عربی زبان کا مقولہ ہے کہ لِکلِ دائً دَوَائٌ۔ہر مرض کا علاج ہے۔شفا من جانب اللہ ہے مگر علاج معالجے کے لئے مخلصانہ تحقیق اور ایثار پیشہ طریق علاج میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے کیونکہ اس سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے اور شعبہ امراض میں ہر دم نئے رویے اور راستے دریافت ہوتے ہیں۔فی الحقیقت بیماری ایک آزمائش اور چیلنج ہے، جو صبر‘ شکر اور ہمت کا درس دیتی ہے یہ اولادِ آدم کے درمیان ہمدردی اور باہمی محبت کو پروان چڑھاتی ہے۔اسی لئے معالج کو مسیحا اور تیمارداری کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔مولانا حالی نے خوب کہا ہے کہ: کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر حکیم الامت علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو درایں شعر یوں بیان کیا ہے: خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا ہیلپ آئزم پاکستانHelp Autssin Pakistanایک ایسی طبی اور فلاحی تنظیم ہے، جو غیر محسوس انسانی اقدار کو اجاگر کرتی ہے۔مذکورہ تنظیم کے مقاصد لفظ ہیلپ کے ابجد میں پوشیدہ ہیں۔یہ زندگی اور معاشرے کے چار بنیادی تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے عزم کا اظہار کرتی ہے۔ایچ کا معنی hope(ہوپ) امید‘ ای کا مطلب educateل کا مفہوم سیکھناlearnاور پی(پروگرس) ترقی یعنی تنظیم کے چار بنیادی مقاصد ہیں، جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔آئزم ایک بیمار ہے جس کی جدید طبی اصطلاح autssm spectrum disorder(ASD)ہے اس بیماری میں مریض کا خودکار اظہار یا بیان سقم اور نقص کا شکار ہوتا ہے عام طور پر یہ پیدائشی نقص ‘ سقم اور کمی ہے۔ مگر تنظیم کے بانی منتظمین ڈاکٹر انیقہ اور ان کے خاوند ڈاکٹر سہیل شہزاد کا کہنا ہے کہ مریض اور لواحقین بالخصوص والدین کی تعلیم و تربیت اور ترقی کی امید کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر انیقہ کا کہنا ہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں مگر اس مرض کے علاج کے لئے ہمیں انفرادی‘ اجتماعی اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہے اور مذکورہ تنظیم مطلوبہ تبدیلی کے حصول اور آگہی کے لئے سرگرم عمل ہے۔ میں اکیلا ہی چلا تھا‘ جانب منزل مگر لوگ آتے ہی رہے اور کارواں بنتا گیا ڈاکٹر سہیل شہزاد نے تنظیم کے حالیہ منعقد سیمینار میں بجا کہا کہ مرض پیدائشی ہے مگر علاج معالجے کی کوشش انسانی فطرت اور خصلت ہے۔یہ کام ایسا ہی ہے کہ جییس کسی فرد اور گھر کو آگ لگ جائے تو چڑا جسے چھوٹا پرندہ بھی اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لے کر آگ بجھانے کی کوشش کرتا ہے اور خالق کائنات کی نظر میں آگ لگانے کے بجائے آگ بجھانے والوں کی صف میں شامل ہوتا۔آئزم کی بیماری کا علاج‘ معالجہ ۔تفتیش‘ تحقیق اور تشخیص بھی ننھی چڑیا جیسی سہی مگر طبی اور معاشرتی رویوں میں بہتری اور ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہے جو مریض اور لواحقین کے ساتھ مل کر ایک عظیم فلاحی تحریک بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر انیقہ امراض بچگان کی ماہر طبیب ہیں مگر ان کی آئزم پر تحقیقی ریسرچ عالمی معیار کی حامل ہیں آئزم ایک عالمی بیماری ہے اس کے مریض اور لواحقین پوری دنیا میں موجود ہیں۔ان کا بڑا بیٹا اسد آئزم کا مریض ہے۔انہں نے اور ان کے خاوند ڈاکٹر سہیل شہزاد نے طبی بنیاد پر بیٹے کا علاج جاری رکھا اس دوران نت نئی تحقیق مشاہدے اور تجربے میں آئی اور ان کے تحقیقی مشاہدے اور تجربے نے مرض کی شدت کمی اور مریض کے رویوں میں بہتری لانے کا سبب بنی اور یہی سبب ہے کہ ان کی تنظیم help autssim pakistanکی تحقیقی ریسرچ نے قومی و عالمی ریسرچ سینٹرز کو اپنی جانب متوجہ کیا۔اس وقت یہ تنظیم امریکہ و اقوام متحدہ کی طبی تنظیموں اور پاکستان کے مختلف طبی تدریسی و تحقیقی اداروں اور ہسپتالوں کے اشتراک کے ساتھ کام کر رہی ہے۔مذکورہ سیمینار پاکستان کی طبی ریسرچ کی تحریک میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔جس مریض سے وابستہ لواحقین اور والدین کے ساتھ مذکورہ سرپرست ڈاکٹر صاحبان کے اساتذہ‘ کے علاوہ علمی‘ ادبی اور فلاحی شخصیات نے شرکت کی۔ ڈاکٹر ساجد مقبول‘ ڈاکٹر وقار حسین اور ڈاکٹر فوزیہ شوکت نے اپنے اپنے خطاب میں ڈاکٹر انیقہ اور ڈاکٹر سہیل شہزاد کی ہمت‘ محنت اور طبی فن سے والہانہ اور بے لوث خدمت کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے اس تنظیم کے تحت طبی دنیا میں بے مثال تحقیقی کاوش کی جانب نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ علاج معالجے کے لئے ایک بھر پور عملی کوشش کی ہے جس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔یہ ہمارے ایسے طالب علم ہیں جنہوں نے اپنے ادارے‘ پیشے اور استادوں کا نام بھی روشن کیا ہے۔سیمینار میں معروف شاعر فیض احمد یض کی نواسی مستز عدیل ہاشمی ‘ سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج گلبرگ کے ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا بھی شامل تھے۔سیمینار میں مریض بچوں کے لواحقین کے تاثرات بھی شامل تھے جنہوں نے مذکورہ تنظیم کے تحت علاج کرایا۔ڈاکٹر انیقہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اسد کی ماں ہوں اور اسی فخر نے مجھے یہ عزت دی کہ آج میں آئزم سے وابستہ گھرانوں کے ساتھ مل کر اس مرض میں بہتر علاج کے لئے کوشاں ہوں۔ڈاکٹر انیقہ کی ریسرچ ہے کہ آئزم کا مرض عام انسانوں کی طرح انسانی جذبات‘خیالات اور احساسات کا حامل ہے مگر اس کے اظہار کے لئے اس کی باڈی لینگوئج اور لسانی صلاحیت Speechساتھ نہیں دیتی۔آئزم کا مریض ہمہ وقت توجہ اور ہمدردی چاہتا ہے یہ لواحقین کا کام ہے کہ بچے کی عادل اور مزاج کو ہنر مندی کی طرف ڈھال دے help Sutssim pakistanاس جانب ایک قدم ہے۔یہ مرض دل‘ دماغ اور جسم کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان کا نام ہے وگرنہ ممکن ہے کہ آئزم کا مریض عام بچوں سے زیادہ حساس اور باشعور ہو۔علاج درمندی اور ہمدردی کے ساتھ ہمت اور ایثار میں پوشیدہ ہے۔