے کچھ خالص اور خوب صورت لمحے اپنوں کے ساتھ گزاریں۔ ان نایاب لمحوں کی سنورتا میں اتر کر انہیں محسوس کریں۔ گزری عیدوں کو اپنی یادوں میں دھرائیں۔ وہ لوگ زندگی کے میلے میں بچھڑ گئے انہیں یاد کریں۔ گزشتہ عید الفطر پر مجھے احساس کی ایسی ہی رو نے اپنے ساتھ بہایا تو میرے قلم سے یہ چند اشعار نکلے۔ آج عید کے دن آپ سب کی نذر شاید اس میں آپ کو بھی اپنا چہرہ‘ بچھڑا ہوا کوئی آنگن اور گزشتہ عیدوں کے رنگ نظر آ جائیں: ماں کے آنگن میں تھی جو کھیلی عید کھو گئی ہے کہاں سجیلی عید چاند کو دیکھنے کی خواہش میں چھت پہ خوشبو بنی چنبیلی عید عید کارڈوں سے گھر سجاتی تھی میرے بچن کی وہ سہیلی عید اپنے بٹوے میں عیدیاں بھر کے شہر میں گھومتی گھومیلی عید کتنے چہروں کو ڈھونڈتی ہے اب ہو گی کس قدر اکیلی عید اب وہ منظر بھی خواب ہونے لگا جس کے ہونے سے تھی پہیلی عید