خان صاحب ہمارے عزیز دوستوں میں سے ہیں۔ آپ ان کی داستان غم سنیں گے تو کلیجہ منہ کو آئے گا۔ دنیا میں یوں تو بڑے بڑے بدقسمت لوگ پیدا ہوئے ہیں لیکن خان صاحب جیسا بدقسمت انسان آپ کو خوش قسمتی ہی سے ملے گا۔ ان کی پہلی اور بنیادی بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس برصغیر میں پیدا ہو گئے ہیں جہاں جہالت ہے‘ بھوک ہے‘ بیماری ہے اور جہاں کے رہنے والے ہر لحاظ سے جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور پھر ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں دولت کی ریل پیل تک نہ تھی۔ ان کے والد جنہیں وہ باپ سالا کہہ کر یاد کیا کرتے ہیں‘ معمولی حیثیت کے آدمی تھے جن کی کل کائنات مزنگ روڈ پر دو کوٹھیاں اور چند ایک دکانیں تھیں‘ جن کی دیکھ بھال اور کرایہ وصولی میں خان صاحب کو ان گنت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بقول ان کے باپ سالا میرے لیے پریشانی کا سامان چھوڑ گیا۔ آپ ہی انصاف سے فرمائیے کہ خان صاحب اگر برلایا ٹاٹا جیسے کسی خاندان میں پیدا ہو جاتے تو کیا قیامت ٹوٹ پرتی۔خان صاحب بی اے کرنے کے بعد سی ایس پی افسر بننا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مقابلے کا امتحان دیا لیکن اس ملک میں بدقسمتی سے ہر کام رشوت سے ہوتا ہے اور پھر سفارش سے۔ چنانچہ خان صاحب کو تحریری امتحان میں فیل کردیا گیا۔ خان صاحب نے ہمت نہ ہاری اور اگلے سال پھر امتحان دے ڈالا۔ اس بار پرچے اتنے اعلیٰ حل کئے کہ ممتحن انہیں باوجود کوشش کے فیل نہ کرسکے لیکن بدقسمتی نے انٹرویو کے وقت آ لیا۔ انٹرویو لینے والے ان کی شخصیت اورعلم سے متاثر ہونے کے بجائے حسد میں مبتلا ہو گئے اور بربنائے کینہ و حسد انہیں فیل کردیا اور ان کے مقابلے میں نالائق لیکن سب سفارشی امیدواروں کو پاس قرار دے دیا۔ اس کھلی دھاندلی پر خان صاحب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ معلمی کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سکول کے لڑکے بقول خان صاحب بہت ’’حرامی‘‘ تھے۔ بالخصوص خان صاحب کی کلاسز میں ہیڈ ماسٹر نے جو ان کے علم و فضل سے جلتا تھا چن چن کر شرارتی اور نالائق لڑکے جمع کردیئے تھے تاکہ خان صاحب تنگ آ کر خود ہی سکول چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ چالیس میں سے اڑتیں منٹ تو انہیں خاموش کرانے میں لگ جاتے جونہی لڑکے خاموش ہوتے پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج جاتی۔ (بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ گھنٹی پہلے بجتی پھر لڑکے خاموش ہوتے ،واللہ اعلم بالصواب)۔ سکول کی انتظامیہ سے یہ بھی نہ ہوا کہ انہیں فارغ اوقات میں بیٹھنے کے لیے الگ کمرہ ہی دے دیتی جس میں ایک آدھ قالین اور دو چار صوفے ہوتے۔ آخر ایک روز ہیڈ ماسٹر کی سازش کامیاب ہو گئی اور اس کے اکسانے پر لڑکوں نے خان صاحب کی کلاسوں کا بائیکاٹ کردیا۔ خان صاحب نے طیش میں آ کر استعفیٰ دے دیا لیکن آتے وقت ہیڈ ماسٹر کو وہ بے نقط سنائیں کہ اس کی طبیعت صاف ہو گئی۔ اب خان صاحب نے ایم اے کی تیاری کر کے امتحان دے ڈالا۔ بدقسمتی سے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن تو حاصل نہ کر سکے تاہم پاس ہو گئے اور چند ماہ بعد ایک مقامی کالج میں لیکچرار لگ گئے لیکن مقدر کی سیاہی پھر بھی کم نہ ہوئی۔ تنخواہ اگرچہ پہلے سے زیادہ تھی۔ اٹھنے بیٹھنے کو الگ کمرہ بھی مل گیا لیکن چپڑاسی ایک بھی نہ ملا۔ حکومت سے یہ تک نہ ہوا کہ جی او آر میں کوئی ڈھنگ کی کوٹھی ہی رہائش کے لیے دے دیتی (خان صاحب کی اپنی کوٹھیاں کرائے پر اٹھی ہوئی تھیں جن کے مکین بدقسمتی سے خالی کرنے پر رضامند نہ تھے)۔ کالج آنے جانے کا مسئلہ بھی خاصا سنگین تھا۔ کالج کی اپنی کوئی بس نہیں تھی۔ اے جی آفس والے کار خریدنے کے لیے پیشگی رقم نہیں دیتے تھے۔ مجبوراً خان صاحب کو اپنے ذاتی سکوٹر پر کالج آنا پڑتا۔ لیکچر رشپ میں ایک خرابی یہ تھی کہ اوپر کی آمدنی کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ لے دے کر کبھی کبھار ایف اے‘ بی اے کے پرچے مل جاتے جن کا معاوضہ برائے نام تھا۔ چنانچہ خان صاحب پرچوں پر محض سرسری نظر ڈال کر نمبر لگا دیتے۔ جلد ہی خان صاحب اس پیشے سے بھی بد دل ہو گئے۔ بھلا یہ بھی کوئی پیشوں میں پیشہ تھا۔ نہ کوٹھی‘ نہ کار‘ نہ چپڑاسی‘ نہ ٹیلیفون‘ نہ رعب‘ نہ دبدبہ حالانکہ مجسٹریٹوں کو یہ سب کچھ میسر تھا۔ تنگ آ کر خان صاحب نے پی سی ایس کا امتحان دے ڈالا۔ پاس بھی ہو گئے اور مجسٹریٹ بھی لگ گئے لیکن واہ ری بدقسمتی! تونے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ آئے دن ٹرانسفر ہو جاتی۔ ایک جگہ جم کر بیٹھ نہ پاتے کہ دوسری جگہ جانے کا حکم مل جاتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جواب طلبی کرنے والے ایک نہیں کئی‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ سیکرٹری‘ ہائی کورٹ زندگی عذاب بن کر رہ گئی۔ ایک بار ہائیکورٹ نے توہین عدالت کے سلسلے میں طلب کرلیا۔ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ کر جان چھٹی۔ عدالت میں بے چارے خان صاحب کو اتنا کام کرنا پڑتا کہ بمشکل پیسے جیب میں ڈالنے کی فرصت ملتی۔ سارا دن اوٹ پٹانگ قسم کے مقدمے سننا پڑتے۔ وکیلوں کی باتیں اپنی جگہ پریشان کن ہوتیں۔ گھر جا کر ایک سینئر وکیل سے مقدمات کے فیصلے لکھوانا پڑتے۔ وہ وکیل لوگوں سے پیسے لے کر اپنی مرضی کے فیصلے لکھ لیتا اور لاکھوں کماتا لیکن بددیانت اس حد تک تھا کہ اکثر خان صاحب کے حصے کے پیسے بھی خود ہی ہضم کرلیتا۔ مسائل کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وقتاً فوقتاً شہر میں ہنگامی ڈیوٹی لگ جاتی۔ عید کے روز لوگ تو نماز عید پڑھ رہے ہوتے اور خان صاحب باہر ڈیوٹی دے رہے ہوتے۔ زندگی ایک مشین بن کر رہ گئی۔ خان صاحب لیکچر رشپ کے زمانے کی فراغت یاد کرتے اور آہیں بھرتے۔ رومان اور شادی کے سلسلے میں بھی خان صاحب خاصے بدقسمت ثابت ہوئے۔ چنانچہ پہلے تو خان صاحب لڑکی کا خاندانی پس منظر جاننے کے لیے جاسوسی کا مشن چند قریبی دوستوں اور بے تکلف طلباء کے سپرد کرتے ہیں۔ اگر یہ رپورٹ مل جائے کہ لڑکی کا پس منظر اطمینان بخش ہے تو وہ لڑکی کے پیش منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑکی کے نوجوان رشتہ داروں‘ ہمسایوں اور کالج فیلوز کا بغور مشاہدہ اور مطالعہ کرتے ہیں۔ اگر پیش منظر اطمینان بخش نکلے تو رشتے کے لیے ’’ہاں‘‘ کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں لیکن اس سارے عمل میں دقت یہ پیش آتی ہے کہ متعلقہ لڑکی اپنے اطمینان بخش پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ پیا گھر منتقل ہو چکی ہوتی ہے۔ چند ایک تو یہ کہہ کر انکار کر چکی ہیں کہ خان صاحب (میرے منہ میں خاک) پاگل اور خبطی ہیں اور وہ خان صاحب سے شادی کر کے اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتیں۔ بہرحال رشتوں کی کمی اب بھی نہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ڈھنگ کی لڑکی کا ملنا انتہائی مشکل ہے۔ مثلاً لڑکی اگر ایم اے ہے تو خوبصورت نہیں‘ خوبصورت ہے تو لمبی نہیں‘ لمبی ہے تو پتلی نہیں‘ پتلی ہے تو امیر زادی نہیں‘ امیر زادی ہے تو گوری نہیں‘ گوری ہے تو سانولی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ لڑکی ہر لحاظ سے مناسب ہے مگر پٹھان نہیں۔ ایک بار تمام خوبیوں والی ایک پٹھان لڑکی مل بھی گئی لیکن اس کے والد کا انداز گفتگو خان صاحب کو پسند نہ آیا اور یوں وہ لڑکی خان صاحب کی بیوی بنتے بنتے رہ گئی۔ غالباً اب تو آپ کو یقین آ گیا ہو گا کہ خان صاحب اس صدی کے بدقسمت ترین انسان ہیں۔ اللہ ان کی حالت پر رحم کرے اور ان کے دن بدلے۔