ان دنوں ایک نئی فلم ’’مولا جٹ‘‘ کا ہر طرف شہرہ ہے۔کیا بچّے کیا بوڑھے کیا جوان اور کیا عورتیں‘ جسے دیکھو مُنہ اٹھائے یہی فلم دیکھنے چلا جا رہا ہے۔فلم بھی کوئی ایسی نئی نہیں‘ برسوں پہلے اسی نام سے پہلے بھی بن چکی ہے۔البتہ کاسٹ نئی ہے۔ہدایت کار بھی نیا اور اسکرپٹ بھی ازسرنو لکھا گیا ہے۔ہم نے جب دیکھا کہ سبھی بغیر دیکھے ہی اس فلم کے لوگ دیوانے ہیں تو ہمارے دل میں بھی آیا کہ جا کر دیکھیں کہ فلم میں ایسا کیا ہے کہ دیکھے بغیر ہی لوگ اس کے عاشق ہو گئے ہیں۔لیکن جو دیکھ کر آئے انہوں نے بتایا کہ فلم میں بڑا خون خرابہ ہے۔قدم قدم پہ کشت و خون اور ہر سین لڑائی اور مارکٹائی سے بھر پور۔ہم ٹھہرے امن پسند شہری۔آج تک ایک مکھی اور مچھر نہ مار سکے تو فلم میں مولا جٹ کی دلاوری کی بھلا کیا داد دے سکیں گے۔سو ہم نہیں گئے اور اچھا ہی ہوا کہ نہیں گئے۔صبح سویرے اخبار پڑھنے کی عادت ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ جب ہمیں اخبار میں کسی نہ کسی مولا جٹ کی شجاعت کا قصہ نہ پڑھنے کو ملتا ہو۔ کوئی مولا جٹ اپنی بیوی کو قتل کر ڈالتا ہے‘ کوئی کلہاڑی سے کسی بے گناہ کو راہی ملک عدم کرتا ہے‘ کوئی خاندانی دشمنی کا بدلہ اتارتا ہے۔ اخباروں میں یہ قصّے نہ چھپیں تو یہ کیسے معلوم ہو کہ معاشرے کا درجہ حرارت کیا ہے؟ ایسے خونی واقعات ہی سے تو اخبار کی رونق بڑھتی ہے۔لیکن اخبار میں قتل و غارت گری کا پڑھنا اور بات ہے اور فلم میں زندہ حالت میں ایسے منظروں کا دیکھنا اور بات۔سنا ہے فلمیں اس لئے اچھی لگتی ہیں کہ فلم میں وہ ہوتا ہے جو زندگی میں نہیں ہوتا۔مثلاً ہیرو ہیروئن بھری پری سڑک پر ناچتے ہیں اور ڈوئیٹ گاتے ہیں یا ہیروئن کھیتوں میں دوپٹے لہراتی ملتی ہے تو ایسے منظر حقیقی زندگی میں دیکھنے کو بھلا کہاں ملتے ہیں۔ہیرو تن تنہا غراتا ہوا اور للکارتا ہوا ولن اور اس کے ساتھی غنڈوں کو رگیدتا اور مار مار کے بھرکس نکال دیتا ہے تو سچ مچ میں ایسا کہاں ہوتا ہے؟ سنا ہے پنجابی فلموں کے سلطان راہی جو فلموں میں اکیلے پندرہ بیس غنڈوں کا مقابلہ کر لیتے تھے حقیقی زندگی میں ڈاکوئوں سے بھڑ گئے تو اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ہمیں یاد ہے برسوں پہلے ایک فلم آئی تھی ’’مسافر‘‘ جاوید جبار صاحب نے یہ فلم بنائی تھی۔ ہم یہ فلم دیکھنے گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس میں ہیرو ولن اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں بری طرح سے پٹتا ہے۔یہاں تک کہ خاک چاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ہمیں تو یہ اچھا لگا کہ کیسی حقیقت پسندی پر مبنی فلم ہے ۔ لوگ باگ فلم دیکھنے کیوں آتے ہیں وہ فل میں ہیرو کو ناقابل شکست دیکھنا چاہتے ۔طاقتور کمزور کو دبائے رکھتا ہے اور غنڈے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں تو اگر فلم میں بھی غنڈے فتح یاب ہوں تو فلم دیکھنے کا فائدہ؟ ہاں فلم میں وہ ہوتا ہے جو زندگی میں نہیں ہوتا تو ایسے معاشرے میں ’’مولا جٹ‘ہی بن سکتی ہے۔جس میں ظلم اور ظالم میںمقابلہ کرا کے کسی کو طاقتور ثابت کیا جائے ۔ ہمیں مار دھاڑ سے زیادہ پیار محبت سے دلچسپی ہے اور یہ الگ بات کہ مار دھاڑ والی فلموں میں بھی پیار محبت کی کہانی تو ہوتی ہے جیسا کہ مولا جٹ میں بھی ہے۔اب یہ تو ممکن نہیں کہ ہم دیکھنے جائیں اور مار دھاڑ کشت و خون والے سین پہ آنکھیں بند کر لیں۔کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور جب محبت اور پیار کا سین آئے تو آنکھیں کھول کے غور سے دیکھنے لگ جائیں۔عابدہ پروین نے ایک عارفانہ گیت میں کیا خوبصورت گایا ہے۔ اپنے بس میں کچھ بھی نئیں ہے دل نوں ای سمجھاواں۔ یعنی آدمی کچھ نہیں ہے مجبور محض ہے۔زندگی بھی ایک فلم کی طرح ہے۔جس کا اسکرپٹ خالق تقدیر نے لکھا ہے اور آدمی کو صرف اسی اسکرپٹ کے مطابق اپنے حصے کا پارٹ ادا کرنا ہوتا ہے۔وہی شیکسپیئر والی بات اور ہمیں تو لگتا ہے کہ موت کے بعد سزا و جزا فقط یہی ہو گا کہ کسی نے اپنا پارٹ کیسا ادا کیا اور ہمارا گمان غلط ہو تو ہمارے منہ میں خاک۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ مولا جٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب ہماری فلم انڈسٹری تقریباً بیٹھ گئی تھی۔دو چار ڈھنگ کی فلمیں بنیں لیکن زیادہ تر فلمیں بیکار ہی ٹھہریں ۔ایک ہفتے میں مولا جٹ نے پچاس کروڑ کما لیے جبکہ سرمایہ فلم پر پچیس تیس کروڑ کا لگا۔ اب یہ فلم دنیا بھر کے سینما گھروں میں رش لے رہی ہے۔اپنے ملک میں بھی کھڑکی توڑ ہفتہ ہے جو اس فلم کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ماضی میں جب مولا جٹ فلم بنی تھی اس وقت بھی اس نے ہر طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے ۔سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی اداکاری نے فلم میں جان ڈال دی تھی اور اب بھی فواد خان اور حمزہ علی عباسی نے بھی اپنے رول ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ہر طرف سے ان دنوں کو داد مل رہی ہے۔ہمیں بھی یہ سوچ کر اپنے آپ پہ افسوس ہوتا ہے کہ کاش!ہم بھی یہ فلم دیکھ سکتے اور کاش! ہم میں اس درجہ کشت و خون نہ ہوتا۔پیار محبت کی کہانی ہوتی۔کچھ گانا وانا ہوتا لیکن سنا ہے کہ اس فلم میں کوئی گانا ہے ہی نہیں۔یہ بھی حیرت کی بات ہے۔ہندوستان و پاکستان میں کوئی کمرشل فلم بنے اور گانا نہ ہو بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟لیکن دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ فلم میں واقعی کوئی گانا نہیں ہے۔گویا ہیرو اور ولن کو لڑنے بھڑنے ہی سے فرصت نہ ملی تو گانا کب گاتے؟ اور کس منہ سے گاتے اور گاتے تو ہتھیار کو خود سے کیسے جدا کرتے ۔ جبھی ہیرو اور ہیروئن سے گانے گوانے کا خطرہ مول لینے سے گریز اور پرہیز کیا گیا اور آپ کو تو معلوم ہے کہ اس مولا جٹ کے اسکرپٹ رائٹر بھی وہی ہیں جو پرانے مولا جٹ کے تھے۔فرق یہ ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر لاشاری صاحب نے انہیں باقاعدہ نصیحت کی کہ فلم بالکل ویسی نہ لکھنا جیسے پہلے لکھی تھی۔نئے انداز سے اس طرح لکھنا کہ آج کی فلم معلوم ہو۔تب ملک و معاشرے میں اتنا کشت و خون نہ تھا جتنا اب ہے اور ابھی تھوڑے ہی دن جاتے ہیں کہ خود کش حملوں میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں اور بموں کے دھماکے ہی دھماکے تھے۔ اسکرپٹ رائٹر نے جواباً یقین دلایا ہو گا کہ بے فکر رہیں ایسے کشت و خون کے منظر لکھوں گا کہ لوگوں کو ڈوئیٹ گانے کی کمی ذرا بھی محسوس نہیں ہو گی۔ہاں جو فلم میں ہوتا ہے وہ زندگی میں نہیں ہوتا۔زندگی میں کشت و خون تو ہے مگر ڈوئیٹ گانے کا کوئی موقع محل نہیں ہوتا۔اسی لئے فلم زندگی سے زیادہ پرکشش ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭